skip to Main Content

دو دوستوں کی ایک کہانی

فرانسیسی کہانی:گائے ڈی موپساں
اُردو ترجمہ:محمد عادل منہاج
۔۔۔۔۔

انگریز فوج نے کافی عرصے سے اس علاقے کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ یہ چھوٹا سا گاؤں بھی اس خوبصورت وادی کا حصہ تھا۔ مگر اب کوئی بھی شخص گاؤں سے باہر نہیں جاسکتا تھا۔ علاقے کی سرحد پر مقامی فوجی تعینات تھے جو ابھی تک یہاں کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہاں کے لوگ فاقوں کا شکار تھے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔
ایک روشن صبح ایک گھڑی ساز شاذل سڑک کے کنارے کنارے اداس چلا جا رہاتھا۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے تھے اور پیٹ خالی تھا۔ اچانک اسے سامنے سے اپنا پرانا دوست آتا نظر آیا۔ یہ ایک تاجر تھا جس کا نام حازم تھا۔
جنگ شروع ہونے سے پہلے شاذل ہر اتوار کو صبح سویرے اٹھتا اور علاقے کی سرحد تک جاتا۔ وہاں ایک دریا بہتا تھا جس سے آگے ایک بڑی سی جھیل بھی تھی۔ وہ وہاں پہنچتے ہی دریا کے کنارے بیٹھتا اور مچھلیاں پکڑنا شروع کردیتا۔ وہیں ایک دن اس کی ملاقات حازم سے ہوئی۔ اسے بھی مچھلیاں پکڑنے کا شوق تھا۔ اب وہ دونوں ہر اتوار کا دن وہیں گزارتے۔دریا کے کنارے پاؤں لٹکائے بیٹھے ہوتے اور مچھلی پکڑنے کی راڈ پانی میں لٹکائی ہوتی۔ کبھی وہ سارا دن خاموشی سے بیٹھے رہتے مگر وہ ایک دوسرے کو اتنی اچھی طرح جانتے تھے کہ انھیں ایک دوسرے کا مدعا سمجھنے کے لیے الفاظ کی ضرورت نہ ہوتی۔ ان کے ایک جیسے مشاغل تھے اور ہر اہم معاملے پر ایک سی ہی رائے ہوتی۔
بہار کی کسی صبح جب سورج ان کی کمر پر چمکتا اور انھیں گرمی پہنچاتا اور بادل کے آوارہ ٹکڑے ادھر ادھر تیرتے پھرتے تو شاذل کہتا:’’کتنا خوبصورت دن ہے!“
اور حازم مسکرا کر جواب دیتا:”ہاں۔ شاندار!“اور انھیں ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے اس سے زیادہ اور کچھ نہ کہنا پڑتا۔
پھر سال کے آخر میں جب خزاں کا موسم ہوتا۔ سورج ٹھنڈا ہوتا اور درختوں کے پتے جھڑ جھڑ کر دریا میں گر رہے ہوتے۔ ایسے کسی موقع پر حازم مسکراتا اور شاذل کی طرف مڑ کر کہتا:
”کتنی شاندار شام ہے!“
شاذل جو مچھلی کے شکار میں مصروف ہوتا فوراً جواب دیتا:”ہاں یہ شہر کی سڑکوں پر پھرنے سے کہیں بہتر ہے۔“
مگر یہ سب کچھ جنگ شروع ہونے سے پہلے کی باتیں تھیں۔ اب شہر کی اداس اور خالی سڑک پر وہ ملے تو شاذل اداسی سے بولا:”کتنا مشکل وقت آگیا ہے۔“
حازم نے اسے دیکھا اور جواب دیا:”مگر دن تو اب بھی خوبصورت ہے نا۔اس سال کا بہترین دن۔“آسمان پر بادل کا کوئی ٹکڑا نہیں تھا اور نیلا آسمان خوب چمک رہا تھا۔
”تمھیں وہ دن یاد ہیں جب ہم مچھلیاں پکڑا کرتے تھے۔کتنے اچھے دن تھے وہ۔‘‘شاذل بولا۔
”یقینا۔ مگر اب وہ دن نہ جانے کب آئیں گے۔‘‘حازم نے کہا۔
پھر وہ بے مقصد سڑکوں پر پھرنے لگے۔ سورج خوب گرم تھا اور انھیں جھلسا رہا تھا۔ اچانک شاذل چلتے چلتے رک گیا اور بولا:”چلتے ہو!“
”کہاں؟“ حازم نے حیرت سے پوچھا۔
”مچھلیاں پکڑنے، وہیں دریا کے کنارے۔ ہمارے فوجی دریا کے اس طرف تعینات ہیں۔ میں ان کے انچارج کو جانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے وہ ہمیں تھوڑی دیر کے لیے مچھلیاں پکڑنے کی اجازت دے دے گا۔‘‘یہ سنتے ہی حازم ایک دم جوش میں بھر گیا۔
”کیا زبردست آئیڈیا ہے۔ فورا ًچلو پھر۔‘‘وہ بولا۔
وہ دونوں تیزی سے اپنے گھر گئے اور مچھلیاں پکڑنے کا سامان لیا۔ایک گھنٹے بعد وہ دونوں پھر اسی پرانے راستے پر جا رہے تھے۔ راستے میں انھیں بہت سے فوجی بھی ملے جنھوں نے مسکرا کر انھیں دیکھا مگر وہ سب تھکے تھکے لگ رہے تھے۔ جلد ہی وہ سرحد تک پہنچ گئے۔ انچارج ان کی بات سن کر مسکرایااور بولا:
”مگر دریا کے دوسری طرف دشمن فوج ہے اور ہمیں خطرہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت ادھر آ سکتی ہے۔“
”بس تھوڑی سی دیر۔“ شاذل نے التجا کی۔
انچارج کچھ سوچتا رہا اور پھر بولا:’’تمھارے پکڑے جانے کا بھی خطرہ ہے۔ اچھا پھر سنو جانا ہی ہے تو ایک کام کر کے جاؤ۔“
”وہ کیا؟“ دونوں بولے اور انچارج انھیں کچھ سمجھانے لگا۔ ان کے چہروں پر پہلے حیرت پھر جوش دوڑ گیا۔
انچارج سے بات کر کے وہ آگے بڑھے۔ انچارج نے انھیں ایک پاس ورڈ بھی بتایا تھا کہ وہ پاس ورڈ بتا کر واپس آسکتے ہیں ورنہ فوجی انھیں روک لیں گے اگر وہ نہ ہوا یا انھیں خطرہ محسوس ہوا۔دونوں بھاگتے ہوئے دریا کے کنارے جا پہنچے۔ وہاں ہر چیز ویسی ہی تھی۔یوں جیسے کچھ بھی نہ بدلا ہو۔ وہی پرسکون زندگی۔
”ادھر دشمن کے فوجی ہوسکتے ہیں۔‘‘حازم نے پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔شاذل اداسی سے مسکرایا۔ نہ جانے کیوں آج وہ دونوں خود کو اکیلا اکیلا محسوس کر رہے تھے۔ ابھی تک دشمن فوجیوں کو کسی نے نہیں دیکھا تھا مگر خبر گرم تھی کہ وہ علاقے میں داخل ہونے ہی والے ہیں۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں ہر شخص کو ہلاک کردیتے ہیں۔ کھیتوں کو آگ لگادیتے ہیں اور عمارتوں کو تباہ کردیتے ہیں۔
وہ دونوں پانی میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھے تھے اور چوکنے انداز میں ادھر ادھر دیکھ بھی رہے تھے۔ انھوں نے مچھلیاں پکڑنے کی راڈ یوں مضبوطی سے تھام رکھی تھی کہ جیسے اگر دشمن آگئے تو اسی راڈ سے ان کا مقابلہ کریں گے۔
”اگر دشمن نے ہمیں پکڑلیا تو کیا ہوگا؟“ اچانک شاذل نے پوچھا۔
”ہم ان سے کہیں گے کہ آؤ ہمارے ساتھ مچھلیوں کا شکار کرو۔‘‘حازم نے مسکرا کر کہا۔ اس کی بات سن کر شاذل بھی مسکرا اٹھا مگر وہ دونوں ہی نروس تھے۔ ان کی آنکھیں اور کا ن پوری طرح کھلے تھے مگر وہاں ہر طرف ایک سناٹا تھا۔ ایک گھمبیر خاموشی۔
اچانک جھاڑیاں ہلیں وہ زور سے چونکے اورتیزی سے بھاگے۔ دونوں ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے۔ مگر وہاں کوئی نہ تھا۔ بس ہوا ہی تو چلی تھی۔وہ دونوں وہاں تنہا تھے۔وہ دوبارہ آکر دریا کے کنارے بیٹھ گئے۔ اب وہ کچھ بہتر محسوس کر رہے تھے۔
پہلے شاذل کے ہک میں ایک مچھلی پھنسی اور اس نے تیزی سے راڈ کھینچا۔ پھر تو جلد ہی ان کی ٹوکری مچھلیوں سے بھرنے لگی۔ آج وہاں بہت مچھلیاں تھیں کیوں کہ عرصے سے کوئی شکاری ادھر نہیں آیا تھا۔اب وہ دونوں بہت خوش تھے۔ انھوں نے ایسی خوشی کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ نہ ہی پہلے کبھی اتنی مچھلیاں پکڑی تھیں۔
اچانک ایک دھماکا سا ہوا اور ان کے نیچے زمین ہلی۔ ان کے بائیں طرف دھواں سا اٹھتا نظر آیا۔شاذل نے بوکھلا کر چاروں طرف دیکھا اور بولا:”ادھر۔ ادھر کچھ ہوا ہے۔“
حازم کا راڈ ابھی تک پانی میں تھا۔ اس نے ناراضی سے ادھر دیکھا کہ کون ہے جو اتنے خوبصورت دن کو برباد کر رہا ہے۔ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں؟ کیوں لوگوں کو مارتے ہیں؟ چیزوں کو برباد کرتے ہیں۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور بات سمجھ گئے۔ اب فوجیوں کے بوٹوں کی آواز قریب آگئی تھی۔ وہ چار فوجی تھے جنھوں نے گنیں تان رکھی تھیں۔مچھلیوں کے راڈ ان کے ہاتھوں سے گر پڑے۔
وہ پکڑے گئے تھے۔ فوجیوں نے انھیں رسیوں سے باندھ دیا۔ اور پھر دریا میں ایک کشتی نمودار ہوئی۔ انھیں کشتی میں گرایا گیا اور کشتی دریا کے مرکز کی طرف چل پڑی۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہاں کوئی نہیں مگر آگے جاکر ایک چھوٹے سے جزیرہ نما پر دشمن کے فوجیوں نے کیمپ لگا رکھا تھا۔ وہاں ان کا کمانڈر ایک کرسی پر بیٹھا سگار پی رہا تھا۔ ان دونوں کو لے جا کر اس کے سامنے پیش کیا گیا۔کمانڈر نے انھیں اور ان کی مچھلیوں سے بھری ٹوکری کو دیکھا اور مسکرا کر بولا:
”ہیلو جنٹل مین۔ آج تو تم نے خوب شکار کیا۔‘‘پھر وہ انھیں غور سے دیکھتے ہوئے بولا:’’اب غور سے میری بات سنو۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم دونوں جاسوس ہو اور ہماری ٹوہ لینے ادھر آئے تھے۔ اپنا اصل روپ چھپانے کے لیے تم نے مچھلیوں کے شکاری کا بہروپ بھرا۔ مگر اب تم پکڑے گئے ہو اور یہ تمھارے حق میں بہت برا ہوا ہے۔ لیکن اب بھی تمھارے بچنے کا ایک چانس ہے۔ تم اپنی فوج کا پاس ورڈ جانتے ہو جبھی سرحد تک پہنچے۔ بس وہ پاس ورڈ مجھے بتادو۔“
دونوں دوست ایک ساتھ کھڑے تھے اور خوفزدہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔
”دیکھو اگر تم نے پاس ورڈ بتا دیا تو زندہ واپس جاسکو گے۔ تمھاری فیملی کو تمھاری ضرورت ہے۔لیکن اگر تم یونہی خاموش کھڑے رہے تو مارے جاؤ گے۔‘‘کمانڈر بولا۔
وہ ایک لفظ بھی بولے بغیر یونہی کھڑے رہے۔ کمانڈر نے دریا کی طرف اشارہ کیا اور بولا:
”صرف پانچ منٹ بعد تم اس دریا کی تہہ میں پڑے ہو گے۔ صرف پانچ منٹ بعد۔ اگر تم نے پاس ورڈ نہ بتایا۔“
دونوں پھر بھی خاموش رہے۔ کمانڈر نے فوجیوں کو اشارہ کیا اور ایک ساتھ کئی گنیں ان کی طرف تن گئیں۔ ان کے چہرے ستے ہوئے تھے۔ فضا میں تناؤ تھا۔
کمانڈر کرسی سے اٹھا اور مخالف سمت چل پڑا۔
’’میں تمھیں صرف ایک منٹ اور دیتا ہوں۔“وہ بولا۔ پھر وہ اچانک مڑا اور شاذل کے قریب آیا اور اس سے سرگوشی میں کہا:”تمھارا دوست تو بے وقوف ہے۔ تمھیں بھی مروائے گا۔ تم مجھے چپکے سے پاس ورڈ بتادو۔“ مگر شاذل خاموش رہا۔ پھر کمانڈر نے اسی طرح حازم سے بھی سرگوشی کی مگر وہاں سے بھی کوئی جواب نہ ملا۔ اور پھر آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور اس نے اشارہ کردیا۔ ٹریگروں پر انگلیاں جم گئیں۔ شاذل نے مچھلیوں کے ٹوکرے کی طرف دیکھا اور اداسی سے مسکرایا۔
”خدا حافظ حازم۔‘‘وہ بولا۔
”خدا حافظ۔“ حازم نے بھی کہا۔
”تمھارے مرنے کے بعد ہم ان مچھلیوں کو بھون کر کھائیں گے۔ آج کیا شاندار کھانا ملے گا۔“ کمانڈر مسکرایا۔ پھر اس کا ہاتھ جھکا اور گولیاں چل گئیں۔دونوں کے جسم میں بیک وقت کئی گولیاں لگیں مگر اس سے ذرا پہلے ان کے ہاتھ جیبوں میں گئے اور کچھ نکال کر مچھلیوں کے ٹوکرے میں ڈال دیا۔وہاں ایک زبردست دھماکا ہوا۔ ہر چیز ہل کر رہ گئی۔ ٹوکرے سے مچھلیاں گویا اڑ اڑ کر اچھلنے لگیں۔
ان کے انچارج نے انھیں بہت سا بارود دیا تھا جو انھیں نے مچھلیوں کے پیٹ میں بھر دیا تھا اور مرتے مرتے اس بارود کو اڑا دیا تھا۔دونوں دوست دطن پر قربان ہوچکے تھے۔اور دشمن کا ٹھکانا بھی تباہ ہو گیا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top