skip to Main Content

حضرت امام مالکؒ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

عید کا دن تھا۔
ہر طرف چہل پہل تھی، لوگ عمدہ لباس پہنے، عید کی نماز ادا کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں تھے تاکہ گھر والوں کو عید کی مبارک باد دے سکیں لیکن ایک نوجوان ایسا بھی تھا جس کے قدم اپنے گھر کی بجائے کسی اور سمت میں اٹھ رہے تھے۔ یہ بات نہیں تھی کہ وہ نوجوان اپنے گھر والوں سے خفا تھا یا اسے کسی دوست یارشتہ دار سے ملنا تھا یا وہ کسی تفریح میں حصہ لینے کے لئے جا رہا تھا بلکہ وہ نوجوان ایک بہت بڑے عالم کے مکان پر جا کر رک گیا۔
نوجوان نے دروازے پر دستک دی اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہو گیا۔ بہت بڑے عالم نے نوجوان سے پوچھا:
”تم عید کی نماز پڑھ کر گھر نہیں گئے؟“
”نہیں!“
”کچھ کھا لو۔“
”جی نہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔“
”پھر کیا ارادہ ہے۔؟“
”حدیث بیان فرمائیے!“
بزرگ نے اس نوجوان کو کتاب لانے کا حکم دیا۔ نوجوان کتاب نکال کر لایا۔ بزرگ نے چالیس حدیثیں بیان کیں، نوجوان نے کہا:
”اور فرمائیے۔“
”یہی کافی ہیں۔“ بزرگ نے فرمایا۔”اگر تم نے یہی حدیثیں یاد کر لیں تو تمہارا شمار حفاظ میں ہو گا۔“
”میں نے یاد کر لیں!!“ نوجوان نے انکشاف کیا۔
بزرگ نے نوجوان کے ہاتھ سے کتاب لے لی اور فرمایا:
”بیان کرو۔“
نوجوان نے وہ تمام چالیس حدیثیں لفظ بہ لفظ بیان کر دیں جو ابھی چند لمحوں قبل، بزرگ نے اس کے سامنے بیان کی تھیں۔
بزرگ کے لبوں کو جنبش ہوئی، انہوں نے فرمایا:
”جاؤ! تم علم حدیث کے بلند پایہ عالم بنو گے۔“
یہ نوجوان تھے مالک بن انس جو آگے چل کر امام مالک کہلائے اور بزرگ تھے امام ابن الشہاب الزہری جن سے علم کے حصول کے لئے مالک نے یہ بھی گوارا نہ کیا کہ نماز عید کے بعد گھر چلے جائیں۔ خود امام مالک کے کہنے کے مطابق۔
”میں نے سوچا کہ آج ایسا دن ہے کہ امام ابن الشہاب فارغ ہوں گے، اس لئے ان کے پاس چلا گیا۔“
علم دین حاصل کرنے کے لئے یہ شوق، جستجو، تڑپ اور لگن تھی جس نے امام مالک کو فقہ کے چار بڑے اماموں میں سے ایک کے بلند مرتبہ پر فائز کیا۔ آپ کی پوری زندگی ایک روشن مینار کی مانند ہے جس سے آنے والی نسلیں نور کی کرنیں لے کر اپنی سیرتوں کو منور کر سکتی ہیں۔
آپ کا نام مالک، کنیت ابو عبد اللہ اور لقب ”امام دار الہجرۃ“ یعنی مدینے کا امام ہے۔ 93ھ /711ء میں مدینہ میں پیدا ہوئے۔ یہ بنی امیہ کی حکومت کے عروج کا زمانہ تھا۔ ولید بن عبدالملک حکمران تھے اور اسلامی حکومت مشرق میں ترکستان (چین) کابل اور سندھ اور مغرب میں افریقہ اور اسپین تک پھیل چکی تھی۔ اسلامی حکومت کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مملکت اسلامی میں سورج غروب نہیں ہوتاتھا۔!!
امام مالک نے ایسے گھر میں آنکھ کھولی جو علم حدیث کی روشنی میں منور تھا۔ آپ کے دادا حضرت مالک بن ابی عامر بڑے تابعی اور علماء میں سے تھے۔ والد انس بن مالک محدث تھے اور بھائی نصر تو خود ہی علم حدیث میں مشغول تھے۔
ننھے مالک بن انس کو بچپن میں پرندے پالنے میں بہت دلچسپی تھی۔ آپ کی والدہ محترمہ عالیہ بنت شریک نے اپنے لخت جگر کو دینی تعلیم کی طرف راغب کیا۔ آپ نے پہلے ایک مکتب میں حضرت علقمہ بن ابی علقمہ سے عربیت، نحو اور عروض کی تعلیم حاصل کی اور قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد تجوید میں مہارت حاصل کی۔ اس زمانے میں مسجد نبوی کو درسگاہوں میں مرکزی حیثیت حاصل تھی۔
آپ نے قرات میں اہل مدینہ کے امام حضرت نافع بن نعیم سے قرات سیکھی۔
پھر اس کمسن لڑکے کے دل میں علم حدیث سیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ گھر والوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا، والدہ محترمہ معصوم بچے کی زبان سے یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھیں۔ فوراً عمدہ لباس پہنایا،سر پر عمامہ باندھا اور کہا:
”جاؤ اور ابھی جاکر تعلیم حاصل کرنا شروع کر دو۔“
والدہ کے شوق دلانے پر مستقبل کا یہ فقیہ مسجد نبوی میں حضرت ربیعہ رائی کی درس گاہ کا طالب علم بن گیا۔
اس نووارد طالب علم کا حال یہ تھا کہ جو پڑھتا تھا،اسے یاد کر لیتا تھا۔ روزانہ سبق پڑھنے اور لکھنے کے بعد یہ لڑکا بجائے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے کودنے کے درختوں کے سائے میں جا بیٹھتا۔ ایک دن بہن نے دیکھ لیا۔ والد سے جا کر کہا،”مالک درختوں کے سائے میں بیٹھے ہیں۔“ والد نے فرمایا۔ ”بیٹی وہ رسول اللہ کی احادیث یاد کرتے ہیں۔“
حضرت ربیعہ رائی کے ساتھ ساتھ مالک دیگر اساتذہ سے بھی علم حاصل کر رہے تھے۔ امام مالک خود کہتے ہیں، میرے والد نے ایک دفعہ مجھ سے اور میرے بھائی نصر سے ایک مسئلہ پوچھا۔میرے بھائی نے صحیح جواب دیا۔ میں نے غلطی کی، والد نے کہا۔”علم حاصل کرنے میں تم ہجوم کی وجہ سے پیچھے رہ گئے۔“ (یعنی بیک وقت کئی اساتذہ سے علم حاصل کر رہے ہو) مجھے غصہ آگیا۔پھر میں حضرت ابن ہرمز کے پاس جا کر سات سال تک علم حاصل کرتا رہا اور ان کے علاوہ دوسرے علماء کرام سے نہ ملا۔ شروع میں یہ حال تھا کہ مالک کو لوگ ”نصر کے بھائی“ کے نام سے پہچانتے تھے۔بعد یہ نوبت آئی کہ نصر کا ذکر مالک کے بھائی کے نام سے کیا جانے لگا۔
علم حدیث کے شیدائی، مالک نے اب حضرت نافع بن عمر کی مجلس کا رخ کیا لیکن حضرت ابن ہرمز سے حصول علم ترک نہ کیا۔ امام مالک خود فرماتے ہیں۔”میں حضرت نافع کے پاس دوپہر کے وقت آتا تھا، سخت دھوپ سے کسی درخت کے نیچے پناہ نہیں ملتی تھی۔ میں ان کے نکلنے کا انتظار کرتا۔ وہ آتے اور مجلس میں داخل ہونے تک میں ان سے مسائل پوچھتا۔“ امام صاحب نے حضرت نافع سے بارہ سال تک علم حاصل کیا۔ واضح رہے کہ حضرت نافع کا مکان مدینہ منورہ سے باہر بقیع میں واقع تھا۔
ایک دن حضرت امام ابن اشہاب الزہری سے ملاقات ہوئی۔ امام مالک کے استاد حضرت ربیعہ رائی بھی ساتھ تھے۔ حضرت ابن الشہاب الزہری نے چالیس سے زائد احادیث بیان کیں۔ امام مالک کا کہنا ہے کہ دوسرے دن ہم امام الزہری کے پاس گئے۔انہوں نے فرمایا:
”کتاب میں دیکھو تاکہ میں حدیثیں بیان کروں۔ کل میں نے جو کچھ بیان کیا تھا، کیا تم نے دیکھ لیا؟“
حضرت ربیعہ نے کہا۔ ”یہاں ایک شخص موجود ہے جو تمام احادیث آپ کو سنا دے گا، جو آپ نے کل بیان کی تھیں۔“ امام الزہری نے پوچھا ”وہ کون ہے؟“ حضرت ربیعہ نے بتایا”ابن ابی عامر“ (امام مالک) امام الزہری نے فرمایا۔”سناؤ“۔میں نے انہیں چالیس احادیث سنا دیں۔ امام الزہری نے تعجب سے کہا۔ ”میں سمجھتا تھا کہ یہ احادیث میرے سوا کسی دوسرے کو یاد نہیں ہیں۔“ اس کے بعد امام مالک ابن الشہاب الزہری سے بھی علم حاصل کرنے لگے۔ امام الزہری نے اپنے ہونہار شاگرد کا نام”علم کا محافظ“ رکھ دیا تھا۔
سال ہا سال تک اپنے سینے کو علم دین سے منور کرنے کے بعد اب وقت آگیا تھا کہ امام مالک خود مسجد نبوی میں مسند درس پر فائز ہوں اور مسائل کے سلسلے میں فتوے دیں، لیکن امام مالک نے خود آگے بڑھ کر یہ بارگراں نہیں اٹھایا۔ آپ فرماتے ہیں:
”میں خود نہیں بیٹھا یہاں تک کہ اہل علم میں سے ستر علماء کرام نے شہادت دی کہ میں اس منصب کا اہل ہوں۔“

اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں امام مالک نے پچاس سال سے زائد عرصہ تک درس دیا۔ درس کی مجلس نہایت پروقار ہوتی تھی، آپ کے شاگرد کہتے ہیں۔”امام صاحب ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے تو ایسا لگتا تھا گویا ہم ہی میں سے ہیں۔ کھل کر باتیں کرتے تھے لیکن جب درس دینے بیٹھتے تو ان کے کلام سے ہم پر ہیبت طاری ہو جاتی، گویا وہ ہمیں پہچانتے ہی نہیں نہ ہم انہیں جانتے ہیں۔“
مجلس کے وسط میں شہ نشین تھی جس پر امام صاحب صرف اس وقت تشریف رکھتے جب حدیث املاء کروانی ہوتی، مجلس میں شرکت کرنے والوں کے لئے جگہ جگہ پنکھے رکھے ہوتے تھے۔ حدیث کا درس ہوتا تو عود اور لوبان جلایا جاتا۔ صفائی اور نفاست کا یہ حال تھا کہ فرش پر ایک تنکا بھی نظر نہ آتا تھا۔
امام مالک فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے تھے۔ طویل باتوں سے ہمیشہ گریز کرتے۔ فرضی مسائل پر فتویٰ نہ دیتے تھے اور اسے فتنہ قرار دیتے تھے۔ اپنا جواب ماشاء اللہ لاقوۃ الا باللہ سے شروع کرتے اور اکثر اپنے فتوے کے آخر میں کہتے۔”یہ صرف ہمارا خیال ہے، ہمیں اس پر پکا یقین نہیں ہے۔“ اخلاص نیت کا یہ عالم تھا کہ ان مسائل پر فتویٰ نہیں دیتے تھے جو قاضیوں (ججوں) کا حق تھے۔ فتویٰ دینے میں بہت غور سے کام لیتے تھے اور خود آپ کا کہنا ہے کہ اکثر مجھے ایسے مسائل آجاتے ہیں کہ ایک سال کی راتیں ان پر سوچنے میں گزاردیتا ہوں۔
جن مسائل یا احادیث کے بارے میں پوری طرح مطمئن نہ ہوتے ان پر کوئی فتویٰ نہ دیتے۔ ایک بار ایک شخص چھ ماہ کا طویل سفر کر کے ایک مغربی ملک سے آپ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ اس نے ایک مسئلہ دریافت کیا۔ آپ نے سادگی سے فرمایا۔ ”میں نہیں جانتا۔“ وہ شخص حیران رہ گیا۔ کہنے لگا۔”حضرت میں اتنا طویل سفر طے کر کے صرف اس مسئلے کا جواب لینے کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں جواب لئے بغیر لوٹ کر جاؤں گا تو میرے وطن کے لوگ کیا کہیں گے؟“امام صاحب نے فرمایا۔”جا کر کہہ دینا مالک نے کہا ہے، میں اس مسئلے کا جواب نہیں جانتا۔“
فتویٰ دینے میں عمر بھر اس قدر احتیاط سے کام لینے کے باوجود خوف خدا سے معمور اس عظیم بزرگ کا حال یہ تھا کہ جب بیمار پڑے اور بچنے کی کوئی امید نہ تھی تو آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ایک شاگرد نے رونے کا سبب دریافت کیا اس پر جواب ملتا ہے:
”میں نہ روؤں تو کون روئے؟ اے کاش مجھے میرے ہر قیاسی فتویٰ کے بدلے ایک کوڑا مارا جاتا اور میں فتویٰ نہ دیتا۔“
یہی الفاظ ادا کرتے ہوئے سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔
امام مالک نے اگرچہ کثیر تعداد میں احادیث بیان فرمائی ہیں لیکن آپ نے حدیثوں کے انتخاب میں بہت احتیاط سے کام لیا ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ ہر سنی ہوئی روایت کو بے تحقیق بیان کر دینا عقل مندی نہیں۔آپ نے اپنی مشہور کتاب موطا میں ابتداً دس ہزار احادیث میں سے چار ہزار حدیثیں منتخب کر کے شامل فرمائی تھیں۔ آپ کی وفات تک نظر ثانی کے نتیجے میں ایک ہزار سے کچھ زائد احادیث اس کتاب میں رہ گئیں۔
موطاء کی تالیف امام مالک نے عباسی خلیفہ منصور (136ھ /185ھ /775ء) کے دور میں شروع کی اور منصور کے آخری زمانہ خلافت تک وہ مسودہ مکمل کر چکے تھے۔ اس زمانے میں ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ خلیفۃ المسلمین ایک ایسی جامع کتاب مقرر کریں جس کے مطابق سارے مقدمات کا فیصلہ ہو، چنانچہ امام مالک نے موطا لکھی۔ اس کتاب میں احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین کے اقوال شامل ہیں۔
امام صاحب حدیث کے ساتھ ساتھ ”درایت“ یعنی حدیث کے راویوں کی صحت بیان کو پرکھنے کے امام بھی تسلیم کئے گئے ہیں، وہ فقہاء مدنیہ میں پہلے فرد ہیں جنہوں نے غیر ثقہ راویوں اور ثقہ راویوں کو الگ الگ کیا۔
امام مالک اور ان کے دور کے دیگر جید علمائے کرام کی سیرتوں کا مطالعہ کریں تو ایک بات خاص طور پر ابھر کر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ان بزرگوں نے گو فقہ کے مختلف مسالک پیش کئے۔ کئی امور میں ایک دوسرے سے سخت اختلاف کیا لیکن کبھی ایک دوسرے کے بارے میں ذرہ برابر تعصب کو دل میں جگہ نہ دی۔
حضرت لیث بن سعد فرماتے ہیں، میں مالک سے مدینہ منورہ میں ملا، دیکھا کہ پیشانی سے پسینہ پونچھ رہے ہیں، سبب دریافت کیا تو جواب ملا:
”ابو حنیفہ کے سامنے پسینہ آگیا وہ تو بڑے فقیہ ہیں۔“
حضرت لیثؒ کہتے ہیں، پھر میں امام ابو حنیفہ سے ملا ان سے پوچھا۔”آپ کو امام مالک کی کیا بات پسند آئی۔“ جواب ملا۔”صحیح جواب اس قدر جلد دینے والا میں نے اور کوئی نہیں دیکھا اور نہ اس قدر پر کھنے والا پایا۔“
اسی طرح امام ابو حنیفہ اور امام مالک کو دیکھا گیا کہ عشاء کی نماز کے بعد مسجد نبوی میں علمی گفتگو شروع ہوئی تو فجر کی نماز تک جاری رہی، جب کسی مسئلہ میں ایک امام دوسرے کے قول پر مطمئن ہو جاتا تھا تو بلا تامل اس کو اختیار کر لیتا تھا۔
امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں۔”امام مالک اہل علم کے سرداروں میں سے ایک ہیں، وہ حدیث اور فقہ میں امام ہیں کوئی ان کا مثل نہیں۔“
ہارون الرشید نے چاہا کہ امام مالک کی موطا خانہ کعبہ میں آویزاں کر دی جائے لیکن خود امام مالک نے فرمایا۔”ایسا نہ کرو، صحابہ کرام خود جزوی باتوں میں مختلف ہیں اور وہ کئی ملکوں میں پھیل چکے ہیں اور ان میں سے ہر ایک نیک راہ پر ہے۔“
امام صاحب نے اپنی چھیاسی سال کی عمر میں ولید بن عبد الملک سے لے کر ہارون الرشید تک، بنوامیہ اور بنو عباس کے متعدد حکمرانوں کو دیکھا۔ آپ ان سے ملتے بھی رہے، بعض اوقات ان کے تحفے بھی آپ نے قبول فرمائے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس مرد جری نے کبھی کسی حکمراں کے سامنے حق بات کہنے سے گریز نہ کیا۔ کسی حکمران کی خوشامد نہ کی اور کسی حکمراں سے بے جا رعایتیں حاصل نہ کیں۔
آپ سے ایک شاگرد نے کہا۔”لوگ کہتے ہیں آپ امراء سے ملتے ہیں۔“ فرمایا۔”یہ تو میرے لئے لازم ہے، اس لئے کہ میں انہیں بہت سی نامناسب باتوں سے منع کرتا ہوں۔“ ایک اور بار خلفاء کے دربار میں جانے پر اعتراض کیا گیا تو جواب دیا۔ ”اگر نہ جاؤں تو حق گوئی کا موقع کہاں ملے؟“
خلیفہ منصور کے دربار کا قاعدہ تھا کہ جو دربار میں داخل ہوتا، خلیفہ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتا، لیکن امام مالک نے کبھی ایسا نہ کیا۔”آپ کی نگاہوں میں اتنا رعب تھا کہ لوگ نظریں نہ ملا پاتے تھے، حکام پر بھی ان کی زبردست ہیبت طاری تھی۔
خلیفہ مہدی نے اپنے دونوں بیٹوں موسیٰ اور ہارون کو حکم دیا کہ امام صاحب سے موطاء سنیں۔ موسیٰ اور ہارون نے امام صاحب کو بلوایا۔ امام صاحب نے بے نیازی سے کہا علم بیش قیمت چیز ہے، اس کے پاس خود شائقین آتے ہیں۔“
ہارون الرشید 170ھ /786ء میں خلیفہ بنے۔ چار سال بعد اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر حج کے ارادے سے آئے۔ آپ سے ملے تو موطا سننے کی خواہش ظاہر کی۔ آپ نے فرمایا۔”کل کا دن اس کے لئے ہے۔“ ہارون اگلے دن انتظار کرتے رہے مگر آپ نہیں گئے۔ ہارون نے شکایت کی۔ امام صاحب نے فرمایا:
”علم کے پاس لوگ آتے ہیں، علم لوگوں کے پاس نہیں جاتا۔“

آخر ہارون خود اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوئے،وہاں طلبہ کا ہجوم تھا۔ ہارون نے کہا۔”اس بھیڑ کو الگ کر دیجئے۔“ امام صاحب نے کہا کہ ایک شخص کے فائدہ کے لئے عام افادہ کا خون نہیں کیا جا سکتا۔
پھر ہارون مسند پر بیٹھ گئے۔ امام نے فرمایا۔”تواضع پسندیدہ ہے۔“ ہارون مسند سے اتر آئے۔ پھر امام صاحب کے شاگرد نے قرات کی، بعد میں امام صاحب نے خلیفہ ہارون کی توجہ مدینہ کے فقراء کی جانب دلائی، ہارون نے ان فقراء کی دل کھول کر امداد کی۔
امام صاحب خوب سمجھتے تھے کہ خلفاء اور حکام کے نزدیک جو لوگ رہتے ہیں وہ ان کی جھوٹی تعریف کرتے ہیں چنانچہ آپ ایسے شخص سے سخت ناراض ہوتے تھے جو بادشاہوں کے منہ پر ان کی تعریف کرتا ہو۔ ایک بار ایک حاکم امام صاحب کے پاس موجود تھے۔ حاضرین میں سے کسی نے حاکم کی تعریف شروع کر دی۔ امام صاحب برہم ہو گئے فرمایا۔”احتیاط کرو ایسا نہ ہو کہ تعریف کرنے والوں کے دھوکے میں آ جاؤ۔“
امام صاحب نے ایک روایت کے مطابق 75 اور ایک روایت کے مطابق 94 جلیل القدر اساتذہ کرام سے علم حاصل کیا لیکن حصول علم کے سلسلے میں امام صاحب نے بڑے نکتہ کی بات ارشاد فرمائی کہ اس کے لئے صرف زہدو تقویٰ اور سادگی ہی نہیں علم و فہم اور پختگی بھی درکار ہے۔“
امام صاحب نہایت نفاست پسند تھے۔ ہمیشہ بیش قیمت لباس آپ کے بدن پر رہتا تھا، قیمتی کپڑے عدن سے منگوایا کرتے تھے، بہت اچھی خوشبو استعمال کرتے تھے۔ جس گلی سے نکل جاتے دیر تک خوشبو سے مہکتی رہتی۔ کھانے کا ذوق بھی بے حد عمدہ تھا۔آپ فرماتے تھے۔”میں کسی آدمی کے لئے پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی نعمتیں دی ہوں اور پھر ان کے آثار اس پر ظاہر نہ ہوں۔“
ان سطور سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ امام مالک عمر بھر آرام و آسائش کی زندگی بسر کرتے رہے۔ آپ نے علم دین کے حصول کے لئے بے شمار سختیاں بھی جھیلی ہیں اور آپ پر وہ دور بھی آیا ہے جب آپ کی معاشی حالت اتنی خراب تھی کہ آپ کی بچی بھوک سے بے تاب ہو کر رویا کرتی تھی اور یہ خوددار شخص اپنی خادمہ سے کہتا تھا کہ چکی چلائے تاکہ پڑوسی بچی کے رونے کی آواز نہ سن سکیں۔ امام صاحب تنگ دستی سے دوچار رہے لیکن آپ نے علم کا حصول ترک نہ کیا اور اس غرض سے اپنے گھر کی چھت کی لکڑیاں تک بیچ دیں:
”علم میں کمال اس وقت تک حاصل نہیں ہو تا جب تک علم حاصل کرنے والا فقر میں مبتلا نہ ہو اور اس پر بھی وہ بہر حال علم حاصل کرنے کو ترجیح دے۔“
امام مالک کی حق گوئی، فراخدلی اور عفو و درگزر کے واقعات تاریخ اسلام میں درخشاں ستاروں کی طرح جگمگا رہے ہیں۔ جب آپ نے جبراً دلوائی گئی طلاق کے خلاف فتویٰ دیا تو خلیفہ منصور کے چچا زاد بھائی جعفر نے جو مدینہ کے حاکم تھے، آپ سے کہا کہ ایسا فتویٰ نہ دیں کیونکہ لوگ اس فتوے کی روشنی میں منصور کی بیعت کو ”جبری“ قرار دے رہے ہیں۔ یعنی امام صاحب کے فتوے سے یہ اصول اخذ کیا گیا ہے کہ جبر کے ذریعہ کروایا گیا ہر کام ناجائز ہے اور منصور نے جبر کے ذریعہ بیعت لی ہے چنانچہ یہ بیعت ناجائز ہے۔ تاہم امام مالک جبری طلاق کے خلاف فتویٰ دیتے رہے۔
جعفر نے امام صاحب کو ستر کوڑے لگوائے۔ آپ کی پیٹھ خون سے بھر گئی۔ دونوں ہاتھ مونڈھوں سے اتر گئے، پھر جعفر نے آپ کو اونٹ پر بٹھایا اور شہر میں گھمایا۔ آپ بازاروں اور گلیوں سے گزر رہے تھے اور یہ مرد حق بلند آواز سے کہہ رہاتھا:
”جو مجھ کو جانتا ہے وہ تو جانتا ہی ہے، جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں مالک بن انس ہوں اور فتویٰ دیتا ہوں کہ جبری طلاق درست نہیں۔“
امام مالک نے 117ھ / 735ء میں درس و تدریس کی مسند سنبھالی تھی۔ ربیع الاوّل179 / 795ء میں آپ کا انتقال ہوا۔ اس طرح 62 سال تک امت کو علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کرنے کے بعد مدینہ کا امام مدینہ کی خاک میں جا بسا۔ وفات کے وقت آپ کی عمر چھیاسی سال تھی۔ آپ کی تدفین جنت البقیع میں ہوئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top