skip to Main Content

تندرستی، ہزار نعمت

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”اسد تمہیں کیا ہوا، جو پیٹ پکڑے بیٹھے ہو۔“ سعید نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
”بس، آج دوپہر کے کھانے میں سرسوں کے ساگ کے ساتھ مکئی کی روٹی اتنی مزے دار لگی کہ کھاتا ہی چلا گیا۔ ہم شہر والوں کو یہ چیزیں کہاں ملتی ہیں۔“ اسد نے کراہتے ہوئے کہا۔
”او ہو، یہی تو غلطی کی،تمہارا معدہ خالص چیزوں اور دیسی گھی کا کہاں عادی ہوگا، اور پھر تم نے صبر بھی نہ کیا، ہاتھ روک کر کھاتے۔ پچھلے جمعے کو مسجد کے امام صاحب نے ایک حدیث نبوی بیان فرمائی تھی،تم بھی سنو: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، سیدھے سادے رہو، میانہ روی اختیار کرو اور ہشاش بشاش رہو۔“
”بھئی میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔“ اسد نے منہ پھلا کر کہا۔
”ٹھہرو میں امی سے پوچھتا ہوں، وہ تمہیں سونف، زیرے اور پودینے کا پانی بنا دیں گی۔“ سعید اپنی امی کو بتانے چلا گیا۔
شام ہوئی تو منیر اور سعید نے اسد کو کھیتوں کی سیر کے لیے چلنے کی دعوت دی۔
”کیسے چلیں گے؟ موٹر سائیکل پر یا کار پر؟“ اس نے پوچھا۔ دونوں بھائی مسکرانے لگے۔ منیر بولا:
”اسد بھائی، یہ کراچی یا لاہور نہیں ہے، یہاں لوگ زیادہ تر پیدل چلتے ہیں۔ آپ کہیں تو گھوڑے پر لے چلیں، بھائی جان کو آتا ہے گھوڑے کی سواری کرنا۔“
”نہیں بھائی، مجھے گھوڑے سے ڈر لگتا ہے۔“
”کس کو گھوڑے سے ڈر لگتا ہے؟“ سعید اور منیر کے بابا کمرے میں داخل ہوئے۔”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سواری کے لیے گھوڑا بہت پسند تھا۔“

٭……٭……٭

تینوں لڑکے پیدل ہی سیر کے لیے چلے گئے۔ راستے بھر اسد اپنے اسکول کے قصے سناتا رہا۔ اُس کے خیال میں اُس کے اسکول کے تمام استاد، اپنا کام ٹھیک طرح انجام نہیں دے رہے تھے۔ اُس نے نفرت سے بتایا کہ ”ہر استاد بچوں کو مارنا پیٹنا فرض سمجھتا ہے۔ اسکول کے لڑکے بھی بہت خراب ہیں، اور میرے ڈیسک پر بیٹھنے والے دونوں لڑکے ماجد اور ظہیر تو ایک نمبر کے جھوٹے ہیں۔ کنجوس بھی۔۔۔“اس نے گلا صاف کیا اور ایک طرف تھوک دیا۔
”بھئی اسد، تم بُرا نہ ماننا، میرے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب بتا رہے تھے کہ انسان اگر دوسروں سے نفرت کرتا رہے گا، رنج و غم، حسد اور جلن کا شکاررہے گا تو اس کی صحت لازماً خراب ہو گی۔ اس کا معدہ بھی خراب رہے گا۔“سعید نے سنجیدگی سے کہا۔
”چھوڑ و یار، نفرت اور حسد کا معدے سے کیا تعلق۔‘‘اُس نے منہ بنا کر کہا۔
”تمھیں یقین نہیں آرہا تو رات میں ماموں جان سے پوچھ لینا۔“

٭……٭……٭

رات کو کھانے کے بعد تینوں دوست، ماموں جان کے کمرے میں پہنچے۔ وہ مسواک کر رہے تھے۔ تینوں لڑکے سلام کر کے بیٹھ گئے۔ ماموں جان مسواک اور کلی کر کے فارغ ہوئے تو سعید نے پوچھا:
”ماموں جان، نفرت، غصے اور حسد کی وجہ سے معدہ خراب ہو جاتاہے نا؟“
”ہاں، لوگ اس بات کو سمجھتے نہیں کہ پریشان رہنے، کڑھتے رہنے، دوسروں سے حسد، اور نفرت کرنے سے انسان کے اعصاب پر سخت دباؤ پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔ خون کا دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے، جو دل کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔“
”ماموں جان، یہ باتیں آپ کو کس نے بتا ئیں؟“ اسد نے حیرانی سے پوچھا۔
”دنیا کے ماہر ڈاکٹروں نے تحقیق کے بعد یہ سب باتیں معلوم کی ہیں۔ ان کی رپورٹیں دوسرے ملکوں کے رسالوں میں چھپتی رہتی ہیں۔۔۔ اور میں تمھیں ایک اور دلچسپ بات بتاؤں، ماہر ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم جو تھکن محسوس کرتے ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جن لوگوں کے ساتھ رہتے یا کام کرتے ہیں، ہم اُن سے نفرت کرتے ہیں۔۔۔ اس لیے نفرت نہیں کرنا چاہیے۔“ماموں جان نے بتایا۔
”لیکن ماموں جان، گاؤں آ کر بھی اسد بھائی کو پیٹ میں تکلیف ہو گئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یہاں بھی کسی سے نفرت کرتے ہیں۔“ منیر نے بھولپن سے کہا۔
ماموں جان اور سعید یہ سن کر مسکرانے لگے اور اسد شرما گیا۔ ماموں جان نے کہا:
”ضروری نہیں کہ پیٹ میں درد صرف نفرت کرنے کی وجہ سے ہو، آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ابتدا میں ایک دو روز شکایت ہو سکتی ہے، پھر جسم نئے ماحول کا عادی ہو جاتا ہے۔“
”ماموں جان، اسد کے پیٹ میں تکلیف تو اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے آج دو پہر کا کھانا ضرورت سے زیادہ کھا لیا تھا۔“ سعید نے وضاحت کی۔
”کھانا ہی نہیں، ہر کام اعتدال سے کرنا چاہیے اور معدے کا تو خاص خیال رکھنا چاہیے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ معدہ، جسم کے لیے حوض کی طرح ہے اور رگیں اس حوض سے سیراب ہوتی ہیں، چنانچہ اگر معدہ صحیح اور تندرست ہے تو رگیں بھی صحت سے سیراب ہو کر لوٹیں گی اور اگر معدہ ہی خراب اور بیمار ہے تو رگیں بیماری چُوس کر لوٹیں گی۔“ ماموں نے بتایا، پھر انھوں نے گھڑی دیکھی اور چونک کر بولے: ”او ہو، دس بج گئے، اب سونا چاہیے، بہت رات ہوگئی!“
”دس بجنے کو آپ بہت رات ہو گئی کہہ رہے ہیں ماموں جان؟!“ اسد نے تعجب سے پوچھا۔ ”ہم لوگ تو رات ایک ڈیڑھ بجے تک جاگتے رہتے ہیں۔“
”ایک ڈیڑھ بجے تک؟“ منیر کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔”کیا کرتے رہتے ہیں، اتنی دیر تک؟“
”بس! کبھی کیرم کھیلتے ہیں، ٹی وی دیکھتے ہیں، کمپیوٹر پر انٹرنیٹ چلا کربیٹھ جاتے ہیں۔“ اسد نے فخر سے بتایا۔
”اوں ہوں! یہ تو بالکل غلط ہے، اتنی رات گئے تک جاگنا اور بے مقصد کام کرتے رہنا تو بہت خراب بات ہے، پھر تم صبح کسی وقت اٹھتے ہو؟“ ماموں جان نے پوچھا۔
”چھٹی کے دن گیارہ، بارہ بجے، اسکول کے دنوں میں سات بجے۔“اسد نے ذرا شرمندہ ہو کر جواب دیا۔
”اسی لیے تو آپ لوگوں کی صحت خراب رہتی ہے۔ صبح کی نماز بھی نہیں ملتی، صبح کی صاف ستھری ہوا میں چہل قدمی بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ اور اتنی رات گئے تک ٹی وی یا کمپیوٹر کے سامنے بیٹھو گے تو آنکھیں تو کمزور ہوں گی، اب دیکھو اتنی چھوٹی عمر میں اسد کے عینک لگ گئی ہے۔“
”عینک تو ماموں جان، لیٹ کر اور کم روشنی میں کتابیں پڑھنے سے لگ گئی۔ ابو اور ڈاکٹر صاحب یہی کہتے ہیں۔“اسد نے سر جھکا کر کہا۔
”ہاں، وہ بھی بڑی وجہ ہے۔۔۔ اور تمہارے دانت بھی خاصے پیلے ہورہے ہیں۔ تم مسواک کیا کرو۔ یہ سنت نبوی ہے، اس کا ثواب بھی بہت ہے اورفائدے بھی بہت۔“ماموں نے کہا، اور پھر گھڑی دیکھ کر بولے:”چلیں بھئی، سارا گاؤں سو گیا اور ہم ابھی تک محفل جمائے بیٹھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ عشاء کے بعد وہی شخص جاگ سکتا ہے جس کو کوئی دینی گفتگو کرنی ہو یا پھر گھر والوں سے ضرورت کی بات چیت کرنی ہو۔“
”اچھا ماموں جان بہت بہت شکریہ۔“اسد نے کہا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
”اور بیٹے، تم صبح جلدی اٹھ کر ہلکی پھلکی ورزش کی عادت ڈالو۔ دوڑ لگا سکتے ہو، پیدل چلنا بھی اچھی ورزش ہے۔ پیرا کی بہت عمدہ ورزش ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پیرا کی فرمائی ہے۔“ ماموں نے سمجھایا۔
”ٹھیک ہے۔ سعید مجھے صبح نماز فجر کے لیے اٹھا دینا، پھر میں تمہارے ساتھ کھیتوں کی سیر کے لیے چلوں گا۔“اسد نے کہا۔
”مگر شہر میں کھیت کہاں سے لائیں گے اسد بھائی؟“ منیر نے معصومیت سے کہا۔
”کوئی بات نہیں، محلے میں کوئی پارک تو ہوگا، وہاں جا کر دوڑ لگا سکتے ہیں۔“ ماموں مُسکراتے ہوئے بولے۔ پھر انہیں کچھ یاد آیا اور وہ کمرے سے نکلتے ہوئے بچوں کو روک کر کہنے لگے:
”ایک بات بہت ضروری رہ گئی، اپنے بدن، لباس اور استعمال کی اشیاء کو پاک صاف رکھنا چاہیے، اس طرح انسان بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اس کا اجر و ثواب بھی بہت ہے، اگر انسان یہ سوچ کر صاف ستھرا رہنے کی کوشش کرے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم فرمایا ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث ہے: صفائی اور پاکیزگی آدھا ایمان ہے اور ایک حدیث میں آپ نے فرمایا: ہر مسلمان پر اللہ کا یہ حق ہے کہ وہ ہر ہفتے میں ایک دن غسل کیا کرے اور اپنے سر اور بدن کو دھویا کرے۔“
”ماموں جان، آپ نے بہت مفید باتیں بتائیں، بے حد شکریہ۔ اللہ حافظ۔“ اسد نے خوش ہو کر کہا۔
”اللہ حافظ۔“ ماموں جان بھی مسکرا ر ہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top