skip to Main Content

ہمسائے

مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ: عائشہ وحید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جینی اور بوبی بہت خوش تھے۔ انہیں پتا چلا تھا کہ ان کے ساتھ والے گھر میں، جو بہت عرصے سے خالی تھا، ایک فیملی شفٹ ہو رہی ہے۔
”خدا کرے اس فیملی میں بچے بھی ہوں۔“ جینی نے کہا۔”تاکہ ہمیں بھی کھیلنے کے لیے دوست مل جائیں۔ان کے بڑے سے باغ میں کھیلنے میں کتنا مزا آئے گا۔“
تین دن بعد جب جینی اور بوبی اپنے کمرے کی کھڑکی سے جھانک رہے تھے تو انہیں ساتھ والے گھر کے باغ میں ایک بچہ نظر آیا۔ وہ ان کی عمر ہی کا تھا اور باغ میں کرسی پر بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔
”ایسا کرتے ہیں، ہم اپنا گیند اس کے باغ میں پھینک دیتے ہیں۔ جب وہ گیند واپس کرنے آئے گا تو اس سے بات کریں گے۔“ بوبی نے کہا۔
دونوں نے گیند ہمسایوں کے باغ میں پھینکا اور دونوں گھروں کے درمیان میں موجود دیوارپر چڑھ کر انتظار کرنے لگے، مگر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس بچے نے گیند کی طرف دیکھااور آرام سے دوبارہ اپنی کتاب پڑھنے لگا۔
جینی اور بوبی کو بے حد غصہ آیا۔ جینی نے دیوار پر اوپر ہوتے ہوئے اس کو آواز دی۔”آپ ہمارا گیند واپس کر دیں، پلیز؟“
”بس ایک منٹ۔“ اس بچے نے کہا اور پھر دوبارہ اپنی کتاب پڑھنے لگا۔
اب تو جینی اور بوبی کے غصے کی انتہا نہ رہی۔بہر حال وہ اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے انتظار کرنے لگے۔
اس بچے کی والدہ اس سے کوئی بات کرنے باہر آئیں تو اس نے انہیں گیند کے متعلق کچھ کہا۔پھر اس کی والدہ نے گیند اٹھایا اور جینی اور بوبی کی طرف اچھال دیا۔ بوبی بے حد غصے میں تھا۔
”کس قدر بدتمیز اور کام چور لڑکا ہے۔“ اس نے جینی سے کہا۔”میرا خیال ہے یہ بہت بگڑا ہوا اور لاڈلا ہوگا۔تبھی تو اس نے خود اٹھ کر گیند بھی واپس نہیں کی۔ہم اس کے ساتھ بالکل دوستی نہیں کریں گے۔“
اگلے دن جینی کو ایک بڑا سانیلے رنگ کا غبارہ تحفے میں ملا۔وہ خوشی خوشی اپنے باغ میں کھیل رہی تھی کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور غبارہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔جینی کے دیکھتے ہی دیکھتے وہ اڑتا ہوا ساتھ والے گھر کے باغ میں چلا گیا۔
جینی جلدی سے دیوار پر چڑھی اور جھانکنے لگی۔وہ بچہ آج پھر باغ میں بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔اس نے بھی غبارے کو دیکھامگر اس نے اٹھ کر جینی کی مدد کرنے کی زحمت نہ کی۔ جینی نے جب دیکھا کہ اس کا غبارہ ایک کانٹے دار جھاڑی کی طرف بڑھ رہا ہے تو اس کے منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی۔
”پلیز، آپ اٹھ کر میرا غبارہ پکڑ لیں۔“ وہ بے چینی سے بولی،”جلدی کریں ورنہ وہ پھٹ جائے گا۔“
عین اسی وقت دھماکے کی آواز آئی اور جینی کا غبارہ اسی کانٹے دار جھاڑی کی وجہ سے پھٹ گیا۔
جینی کو غصہ بھی آیا اور دکھ بھی ہوا۔”فضول، کاہل انسان!“ اس نے غصے میں کہا،اور بوبی کو بتانے دوڑی۔ بوبی کو بھی غبارے کا افسوس ہوا اور دونوں بچوں نے دیوار کے پاس جاکر اس لڑکے کو خوب برا بھلا کہا۔
جینی اور بوبی کی امی نے ان کی باتیں سنیں تو بہت خفا ہوئیں۔”چاہے تم اسے جتنا بھی برا سمجھو مگر تمہیں اس طرح فضول باتیں کہنے کا کوئی حق نہیں۔“ انہوں نے بچوں کو سمجھایا۔“اس طرح تو تم دونوں میں اور اس بچے میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔“
اگلے روز جینی اور بوبی اسکو ل گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے ہمسائے میں آنے والا بچہ بھی اسی اسکول میں داخلہ لے رہا ہے۔
”ہونہہ“ بوبی نے منہ پھیرتے ہوئے کہا۔”آتا ہے تو آئے۔ وہ ایک بہت مغرور، خود غرض اور کام چور لڑکا ہے اور میں اور جینی تو اس سے بالکل بات نہیں کریں گے۔“
”وہ کیوں؟“ باقی بچوں نے حیرت سے پوچھا۔پھر جب جینی اور بوبی نے اپنے ہم جماعتوں کو گیند اور غبارے والے واقعات کے بارے میں بتایا تو سب نے جینی اور بوبی کی رائے سے اتفاق کیا۔
”ایسے لڑکے سے تو ہم بھی دوستی نہیں کریں۔“ وہ بولے۔
اگلے ہفتے جب وہ بچہ جس کا نام نومی تھا، اسکول آیا اور اس نے اپنے اسکول کے ساتھیوں سے دوستی کرنے کی کوشش کی تو کوئی بھی بچہ اس سے دوستی کرنے کو تیار نہ ہوا۔
نومی بے حدحیران بھی ہوا اور پریشان بھی۔ ایساکیوں ہے کہ اس نے بڑی امید سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر کوئی اس سے سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتا تھا۔
نومی کی پریشانی کی وجہ اس کی امی نے بھی پوچھی مگر نومی نے انہیں کچھ نہ بتایا۔
”مجھے خود ہی کچھ کرنا پڑے گا۔“ نومی نے سوچا۔
چناں چہ اگلے روز نومی نے ایک چھوٹی سی بچی سے پوچھا کہ سب بچے اس سے دوستی کرنے سے کیوں کتراتے ہیں۔
”اس لیے کہ ہمیں پتا چلا ہے کہ تم بہت مغرور اورکاہل ہواور تم کسی کی مدد نہیں کرتے۔اس لیے کوئی تمہیں پسند نہیں کرتا۔“اس بچی نے کہا۔
”لیکن مجھے تو اس سے پہلے کوئی جانتا تک نہیں تھا۔“نومی نے حیرت سے کہا۔
”جینی اور بوبی تو تمہارے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں ناں،وہ تمہارے ہمسائے ہیں۔ انہوں نے ہی ہمیں سب کچھ بتایا ہے۔“ اس بچی نے کہا۔
”اچھا تو یہ دونوں میرے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں؟“ نومی نے غصے سے سوچا۔”میری تو ان سے کوئی خاص بات بھی نہیں ہوئی۔“
وہ جینی اور بوبی کے پاس گیا۔
”مجھے ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ تم میرے بارے میں کس قسم کی باتیں کرتے رہے ہو۔“وہ بولا۔”جب تمہیں میرے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں تو تم دونوں نے جھوٹ کیوں بولا؟“
”ہم نے سچ کہا ہے۔“ جینی فوراً بولا۔”جب ہمارا گیند تمہارے باغ میں آیا تو تم نے وہ تک واپس نہیں کیا اور کتاب پڑھتے رہے اور پھر میرا غبارہ بھی بچانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔“
”اس لیے ظاہر ہے کہ تم مغرور بھی ہو۔ خود غرض اور کام چور بھی۔“ بوبی نے کہا۔
نومی پہلے تو خاموشی سے سنتا رہا، پھر اس نے بولناشروع کیا۔”اب میری بات سنو۔ ایک ہفتہ پہلے میرے ٹخنے کو چوٹ آگئی تھی اور ڈاکٹر نے مجھے سختی سے چلنے پھرنے سے منع کیا تھا۔میں نے اپنی امی جان سے وعدہ کیا تھا کہ میں باغ میں اپنی کرسی سے نہیں اٹھوں گا۔میں نے تمہارا گیند بھی دیکھا تھا اور غبارہ بھی۔جب تمہارا غبارہ پھٹا تو میں نے کئی بار معذرت کرنے کی اور اپنی مجبوری بتانے کی کوشش کی مگر تم دونوں اپنی دیوار کے پاس کھڑے نہ جانے کیا بول رہے تھے کہ تم نے سنا ہی نہیں۔“
اتنا کہ کر نومی وہاں سے چلا گیا۔جینی اور بوبی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ شرمندگی کے مارے ان کا برا حال ہو رہا تھا۔
”جینی، ہم نے کتنا غلط کیا ہے۔“ بوبی نے آہستہ سے کہا۔”ہم نے بلا وجہ نومی کے خلاف باتیں کیں۔ حال آں کہ اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں تھا۔“
جینی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔”بے چارہ نومی، ہمارے اتنے برے سلوک کے باوجود اس نے کتنے اچھے طریقے سے بات کی ہے۔“وہ بولی۔”میں سب کو بتانے جا رہی ہوں کہ غلطی ہماری ہے۔ پھر میں نومی سے بھی معافی مانگوں گی۔“
”میرا بھی یہی خیال ہے۔“بوبی بولا۔
اس وقت تک نومی گھر جا چکا تھا۔جینی اور بوبی اپنے ہم جماعتوں کے پاس گئے اور ان کو ساری بات بتائی۔”یعنی نومی بے چارہ نہ مغرور ہے نہ خود غرض اور نہ ہی کام چور؟“
انہوں نے حیرت سے کہا۔”ہم نے تم دونوں کی وجہ سے اس کے ساتھ خواہ مخواہ برا سلوک کیا۔ ہم تم دونوں کو اچھا سمجھتے تھے مگر تم تو پورے چغل خور نکلے۔“
جینی اور بوبی اپنے گھر چلے گئے۔دونوں بے حد شرمندہ تھے۔ جینی نے دیکھاکہ نومی اپنے باغ میں سائیکل کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
”آؤ، ابھی نومی سے معافی مانگ لیں۔“ جینی نے کہا۔وہ دیوار کے پاس گئے اور اوپر چڑھ کر نومی کو آواز دی۔ وہ فوراً آگیا۔
”نومی“ بوبی نے بات شروع کی۔”تم اب ہم سے بات نہیں کرنا چاہو گے لیکن ہم تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔واقعی غلطی ہماری تھی۔ہم نے اسکول میں سب کو اصل بات بتادی ہے۔پلیز ہمیں معاف کردینا۔“ یہ کہ کر بوبی دیوار سے اترنے لگا۔
”ٹھہرا!“ نومی نے دیوار پر چڑھتے ہوئے کہا۔”تم نے باقی بچوں کو بتا کر بہت اچھاکیا۔ اب یقینا وہ مجھے اپنا دوست بنانے سے نہیں کترائیں گے۔چلو اب ہم بھی دوستی کر لیں۔میرا تمہارے ساتھ کھیلنے کو بہت دل چاہتا ہے۔یہ سائیکل امی جان نے مجھے وعدہ پورا کرنے اور کرسی سے نہ اٹھنے کے انعام میں دی ہے۔آؤ اس سے کھیلتے ہیں۔“
جینی اور بوبی یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ وہ جلدی سے دیوار پھلانگ کر نومی کے باغ میں گئے اور پھر سب نے کھیلنا شروع کردیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top