سونے کا تاج
کاوش صدیقی
اللہ بخش کھیتوں کو جاتے ہوئے نیو گولڈ ہاؤس کے سامنے سے گز را تو چندلمحوں کے لیے شوکیس میں ہے چمکیلے زیورات د یکھ کر رک گیا۔
اندر بیٹھے ہوئے رفیع اللہ نے آواز لگائی: ’’اندر آ جاؤ اللہ بخش۔ چائے پی لو۔‘‘
اللہ بخش نے اپنی ٹرالی دکان کے ایک طرف کھڑی کی اور ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے اندرداخل ہو گیا۔
’’السلام علیکم۔‘‘ اس نے رفیع اللہ او روجیہہ اللہ کو سلام کیا اور سامنے رکھی ہوئی کشن لگی بنچ پر بیٹھ گیا۔ رفیع اللہ نے چائے کی پیالی اسے دیتے ہوئے پوچھا:
’’کیابات ہے تم بہت غور سے شیشے میں رکھے ہوئے زیورات دیکھ ر ہے تھے۔ کوئی خریداری کا اراد ہ ہے کیا؟‘‘
’’ارے نہیں۔ ہمارے پاس اتنے پیسے کہاں؟‘‘ اللہ بخش نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔’ ’دال روٹی ہی چل جائے تو غنیمت ہے۔‘‘
’’ا بھی تو فصل ہونے والی ہے۔ اس مرتبہ بارشوں کی وجہ سے فصل بھی بہت اچھی ہوئی ہے۔‘‘وجیہہ اللہ نے کہا:’’ پیسے ہی پیسے ہونے ہیں۔‘‘
’’ فصل کے آسرے پر ہی تو ادھا رکھاد، ادھار سپر ے، ادھار نمک مرچ لیتے ہیں۔ ادھر فصل پکی ادھر خرچے پورے۔‘‘
’’صحیح کہہ رہے ہو، مہنگائی بہت ہوگئی ہے۔‘‘ رفیع اللہ نے کہا: ’’اب تو لوگ پرانے زیورہی پالش کرا کے نئے کرا لیتے ہیں، نئے تو کم ہی بنتے ہیں۔‘‘
رفیع اللہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنا چا ہیے۔‘‘وجیہہ اللہ نے اپنے چھوٹے بھائی کی سرزنش کی۔’’ بہت سوں سے اچھے ہیں۔‘‘ ’’اچھاجی اجازت۔‘‘ اللہ بخش نے چائے کی پیالی شیشے کے کاؤنٹر پر رکھی اور سلام کر کے باہر نکل آیا۔ باہر آ کر اس نے اپنی ٹرالی پکڑی اور کھیتوں کی طرف چل دیا۔
محراب پورا ایک چھوٹا سا دیہاتی گاؤں تھا، جہاں زیا دہ تر کسان آباد تھے، جو سارا سال اپنی زمینوں پر محنت کر تے ،فصل اگاتے تھے۔ گاؤں کے وسط میں ایک چھوٹا سا با زا رتھا جس میں مختلف ساز و سامان فروخت کرنے والوں نے دکانیں بنا رکھی تھیں۔کوئی درزی تھا، کوئی جوتے مرمت کرتا تھا۔ ایک بڑی دکان زرعی آلات کی تھی۔ ایک نسیم اللہ کی دکان بھی تھی، کریانے کی، جس میں دال،مصا لحے، گھی، تیل اور ضرورت کی دیگر چیز یں بھی فروخت ہوتی تھیں۔ان ہی دکانوں میں نیو گولڈ ہاؤس، سونے چاندی کے زیورات کی دکان بھی تھی۔
اللہ بخش کوسونے کے زیورات اچھے لگتے تھے۔ جب وہ چھوٹا تھا، تب بھی اپنے باپ کے ساتھ بازار سے گزرتے ہوئے نیو گولڈ ہاؤس کی شیشے گی الماری میں رکھے سونے کے سنہرے زیورات اس کو بہت اچھے لگتے تھے۔
مگر وہ ہمیشہ دکان کے آگے سے سلام دعا کر کے گزر جاتے تھے۔اسے یاد تھا کہ ایک مرتبہ اس کے باپ نے فصل بہت اچھی ہونے پر اس کی ماں کے لیے چاندی کے دو کنگن خریدے تھے۔اس خریداری کے لیے بھی اس نے اپنے باپ کو اکثر رات میں بار بار چھو ٹے چھوٹے نوٹ اور ریز گاری گنتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب و ہ کنگن دکان سے خرید کر نکلے تھے تب اس نے اپنے باپ سے پوچھا تھا: ’’ابا! تم نے و ہ سنہر ے والے کنگن کیوں نہیں خریدے مجھے وہ پسند ہیں۔‘‘
’ ’بیٹا وہ بہت مہنگے ہیں۔ ہم نہیں خرید سکتے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ اللہ بخش نے ٹھنک کر پوچھا۔
’’ بیٹا وہ پیلے رنگ کے سنہرے زیورات سونے کے ہیں۔ وہ اتنے مہنگے ہیں کہ ہم جیسے غریب لوگ بس دیکھ سکتے ہیں۔‘‘ اس کے باپ نے بتایا اور کہا: ’’جب تم تھوڑے بڑے ہو جاؤ گے تو پھر ہم دونوں مل کے محنت کر یں گے۔ دگنے پیسے کمائیں گے ۔پھر پیسے جمع کر کے سونے کے زیورات خرید یں گے۔‘‘اس کے باپ نے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اللہ بخش نے جواب دیا اور دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ وہ بہت سارے پیسے جمع کرے گا اور سونے کے زیورات خریدے گا۔ مگر اس کے لیے بڑا ہونا ضروری تھا اور بڑا ہو نے کے لیے انتظار کرنا پڑ تا ہے۔لہٰذ او ہ انتظار کر نے لگا اپنے بڑے ہونے کا۔ دن گزرتے رہے۔ اللہ بخش بڑا ہو گیا۔ اب اس کے جوتے چھو ٹے ہو گئے تھے۔ اس لیے جوتے خریدنے کے لیے بچت میں سے پیسے نکالنے پڑے۔ اللہ بخش کوشش کرتا کہ اپنے ابا سے کسی ذاتی ضرورت کے لیے پیسے نہ مانگے، مگر ابا اور اماں کو نجانے کیسے خبر ہو جاتی تھی کہ اسے کسی چیز کی ضرورت ہے۔ پرانی کتاب کی جگہ نئی کتاب آ جاتی۔ پرانے اور پھٹے ہوئے بستے کی جگہ نیا بستہ آ جا تا۔ جب بھی کوئی چیز نئی آتی تو اللہ بخش کا اپنے ابا سے سوال ہوتا:’’ ابا! یہ تو ہماری بچت میں سے آیا ہے۔ پھر ہم کیسے زیورلیں گے؟‘‘
اللہ بخش کا ابا جو بہت لمبا تھا، دھا جھک جاتا۔اپنے سخت کھردرے ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کے گال تھپتھپاتے ہوئے پیار سے کہتا: ’’یا رتو فکر نہ کر۔ تجھے ان پیسے زیورات کی فکر پڑی ہے۔مگر میرا زیور تو ہے۔ تو پڑھ لکھ کر نکھر سنور کے سونے سے زیادہ قیمتی بن جائے گا۔‘‘
اس کی ماں ہنسنے لگتی۔ان کے پورے کچے گھر میں اماں کی ہنسی گو نجنے لگتی۔ دور بندھی ہوئی بکری اپنا سر زور زور سے ہلاتی تو اس کے گلے میں بندھی گھنٹی بھی بجنے لگتی، جیسے وہ بھی ہنس رہی ہو۔
عید، بقر عید کوئی بھی تہوار ہوتا،اللہ بخش ملنے والے پیسے سنبھال کر رکھ لیتا۔اس پر اماں اسے ڈانٹتی: ’’لے بھئی! اس کی عمر کے لڑکے بالے چیز یں کھاتے ہیں۔ شربت پیتے ہیں ، بسکٹ ٹافی لیتے ہیں مگر اس پر تو بس پیسے جمع کرنے کی دھن سوار رہتی ہے۔‘‘
اللہ بخش اچھا بچہ تھا۔ سب سنتا تھا لیکن جواب نہیں دیتا تھا۔ بس یہ سوچتا کہ پیسے جمع کروں اور خوب جمع کروں۔
ان ہی دنوں گاؤں کے قریب ہی چک پا نچ سواناسی میں جشن آزادی کے سلسلے میں میلہ لگا۔ اس میلے میں جہاں بہت سے کھیل تماشے، جھولے ،موت کا کنواں، سرکس، گھوڑوں کے کرتب تھے ،و ہیں پہلوانوں کا دنگل بھی تھا۔ اس میلے کی چاروں طرف خوب مشہوری کی گئی تھی۔ تانگے پر پہلوانوں کے بڑے بڑے رنگین پوسٹر لگا کر جگہ جگہ کشتی کا اعلان کیا جا رہا تھا۔ گاؤں کے سب سے بڑے زمین دار چوہدری اللہ وسایا نے جیتنے والے پہلوان کے لیے سونے کے تاج کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان نے چاروں طرف کھلبلی مچادی تھی۔ اس سونے کے تاج کی تیاری کا کام نیو گولڈن ہاؤس کو دیا گیا تھا۔ انھوں نے تاج کی خوب صورت سی تصویر یں بنا کر جگہ جگہ لگائی تھیں۔تصویر میں سونے کا سنہری تاج اتنا خوب صورت اور حسین لگ رہا تھا کہ اللہ بخش کا جی چاہا کہ تصویر میں سے ہی ہاتھ بڑھا کر اٹھا لے مگر تصویر میں سے کوئی چیز کہاں نکل سکتی ہے؟ بس وہ سونے کے تاج کی سنہری تصویر پر ہاتھ پھیر کر رہ گیا۔ مگر ہاتھ پھیر کر بھی اس کو بہت اچھا لگا۔ بڑا مزہ آیا۔
رات بھر وہ تاج کو اپنے خواب میں دیکھتا رہا۔
اس کی ماں نے صبح کہا: ’’رات بھر تم سونے کا تاج پہنادو،کبھی سر پر ہاتھ لگاتے،اٹھاتے، ہٹاتے رہے۔ کیا خواب دیکھ رہے تھے؟‘‘
وہ جھینپ گیا۔اب و ہ اماں کوکیا بتا تا کہ رات بھر وہ تاج پہنے پورے گاؤں کو دکھا تا رہا ہے۔
اللہ اللہ کر کے کشتی کے مقابلے کا دن آ گیا۔ کئی پہلوان آس پاس کے علاقوں سے سونے کے تاج کے لیے مقابلے میں حصہ لینے آئے تھے۔
دنگل والے میدان میں لوگوں کا ٹھٹ لگا ہوا تھا۔ اپنے اپنے پسندید ہ پہلوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لوگ گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے۔ حوصلہ افزائی کرر ہے تھے۔ایک طرف لاؤڈ سپیکر پر قومی ترانے لگے ہوئے تھے۔ کہیں جھولے چلنے کی چرخ چرخ آواز یں مل کر ایک پر جوش سماں پیدا کر رہی تھیں۔ پنڈال کے ساتھ ہی ایک دو گھوڑوں والی سفید بگھی کھڑی تھی جس پر جیتنے والی ٹیم کو بٹھایا جاناتھا۔
پنڈال میں ایک طرف اونچا سا اسٹیج بنا ہوا تھا،جس پر زمین داراللہ وسایا اور دیگر معززین بیٹھے تھے۔ ایک زبردست مقابلے کے بعد بلا پہلوان کی ٹیم جیت گئی۔ بلا پہلوان لمبا چوڑا، بڑے سے سر والا پہلوان تھا، جو دیکھنے میں بھی بہت خوب صورت لگتا تھا۔ دوسرے پہلوانوں کی طرح اس کا پیٹ لٹکا ہوا نہیں تھا۔و ہ ہراعتبار سے ایک شان دار پہلو ان دکھائی دے رہا تھا۔
زمین داراللہ وسایا نے بلا پہلوان کو سونے کا تاج پہنایا تو سارا پنڈال نعروں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔اس کے بعد بلا پہلوان کو بگھی میں بٹھا کر پورے علاقے کا چکرلگوایا گیا۔ بلا پہلوان شان دار بگھی میں کسی بادشاہ کی طرح تنا ہوا کھڑا تھا۔
اس وقت اللہ بخش کو اپنے ابا کے لمبے قد کا بڑا فائدہ ہوا۔ اس کے ابا نے اس کو کندھے پر بٹھالیا اور بگھی کے ساتھ ساتھ دوڑ نے کے انداز میں چلتا رہا۔
یہ سارا منظر، پہلوان اور اس کے سر پر رکھا ہواسنہری سونے کا تاج،اللہ بخش کے دل میں کھب گیا۔اس نے فیصلہ کیا کہ وہ بڑا ہو کر کسی بھی طرح ہو،سونے کا تاج ضرورخریدے گا اور بگھی میں بیٹھ کرسارے گائوں کا چکر لگائے گا۔
دن گزرتے رہے۔ بعض مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جوں جوں دن گزرتے جاتے ہیں خواہش اور تمنا کمزور پڑتی جاتی ہے۔ ایک تمنا، ایک آرزو کی جگہ دوسری تمنا جگہ لے لیتی ہے لیکن اللہ بخش کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ بچپن سے جوانی تک اس کے خیال و خواب، دل و دماغ میں بس سنہری سونے کا تاج بساہوا تھا۔
وہ سردیوں کے دن تھے۔اللہ بخش کا والد کھیتوں میں پانی لگانے کے لیے جانے لگا تو اللہ بخش کی بھی آ نکھ کھل گئی۔اس نے اپنے ابا سے کہا: ’’ابا میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔‘‘
’’ نہیں بیٹا سردی بہت ہے ۔تم رہنے دو، بس نماز پڑھ کر اپنے سکول کا کام کر لو۔‘‘
’’اچھا ابا۔‘‘ اللہ بخش نے سعادت مندی سے جواب دیا اور وضو کر نے کے لیے باہر ہینڈ پمپ کی طرف چل دیا۔
نماز پڑھ کر وہ اپنے سکول کا سبق یاد کر نے لگا۔ سورج ہلکا ہلکا نکلا ہی تھا کہ اچانک گھر کے باہر شور سنائی دیا۔اس کی ماں تیزی سے باہرنکلی اور ساتھ ہی اس کی چیخ سنائی دی۔ ’’ہائے میرے ربا!‘‘
اللہ بخش ننگے پیر باہر کی جانب دوڑا۔ باہر بہت سے لوگ چار پائی کے گردگھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ چار پائی پر اس کے ابا لیٹے ہوئے تھے۔ چپ چاپ۔
’’ا با! ابا!‘‘ اللہ بخش کا دل بڑے زور سے دھڑ کا۔ و ہ باپ کی چارپائی کی طرف بھاگا۔
بخشو چاچا نے اسے سنبھالا ۔’’صبر کرو بیٹا۔ اللہ سائیں کو یہی منظور تھا۔‘‘
’’کیا ہوامیرے ابا کو؟‘‘ اللہ بخش نے بچے کی طرح مچلتے ہوئے پوچھا۔
راموقصائی نے کہا: ’’تمھارے ابا کوکھیت میں پانی لگا تے ہوئے سانپ نے ڈس لیا۔ اتنازہر یلا تھا کہ جب تک ڈسپنسری لے جاتے راستے میں ہی گزرگیا۔‘‘
گاؤں کے سارے لوگ افسردہ تھے۔اللہ بخش کا والد بہت اچھا ہنس مکھ اورسب کے دکھ درد میں کام کرنے والا تھا لیکن ہم جتنا بھی کسی سے پیار کر یں ایک دن ہم نے یا اس نے بچھڑ جانا ہوتا ہے۔ عصر کی نماز کے بعد اللہ بخش کے والد کو گاؤں کے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔
بہت سارے لوگ تھے جو آہستہ آہستہ اسے صبر کی تاکید کرتے ہوئے رخصت ہو گئے۔عشا تک گھر بالکل خالی ہوگیا۔
گھر میں صرف ماں اوراللہ بخش رہ گئے۔ ماں نے اسے لپٹا لیا ،’’تو کیوں فکر کرتا ہے بیٹا۔ میں ہوں نا۔‘‘ اس کی ماں نے اس کے سر کواپنی گود میں رکھ لیا اور صبح سے پہلی با راللہ بخش اتنی زور زور سے رویا کہ اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔
دن گزرتے رہے۔
اللہ بخش کے ابا کے مرنے کے بعد زند گی گزارنا اور بھی مشکل ہوئی۔ وہ چھوٹا تھا۔ کھیتوں میں کام نہیں کر پا تا تھا۔ ماں اس کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ گاؤں والے بھی تھوڑی بہت مددکر دیتے تھے۔ مگر وہ ابا کے دو روالی بات کہاں تھی؟
دن گزرتے گئے۔اللہ بخش بڑا ہوتا گیا۔ بہت سے لوگ اللہ بخش کے ابا کو بھول گئے۔مگر اللہ بخش نے اپنے ابا کو نہیں بھلایا۔ وہ ہمیشہ خواب میں دیکھتا اس کے ابا اس کو کندھے پر بٹھا کر پہلوان والی بگھی کے ساتھ ساتھ دوڑ رہے تھے اورسونے کا تاج دھوپ کی کرنوں سے چم چم کر رہا ہے۔ اللہ بخش بڑا ہو گیا۔ ماں بھی بوڑھی ہوگئی تھی۔اس سے اب کام نہیں ہوتا تھا۔اللہ بخش سا را دن کبھی کھیتوں میں ہوتا، کبھی کسی کے باغ کی رکھوالی پر کبھی جانوروں کے لیے گھاس کا ٹا کرتا۔ ماں اکیلی رہتی۔ پھر اس کی ماں نے فیصلہ کیا کہ اللہ بخش کی شادی کر دی جائے۔
گاؤں میں سب کے حالات ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔اللہ بخش کی ایک رشتے کی خالہ کی بیٹی سے شادی کر دی گئی۔
اس شادی پر اس کی ماں نے اپنی بہو کو تحفے میں چاندی کے وہی کنگن دیے، جواللہ بخش کے باپ نے اس کے بچپن میں اس کے ساتھ جا کر خریدے تھے۔ اللہ بخش کا دل شدت سے چاہا کہ کاش اس کی شادی کے موقع پر کوئی اس کو سونے کے تاج کا تحفہ دے دیتا مگر بھلا کون دیتا؟
سب کے حالات ایک جیسے ہی تھے۔
شادی ہوگئی۔’’بس میری ایک ہی خواہش ہے کہ مرنے سے پہلے اللہ بخش کا بیٹا دیکھ لوں۔اپنا پوتا
دیکھ لوں۔‘‘ اللہ بخش کی اماں دعا کرتی، او را پنی خواہش کا اظہار کرتی رہتی۔
اللہ بخش ہنستا اور سوچتا اللہ میاں بس میری ماں کو اچھا کر دیں۔اس سے زیادہ مجھے اور کیا چاہیے؟
اللہ میاں نے ماں کی سن لی اوراللہ بخش کے ہاں ایک خوب صورت سا بچہ پیدا ہوا۔ اس کی خوشی اتنی تھی کہ اس نے سونے کے تاج کے لیے بچائے ہوئے پیسوں کو بچے کے کپڑوں، کھلونوں اور گاؤںبھر میں لڈو با نٹنے میں خرچ کر دیے۔
تب اللہ بخش کو احساس ہوا کہ ابا کو اس کے اوپر پیسے خرچ کرنے پر کیوں ہنسی آتی تھی۔ وہ خوشی کی ہنسی ہوتی تھی۔
کہتے ہیں کہ وقت اپنے آپ کو دو ہرا تا ہے۔ ایسا ہی اللہ بخش کے ساتھ ہوا۔ اس کا بیٹا ساڑھے چار سال کا ہی ہوا تھا کہ اللہ بخش بھی کھیتوں میں پانی لگاتے ہوئے سانپ کے ڈسنے سے فوت ہو گیا۔ حسب معمول گاؤں کی ڈسپنسری میں سانپ کے کاٹے کی ویکسین نہیں تھی۔ مرتے وقت اللہ بخش کی آنکھوں میں دو ہی تصویر یں تھیں۔ ایک اپنے بیٹے رسول بخش کی اوردوسری تصویر سونے کے سنہری تاج کی۔
اللہ بخش کو اپنے والد کے ساتھ گاؤں کے قبرستان میں دفن کرد یا گیا۔
اللہ بخش کے مرنے کے بعد زند گی اور بھی مشکل ہوگئی۔ اللہ بخش کی بڑی خواہش تھی کہ بیٹے کو پڑھائے لکھائے مگر جب کھانے کو لالے پڑے ہوں تو پڑھائی لکھائی کہاں سوجھتی ہے۔
گاؤں کے مولوی صاحب نے اللہ بخش کی بیوی سے کہا: ’’بیٹی اگر اسکول نہیں بھیج سکتی ہوتو مسجد بھیج دیا کرو۔ قرآن شریف پڑھ لے گا تو اردو پڑھنا بھی آ جائے گی ورنہ گلیوں میں پھر پھر کے آوارہ ہو جائے گا۔‘‘
بات اللہ بخش کی بیوی کی سمجھ میں آ گئی۔ دوسرے ہی دن اس نے نہلا دھلا کر سپارہ پڑھنے مسجد میں بٹھا دیا۔ نورانی قاعدہ مولوی صاحب نے اپنے پاس سے مہیا کر دیا۔
دن گزرتے رہے۔اللہ بخش کے بیٹے رسول بخش کا ذہن اچھا تھا، اس نے چھ ماہ میں نورانی قاعدہ ختم کرلیا اور ڈیڑھ سال میں قرآن مجید ناظر ختم کرلیا۔
مولوی صاحب رسول بخش کو اپنے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ انھوں نے کہا:’’اگر تم قرآن شریف حفظ کر لو تو بہت اچھاہو گا۔ تمہا را ذ ہن بہت اچھا ہے۔‘‘
رسول بخش حفظ کرنے میں جت گیا۔
دن رات صبح شام۔ و ہ بس حفظ کرنے میں لگا رہتا۔
نوبرس کی عمر میں اس نے قرآن مجید حفظ کر لیا۔
جس دن اس کا حفظ مکمل ہوا۔ وہ مسجد سے فارغ ہو کر باپ کی قبر پر گیا۔ اس کے ابا اللہ بخش اور دادا کریم بخش کی قبر یں ساتھ ساتھ تھیں۔ وہ قبر کے پاؤں کی طرف بیٹھ گیا۔اس نے بڑی خوش الحانی سے ایصال ثواب کے لیے سورہ رحمن کی تلاوت شروع کی۔قبرستان کی شام،ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، تلاوت کاسرور۔ پتانہیں کب اور کیسے رسول بخش کی آنکھ لگ گئی۔
اس نے دیکھا ایک بہت بڑا در با رلگا ہوا ہے۔ جس میں سینکڑوں لوگ موجود ہیں اورا یک جانب بہت خوب صورت، ہیرے موتیوں سے جڑی کرسی رکھی ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ اس کے ابا اللہ بخش نہایت خوش خوش سفید رنگ کے شان دار جوڑے میں آرہے ہیں۔ان کے دائیں بائیں بہت سے لوگ ہیں۔ و ہ سب آ کر کرسی تک رک جاتے ہیں۔ پھر ان میں سے ایک بزرگ شخص جس کی سفید براق سی داڑھی تھی، آگے بڑھتا ہے اوراس کے ابا کوہاتھ پکڑ کے کرسی پر بٹھا دیتا ہے۔
اس کے بعد ایک دوسرا شخص ایک نہایت خوب صورت تھال میں ایک چمکتا دمکتا سونے کانقرئی تاج لے کر آتا ہے، جس پر سرخ سفید، نیلے رنگ کے ہیرے جواہرات لگے ہیں۔ وہ آدمی جس نے رسول بخش کے والد اللہ بخش کو کرسی پر بٹھایا تھا، وہ تھال میں سے سونے کا تاج اٹھا کے اللہ بخش کے سر پر رکھ دیتا ہے۔ جیسے تاج اللہ بخش کے سر پر رکھا جا تا ہے تمام حاضرین اللہ بخش کو مبارک باددینے لگتے ہیں۔
اللہ بخش سب کو مسکرا مسکرا کے دیکھ رہا ہے۔اس کے چہرے سے خوشی اور مسرت چھلکتی پڑی ہے۔ اچانک ایک شخص تیزی سے گزرتے ہوئے رسول بخش سے ٹکرا تا ہے۔ رسول بخش نے اس کا ہاتھ پکڑ کے پوچھا۔
’’یہ کیا ہورہا ہے۔میرے ابا کو تاج کس لیے پہنایا جا رہا ہے؟‘‘
’’ تمھیں نہیں معلوم؟‘‘ اس شخص نے حیرت سے کہا:’’ تمھارے ابا کو تاج تمھاری وجہ سے پہنایا جار ہا ہے۔‘‘
’’لیکن کیوں؟‘‘ رسول بخش نے حیران ہو کے پوچھا: ’’میں نے ایسا کیا کیا ہے؟‘‘
’’ تم نے قرآن مجید حفظ کیا ہے اور جس بچے نے قرآن مجید حفظ کیا ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے والدین کو بلند مرتبہ عطا کرتے ہیں۔اس کوتاج عطا کرتے ہیں۔ ‘‘وہ یہ کہ کر تیزی سے آگے بڑھ گیا۔
اچانک رسول بخش کی آنکھ کھل گئی۔ پتا نہیں کہاں سے ہلکی ہلکی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی۔ ایسی ہی خوشبو جو رسول بخش نے کچھ دیر پہلے خواب میں محسوس کی تھی۔اس کے ابا اللہ بخش کی سونے کا تاج پہننے کی خواہش پوری ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے