دوستی کی لاج
سندھی کہانی: الطاف شیخ
اردو ترجمہ: پیر نوید شاہ
۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کی بات ہے کہ ایک چوہے نے دریا کے پار جانا چاہا، جہاں گندم پک کے تیار ہو چکی تھی۔ چوں کہ چوہے کو تیرنا آتا نہیں تھا لہٰذا مدد کے لیے اس نے اپنے دوست مینڈک تک رسائی حاصل کی۔
”مینڈک بھائی! برائے مہربانی مجھے دریا کے پار پہنچا دو!“ چوہا بولا۔
”ضرور! اُچھل کر میری کمر پر سوار ہو جاؤ تو لے چلوں گا دریا کے پار دوست۔“مینڈک بولا۔
”لیکن مینڈک بھائی!دوران سفر میں گر پڑا تو ڈوبنے کا خطرہ ہے۔“ چوہا بولا۔
مینڈک اثبات میں گردن ہلا کے بولا:”اس بات کا خدشہ تو رہے گا دوست! ایسا کرتے ہیں ایک رسی تلاش کرتے ہیں۔ ایک سرا میں اپنی گردن میں باندھ لوں گا اورایک سرا تمھارے گرد باندھ دوں گا،تو تم محفوظ رہوں گے۔ گر بھی پڑے تو کھینچ لوں گا۔“
”ویری گڈ!“ چوہا چہک کر بولا۔چوہا اس ترکیب سے بے حد خوش ہوا اور دونوں رسی کی تلاش میں روانہ ہو ئے۔ کافی تگ و دو کے بعد انھیں ایک رسی مل گئی۔ مینڈک نے ترکیب کے تحت رسی کا ایک سرا خود کے گرد باندھا اور دوسرا سرا چوہے کے گرد۔
”چوہے بھائی! ڈرنا ورنا مت!“مینڈک نے ہمت بندھائی۔
”او کے ڈئیر!“ چوہا خوش ہو کے بولا۔
”بس تو اب اُچھل کے میری کمر پر آ جاؤ تاکہ تمھیں تازہ تازہ گندم کے مزے لوٹنے کے لیے دریا پار پہنچا دوں۔“
”کیوں نہیں!“ چوہا اتنا بول کے اچھلا اور مینڈک کی کمر پر سوار ہوا۔
چوہے اور مینڈک کا سفر شروع ہوا۔ درمیان میں ایک دو بار چوہا گرا لیکن مینڈک نے اسے کھینچ تان کر دریا پارپہنچا کر ہی دم لیا اور اپنی دوستی کی لاج خوب دکھائی۔
٭٭٭