skip to Main Content

پوشیدہ راز

کہانی: The Playground
مصنف: Margaret Mahy
مترجمہ : ماہم احسن
۔۔۔۔۔

جہاں دریا سمندر سے ملتا ہے، وہیں پر اس قصبے کا کھیل کا میدان تھا۔ اس کھیل کے میدان کے برابر میں ایک بڑا سفید گھر تھا۔ جہاں ’ماریہ‘ رہتی تھی۔ ہر روز اسکول سے آنے کے بعد وہ کچھ دیر کے لیے کھڑکی میں کھڑی ہوکر میدان کے جنگلے کے اس پار موجود بچوں کو دیکھتی۔ اس کے دل میں بھاگتے ہوئے ان بچوں سے جا ملنے کی خواہش زور پکڑتی۔ وہ تمام دوپہر جھولوں کے اوپر نیچے جانے سے آنے والی آوازیں سنتی۔ وہ ان تمام بچوں کو دیکھتی جو کھیل کے میدان میں ادھر سے ادھر بھاگتے پھرتے۔
’’ہاں! میں وہاں جاؤں گی۔ میں ضرور جاؤں گی اور پھسلنے والے جھولے پر جھولا جھولوں گی۔‘‘ وہ سوچتی۔
لیکن پھر اسے اپنے ہاتھ گرم محسوس ہوتے اور اس پر کپکپی سی طاری ہوجاتی، پیٹ میں مروڑ سے اٹھتے، دل تیزی سے دھڑکنے لگتا، اور وہ جان جاتی کہ وہ پھر ڈر گئی ہے۔
ماریہ کا بھائی ’جم‘ اور بہن ’جولیا‘ دونوں اس سے ایک برس چھوٹے تھے۔ وہ کھیل کے میدان میں جانے سے ڈرتے نہیں تھے۔ جولیا پھسلن والے جھولے پر پھسلتے ہوئے اپنے بازو کھول کر پھیلا دیتی اور کھلکھلا کر ہنستے ہوئے پھسل جاتی۔جم گول گھومنے والے جھولے پر بیٹھ کر اس وقت تک گھومتا ہی رہتا جب تک وہ خود کو ایک لڑکے کے بجائے ایک لٹو محسوس نہ کرنے لگتا، پھر وہ چھلانگ لگا کر اتر آتا۔ اور زور زور سے ہنستے ہوئے گھاس پر قلابازی کھانے لگتا۔لیکن جب ماریہ پھسلن والے جھولے پر بیٹھتی ،اسے یوں لگتا کہ پھسلن کی ہموار اور چمکدار لکڑی سے اس کی ٹانگوں کا پچھلا حصہ جلنے لگا ہے۔ وہ اتنی تیزی سے اترتی کہ نیچے پہنچتے ہی الٹ کر گرجاتی اور سارے بچے اس پر ہنسنے لگتے اور جب وہ گھومنے والے جھولے پر بیٹھتی تو آسمان اور اردگرد موجود درخت اسے اتنی تیزی سے گھومتے نظر آتے کہ اسے متلی ہونے لگتی۔ اس کے علاوہ جھولے پر پینگیں لیتے ہوئے بھی اسے اتنا ڈر لگتا کہ وہ اس کی زنجیریں بہت مضبوطی سے پکڑ لیتی یہاں تک کہ اس کے ہاتھوں پر سرخ نشان پڑ جاتے۔
’’نا جانے میں کیوں اتنا ڈر جاتی ہوں؟‘‘ وہ اداسی سے سوچتی اور مزید سوچیں اس کے ذہن پر قبضہ کر لیتیں۔’’اگر میں جھولا جھولوں اور جھولتے ہوئے اس بارے میں نہ سوچوں تو سب ٹھیک رہے گا۔ صرف چھوٹے بچے جھولا جھولتے ہوئے گرتے ہیں۔شیروں اور بھیڑیوں سے ڈرنا ٹھیک ہے لیکن جھولوں سے ڈرنا…یہ کتنی عجیب بات ہے۔‘‘
اس رات ایک عجیب بات ہوئی۔ رات کو ماریہ کی امی کھڑکی پر پردہ ڈالنا بھول گئیں۔ اتفاق سے کھڑکی بھی کھلی ہوئی تھی۔ اور ٹھنڈی ہوا کمرے میں آرہی تھی۔ ماریہ نے سوتے ہوئے کروٹ بدلی۔چاند کی ہلکی روشنی اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے باعث اس کی آنکھ کھل گئی۔
چاند کی روشنی میں تمام چیزیں کتنی مختلف اور چمکدار لگ رہیں تھیں۔ دریا خاموش تھا اور روانی سے بہہ رہا تھا۔ دریا کا دوسرا حصہ جو آگے جا کر سمندر سے ملتا تھا بالکل سیاہ نظر آرہا تھا اور وہ پارک جہاں دن میں بہت چہل پہل اور شور رہتا تھا وہ بھی بالکل چپ چاپ تھا۔ یہ منظر بہت ہی عجیب لگ رہا تھا ،شاید اس لیے کہ سارے جھولے اپنی جگہ پر ساکت کھڑے تھے۔ تمام لال،ہرے اور نیلے رنگ کے جھولے چاندنی رات میں کسی بھوت کی طرح نظرآرہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ یہ پارک کوئی چابی سے چلنے والا کھلونا ہے جو دن کی روشنی اور کھیلنے والے بچوں کا انتظار کر رہا ہے تاکہ وہ دوبارہ چلنا شروع کردے۔ اچانک ماریہ کو دور کہیں قصبے کی گھڑی کی ٹن ٹن کی آواز آئی۔ آدھی رات ہوگئی تھی۔
اس نے سوچا کہ چاند کی روشنی نے یقینا گھڑی پر بھی کچھ نہ کچھ اثر کیا ہے۔ گھڑی کی آواز دن کے مقابلے میں زیادہ صاف سنائی دے رہی تھی۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے چاند پر کچھ سائے نظر آئے۔
’’چڑیل؟‘‘ وہ حیرت سے بول اٹھی ۔اس سے پہلے کہ وہ اپنے آپ کو یاد دلا پاتی کی چڑیلیں صرف لوگوں کی گھڑی ہوئی کہانیوں میں ہوتی ہیں ظاہر ہے کہ یہ چڑیلیں نہیں تھیں۔ بس ایک پرندوں کا جھنڈ تھا جو سمندر سے گزر کر اب زمین کی طرف آرہا تھا۔
’’اب یہ پرندے دریا کے کنارے رکیں گے۔‘‘ اس نے سوچا۔’’کتنی بیوقوفانہ بات ہے کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ پرندے رات کو بھی اڑتے ہیں۔ شاید یہ آج اس لیے اڑ رہے ہیں کیونکہ آج پورے چاند کی رات ہے۔‘‘
وہ سمندر کے کنارے پہنچے اور اسی لمحے ماریہ کو لگا ایک لمحے کے لیے اس کی آنکھوں پر پردہ سا آگیا۔ اور جب پردہ ہٹا تو اس نے جو دیکھا ،وہ اس کی جان نکال دینے کے لیے کافی تھا۔
دریا کے کنارے،درختوں کے درمیان سے جہاں پرندے اترے تھے وہیں پر سے چند بچے نمودار ہوئے۔ ہاں سچ مچ وہ بچے ہی تھے۔ بچے دوڑتے، اچھلتے، قلقاریاں بھرتے ہوئے ہنستے مسکراتے ہوئے چہروں سے اس کھیل کے میدان تک پہنچے۔
ماریہ آسانی سے ان کے گھاس پر چلتے ننگے پاؤں، ہوا سے اڑتے ہوئے سنہرے بال اور ان کی شرارت سے چمکتی آنکھیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ کھیل کے میدان میں پھیل گئے اور مختلف جھولے جھولنے لگے۔ ہنڈولا اوپر سے نیچے گھومنے لگا۔ گھومنے والا جھولا بہت تیزی سے گھوم رہا تھا۔
بچے خوشی سے ہنستے مسکراتے کھیل میں مگن تھے۔ جبکہ ماریہ اشتیاق سے ٹکٹکی باندھے انہیں تکے جارہی تھی اور اس کا دل چاہنے لگا کہ وہ بھی ان کے ساتھ مل کر مزے کرے، جھولے جھولے، ہنسے۔ اب اس کو بالکل بھی ڈر نہیں لگ رہا تھا۔ وہ خود حیران تھی کہ آج اس کے اوپر کپکپی کیوں طاری نہیں ہوئی؟ مگر وہ بس کھیل کے میدان میں جانے سے شرما رہی تھی۔ وہ انہیں کھیلتے ہوئے غور سے دیکھتی رہی اور بچے کھیلتے رہے۔
ماریہ کو یاد نہیں تھا کہ وہ کب تک دیکھتی رہی۔ بس جب اس کی آنکھ کھلی تو وہ کھڑکی کے پاس اپنے ہاتھوں کے سہارے بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے بے یقینی سے کھیل کے میدان کی طرف دیکھا۔ صبح کی سفیدی آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی اورکھیل کا میدان بالکل خالی تھا۔
’’کیا یہ سب خواب تھا؟‘‘وہ متعجب تھی۔ ناشتے کے دوران بھی وہ مسلسل سوچوں میں گم رہی۔’’کیا آج رات بھی وہ آئیں گے؟‘‘
’’اٹھ جاؤ بیوقوف! کہاں گم ہو؟‘‘جولیا نے اس کے سامنے ہاتھ لہرایا۔’’اسکول نہیں جانا کیا؟ ہمیں دیر ہورہی ہے۔‘‘
اسکول میں پورا دن ماریہ گہری سوچ میں گم رہی۔ وہ ان بچوں کے متعلق سوچتی رہی جو کہ پورے چاند کی روشنی میں آئے تھے۔ وہ بہت سست اور خاموش تھی۔ جم اور جولیا مسلسل اسے چھیڑتے رہے اور اسے خوابوں میں رہنے والی کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ لیکن ماریہ نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ گزشتہ رات اس نے کیا خواب دیکھا تھا۔
اس رات چاند کی چمک نے اسے پھر بیدار کردیا۔اس نے بے چینی سے کھڑکی سے جھانکا مگر آج بچے موجود نہیں تھے۔ کھیل کا میدان اداس دکھائی دیتا تھا۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد ماریہ کو پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز سنائی دی۔ ہاں یہ وہی پرندے تھے پھر وہ سمندر کے کنارے اترے اور درختوں کے اندر غائب ہوگئے۔ پھروہ اچھلتے کودتے کھیل کے میدان تک پہنچے۔ ماریہ اشتیاق سے کھڑکی سے جھانک کر دیکھ رہی تھی۔ اچانک ایک بچے کی نظر اس پر پڑی۔ بچے نے تمام بچوں کو ماریہ کی طرف متوجہ کیا۔اب سب بچے اکٹھے باڑ کے پاس جمع ہوکر ماریہ کو گھورنے لگے۔ کچھ سیکنڈ تک وہ ماریہ کو اور ماریہ ان کو دیکھتی رہی۔ ان کے بال آج بھی ہوا سے اڑ رہے تھے اور ان کی آنکھیں ستارے کی مانند چمکتی تھیں۔
پھر وہ ایک ترنگ سے اچھلنے کودنے لگے اور ہاتھوں کے اشارے سے اپنی طرف متوجہ کرنے لگے۔ وہ اسے بلارہے تھے!!
ماریہ جلدی سے کھڑکی سے باہر نکل گئی۔ وہ شب خوابی کا لباس پہننے ہوئے تھی، بچوں سے جا ملی۔ بچوں نے اس کے گرد مجمع لگالیا اور خوشی سے اس کے گرد گھومنے لگے۔ یہ ان کی خوشی کا اظہار تھا۔
ماریہ کو یہ سب کسی خواب کی طرح محسوس ہورہا تھا۔ وہ اب بچوں کے ساتھ گھومنے والے جھولے پر بیٹھی تھی۔ وہ بہت خوش تھی۔ حیرت انگیز طور پر اس کو ذرا بھی متلی محسوس نہیں ہورہی تھی۔ وہ بچوں کے ساتھ ہنس رہی تھی، کھیل رہی تھی۔ پھر وہ ایک بچے کے ساتھ ہنڈولے پر بیٹھی۔
’’اوہ میں اڑ رہی ہوں۔‘‘ وہ خوشی سے چلائی پھر اچانک جھولے نے ایک غیر متوقع ہچکولا لیا تو ماریہ بے اختیار ہنس پڑی۔ وہ پینگیں لینے جھولے پر بیٹھی۔ وہ بہت اونچا جھول رہی تھی۔
’’میں آج تک اتنا اونچا نہیں جھولی۔‘‘ وہ حیرت سے بولی۔ اسے لگ رہا تھا کہ جھولا خود بخود اونچا ہوتا جارہا ہے۔ اسے محسوس ہوا کہ جھولا اس گھوڑے کی طرح بھاگ رہا ہے جس کے پر لگ گئے ہوں یا پھر اس کشتی کی طرح جو تیزی سے سمندر کی لہروں کو چیرتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہو۔
’’واؤ۔۔۔یاہو۔۔۔‘‘ وہ چلائی۔’’اس جھولے کے پر لگ گئے ہیں۔‘‘
بچے اس کے ساتھ ہنسنے لگے۔ وہ خوشی سے کھیل کے میدان میں گھومنے لگے لیکن وہ کچھ نہ بولے۔ کبھی کبھی ماریہ کو یوں محسوس ہوتا جیسے وہ کچھ گارہے ہوں۔ لیکن وہ گاتے ہوئے ہمیشہ اس سے کچھ دور رہتے ،اس لیے اس کو ان کے الفاظ سمجھ میں نہیں آتے۔
کھیلتے کھیلتے آدھی رات بیت گئی اور بچوں نے اپنا کھیل ختم کردیا۔ پھر بچے میدان سے نکل کر بھاگنے لگے۔ ان کا رخ درختوں کی طرف تھا۔ ماریہ اداسی سے ان کو جاتے ہوئے دیکھتی رہی۔ جب وہ میدان سے نکل کر اپنے کمرے کی کھڑکی کے پاس پہنچی تو اس نے پرندوں کے پھڑپھڑانے کی آواز سنی، پرندے جارہے تھے۔ اس نے ان کی طرف ہاتھ ہلایا اور بستر پر لیٹ گئی۔
اگلے دن جب جم اور جولیا کھیل کے میدان میں جانے لگے تو ماریہ نے ان کو آواز دی۔
’’رکو،میں بھی آرہی ہوں۔‘‘اس نے کہا۔
’’اگر تم گرجاؤ یا تمہیں ڈر لگے تو میرے پاس مت آجانا۔‘‘جولیا نے اس کا تمسخر اڑایامگر جم مہربانی سے بولا:
’’میں تمہاری مدد کردوں گا…تم مجھے بتادینا اگر تمہارا سر چکرائے۔‘‘
’’مگر میرا سر نہیں چکرائے گا۔‘‘ماریہ نے جلدی سے کہا۔
جولیا نے متعجب ہوکر اسے دیکھا۔ وہ بے حد خوش اور بہادر نظر آرہی تھی۔
’’یہ راتوں رات کیا ہوگیا؟‘‘جولیا نے طنزکیا۔
ماریہ نے کندھے اچکائے اور کوئی جواب نہیں دیا۔
پھر ان دونوں نے حیرت سے ماریہ کی طرف دیکھا جو کھیل کے میدان میں بڑے مزے سے ایک کے بعد ایک جھولے پر مزے سے جھول رہی تھی۔ گھومنے والے جھولے پر،پھسلنے والے جھولے پر، ہنڈولے پر اور پینگوں والے جھولے پر وہ بہت اونچا جھولا جھول رہی تھی۔ سب بچوں سے زیادہ اونچا!!
’’آج ماریہ نے کھیل کے میدان میں بڑی بہادری دکھائی۔‘‘جم نے شام کی چائے پیتے ہوئے بتایا۔
’’مجھے ہمیشہ سے معلوم تھا کہ میری بیٹی بہت بہادر ہے۔‘‘ بابا نے پیار سے اس کی طرف دیکھا۔ ماریہ جھینپ کر مسکرادی۔
اگلی رات اور اس سے اگلی رات، ماریہ ہر رات کھیل کے میدان میں ان بچوں کے ساتھ کھیلتی۔ اس کو یہ سب جادومعلوم ہوتا مگر پھر بھی وہ خوش تھی اور پرجوش بھی کیونکہ اس کے پاس ایک انوکھا راز جو تھا۔ اس کی آنکھیں جگمگاتی تھیں،وہ خوش رہتی،وہ بہت بہادر ہوگئی تھی۔ کھیل کے میدان میں تمام بچے اس کو حیرت سے دیکھتے۔ وہ دبو سی بچی کہاں گئی اور یہ بہادر کیسے ہوگئی۔
’’مما!‘‘جولیا نے کہا۔’’کیا آپ کو معلوم ہے ماریہ کتنا اونچا جھولا جھولتی ہے۔ سب بچوں سے زیادہ اونچا، جم سے بھی زیادہ!!‘‘
’’کیا تمہیں اب ڈر نہیں لگتا؟‘‘ مما نے حیرانی سے ماریہ سے پوچھا۔
’’بالکل نہیں۔‘‘ماریہ نے بہادری سے جواب دیا۔’’مجھے اب ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوتا۔‘‘
’’پہلے ماریہ ہر چیز سے ڈرتی تھی۔‘‘جولیا نے کہا۔’’مگر اب یہ سب سے زیادہ بہادر ہوگئی ہے۔‘‘
ماریہ فخر سے مسکرادی۔
وہ ہر رات ان بچوں کا انتظار کرتی کیونکہ ہر رات اس کے لیے خوشیوں کا سامان لاتی۔ ماریہ اپنے ان دوستوں کے ساتھ بے حد خوشی محسوس کرتی۔
’’مجھے دیکھو!!‘‘ اس رات وہ خوشی سے چلائی۔
وہ ایک سی سا (ایک جھولا جو اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اور اس پر دو بچے بیٹھتے ہیں) کے آخری سرے پر کھڑی ہوئی تھی ’سی سا‘ کے دوسرے سرے پر موجود بچہ کھلکھلایا اوروہ بھی کھڑا ہوگیا مگر وہ پیروں پر نہیں بلکہ ہاتھوں کے بل پر کھڑا تھا!!
ماریہ جب جھولے پر پینگیں لینے لگی تو اس نے بہت اونچا جھولا جھولا۔ وہ جھولے کو تیز کرتی گئی۔ تاکہ وہ اونچا ہوجائے بہت اونچا۔ اس کو لگا وہ ستاروں تک پہنچ رہی ہے!!
’’میری طرف دیکھو۔۔۔‘‘ اس نے دوبارہ پکارا۔’’دیکھو۔۔۔‘‘
اس کے برابر میں جھولے پر پینگیں لیتے ہوئے بچہ پراسرار انداز میں مسکرایا اور ماریہ سے زیادہ تیز رفتارمیں جھولا جھولنے لگا۔
ماریہ کا صبر جواب دینے لگا۔
’’یہ میرے ساتھ چالاکی ہے۔‘‘ وہ چلائی۔’’کیونکہ میں ایک زندہ انسان ہوں، لیکن تم۔۔۔تم تو پرندوں کے جھنڈ میں سے ہو۔۔۔‘‘
اچانک میدان میں خاموشی چھا گئی، مسکراہٹیں تھم گئیں،اور گانے والوں نے گانا بند کردیا۔ جھولے رک گئے۔ گھومنے والا جھولا آہستہ ہونے لگا، سی سا رک گیا۔ ماریہ نے دیکھا تمام بچوں کے چہرے زرد ہوگئے پھر اچانک وہ کوئی آواز نکالے بغیر درختوں کی جانب بھاگنے لگے۔ ماریہ ٹھنڈی پڑ گئی۔ یہ اس نے کیا کردیا تھا!!
’’نہیں جاؤ… مہربانی کرکے رک جاؤ…‘‘ وہ بے چینی سے چیخی۔ ’’مجھے معاف کردو۔۔۔میں نے غلط کہہ دیا۔۔۔‘‘
جب اس نے یہ کہا تو اس کی آواز خالی میدان میں گونجی۔
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔‘‘ اس نے دوبارہ کہا۔ مگر وہاں اس کو سننے کے لیے کوئی نہیں تھا۔’’مت جاؤ۔۔۔!‘‘ وہ دوبارہ گویا ہوئی۔
کھیل کا میدان خاموشی سے اس کو سن رہا تھا۔ وہ بہت پریشان ہوگئی تھی، اور شرمندہ بھی تھی۔
’’میں معافی چاہتی ہوں۔۔۔!!‘‘اس نے سرگوشی میں کہا۔
باوجود اس کے کہ یہ صرف ایک سرگوشی تھی مگر انہوں نے سن لی تھی، کیونکہ انھوں نے جواب دیا تھا۔ ماریہ کو ان کی قلقاریاں اور آوازیں آئیں جو اسے خوشی خوشی الوداع کر رہی تھیں۔
اگلے ہی لمحے اس نے دیکھا پرندوں کا جھنڈ سمندر کے اوپر سے گزر کر واپس گم نام خطے کی جانب جارہا تھا، جہاں سے وہ آیا تھا۔ ماریہ اس وقت انہیں دیکھتی رہی جب تک کہ وہ نظروں سے اوجھل نہ ہوگیا۔ اب وہ اکیلی کھیل کے میدان میں چپ چاپ کھڑی تھی۔ اس نے ایک جھولے کو ہلکا سا دھکا دیا اور ایک اداسی سے بھری ہوئی آواز پورے میدان میں پھیل گئی۔ اب اس کے لیے یہاں کھڑا ہونا بیکار تھا۔ وہ بوجھل قدموں سے کھڑکی کی جانب بڑھ گئی۔

٭…٭…٭

ماریہ ابھی بھی کھیل کے میدان میں کھیلتی ہے اور وہ آج بھی اسی طرح بہادر ہے، مگر ابھی بھی اس کے دل میں ایک خواہش پیدا ہوتی ہے۔ رات کا وقت ہو اور چاند اپنی چاندنی پھیلا رہا ہو۔ وہ بیدار ہوجائے اور اچانک انجان پرندوں کا جھنڈ آئے اور بچوں میں تبدیل ہوجائے، وہ بچے اسے کھیلنے کے لیے بلائیں۔ وہ ان کے ساتھ کھیلے، خوب کھیلے!!
لیکن کھیل کا میدان ہمیشہ خالی رہا، وہ چاندنی رات میں آنے والے بچے، ان کی مسکراہٹیں اور ان کے گانے ہمیشہ کے لیے چلے گئے تھے۔ وہ کبھی لوٹ کر واپس نہیں آئے۔ وہ ایک ایسا راز بن گئے تھے جو کبھی آشکار نہیں ہوتا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top