skip to Main Content

پچپن میں بچپن ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

بابا جب بھی ہمیں ساتھ لے جا کر کوئی کھانے پینے کی چیز لے کر دیتے،کوئی کھلونا دلا تے تو چند لمحوں کے لیے اس کو بہت غور سے دیکھتے پھر ہمیں دیتے اور ہمیں کھیلتے ہوئے دیکھتے اور خوش ہوتے۔
پہلے ایسا نہیں تھا لیکن اب اکثر ہونے لگا تھا۔ پچھلے دنوں ہی ہمارے بابا پچپن سال کے ہوئے تھے۔ جب سے میں نے محسوس کیا کہ جیسے بابا کچھ بدل سے گئے ہیں۔ کبھی کبھی وہ کچھ سوچنے لگتے۔ پھر سر جھٹک کے اپنے کسی نہ کسی کام میں مصروف ہو جاتے۔
میں نے احد سے پوچھا:’’ تم نے نوٹ کیا، با با بدل سے گئے ہیں؟‘‘
وہ اپنے موبائل پر مصروف تھا، بولا:’’ مجھے تنگ نہ کرو۔‘‘
میں چپ ہو گیا۔
بابا دور سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے مگر میں نے محسوس کیا کہ جیسے ان کی توجہ ہماری طرف نہیں ہے۔ میں نے ایک بار ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا، مگر وہ میری طرف متوجہ نہیں ہوئے اور ایسا تب ہی ہوتا ہے جب آپ کسی گہری سوچ میں گم ہوں۔
بھلا ایسی گہری سوچ کیا ہوسکتی ہے؟
تھوڑی دیر بعد جب احد اپنے کام سے فارغ ہوا تو مجھ سے بولا:
’’ ہاں اب بتاؤ تم کیا کہہ رہے تھے؟‘‘
میں نے کہا:’’میں دیکھ رہا ہوں کہ بابا کچھ کھوئے کھوئے سے رہنے گئے ہیں۔‘‘
’’ہاں… ہاں…‘‘ احد نے جلدی سے کہا۔’’ مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔ بابا بعض اوقات ہمیں دیکھتے دیکھتے خاموش ہو جاتے ہیں جب انھیں پیارو تو وہ چونک جاتے ہیں۔ ‘‘
’’ہمیں معلوم کرنا چاہیے کہ بابا کیا سوچتے رتے ہیں؟‘‘ موحد نے کہا۔
’’ لیکن کیسے؟‘‘احد نے فکر مندی سے پوچھا۔
’’امی سے پتا کر یں؟‘‘ موحد نے صلاح دی۔
’’نہیں۔‘‘ موحد نے نفی میں سر ہلایا۔
’’ امی بھی فکر مند ہو جائیں گی۔‘‘
’’پھر کیا کیا جائے؟‘‘احد نے سوال کیا۔
میں نے کہا: ’’جب دیکھیں گے کہ بابا کا موڈ اچھا ہے تو انہی سے پوچھ لیں گے۔‘‘
’’ہاں! یہ بالکل صحیح بات ہے۔‘‘ احد نے پر جوش لہجے میں کہا۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہم لوگوں کو کسی قسم کی مالی پریشانی نہیں ہے۔ ہمارا گھر اپنا ہے، جسے بابا نے خود بنوایا ہے۔ ہمارے پاس ایک ہائی روف ہے جس میں ہم لوگ اسکول جاتے ہیں۔ گھر کے بازار کے کام نبٹاتے ہیں۔ ایک گاڑی ہے جس میں بابا اپنے آفس جاتے ہیں۔ ہمارے گھر میں دو ملازم بھی ہیں۔ مہینے میں ایک مرتبہ ہم لوگ باہر گھومنے پھرنے جاتے ہیں۔ کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں کھانا کھاتے ہیں۔ میں نے بابا کو پیسوں کے معاملے میں کبھی پریشان نہیں دیکھا۔ پھر میرے بابا کبھی کبھی اداس کیوں ہو جاتے ہیں؟
میں اب اکثر یہ بات سوچتارہتا۔
ایک مرتبہ اتوار کی چھٹی والے دن ہم سب لوگ انڈا پراٹھے، آلو قیمے کا ناشتہ کر کے بیٹھک میںبیٹھے تھے۔
میں اور احد کیرم کھیل رہے تھے اور بابا صوفے پر بیٹھے ہم لوگوں کو د یکھ ر ہے تھے۔
میں نے کہا:’’ بابا ہمارے ساتھ کھیلیں گے؟‘‘
’’ نہیں تم لوگ کھیلو، میں دیکھوں گا۔‘‘ بابا نے کہا۔
’’آجائیں نا بابا…!‘‘ احد نے ضد کی۔
’’بھئی کیرم یا تو دو لوگ کھیلتے ہیں یا چار۔ ہم تین کیسے کھیلیں گے؟‘‘ بابا نے پوچھا۔
’’ میں ہٹ جاتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔’’ ایک بار آپ احد سے کھیلیں۔ پھر ایک بار مجھ سے۔‘‘
’’ لو بھئی تم نے تو مسئلہ ہی حل کر دیا۔‘‘بابا نے ہنس کر کہا اور کشن سائیڈ میں رکھ کے ہمارے پاس آبیٹھے۔
’’پہلے احد تم کھیلو ۔‘‘میں نے کہا۔
’’او۔کے‘‘احد نے جواب دیا اور گوٹیاں سیٹ کرنے لگا۔
تھوڑی دیر میں کھیل شروع ہو گیا۔ہم نے محسوس کیا کہ بابا بہت جوش سے کھیل رہے تھے۔ ان کا نشانہ بھی بہت اچھا تھا۔ جلد ہی انھوں نے کھیل جیت لیا۔
’’بابا! آپ تو اتنا اچھا کھیلتے ہیں۔ ہمارے ساتھ کھیلا کریں نا۔‘‘ احد نے کہا۔
’’ ہاں بچپن میں کھیلتا تھا۔‘‘ بابا نے جواب دیا۔’’ اب بس‘‘ وہ اچا نک اٹھ گئے۔
ہم دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہ گئے۔
بابا کے اپنے کمرے میں چلے جانے کے بعد میں نے احد سے کہا:
’’لگتا ہے کہ بابا اپنے بچپن کو یاد کر کے اداس ہو گئے ہیں۔‘‘
’’ ٹھیک کہہ رہے ہو۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’ اس کا مطلب ہے کہ بابا کو اپنے بچپن کی کوئی بات تکلیف دیتی ہے۔‘‘
’’بالکل صحیح۔‘‘ احدنے بڑے جوش سے کہا۔’’ ہمیں معلوم کرنا چاہیے وہ کیا بات ہے؟‘‘
’’ لیکن امی تو کسی کے ذاتی معاملات پر بات کرنے کو یا سوال کرنے کو منع کرتی ہیں۔‘‘میں نے کہا۔
’’ وہ تو ہمارے بابا ہیں کوئی غیر تھوڑی ہیں۔‘‘ احد نے فوراً جواز پیش کیا۔
ہم دونوں نے کیرم اٹھا کے ایک طرف رکھا۔گوٹیاں سمیٹ کر الماری میں رکھیں اور بابا کے کمرے میں جھانکا۔
بابا اپنے بیڈ پر لیٹے اپنا ایک ہاتھ سر کے نیچے رکھے چھت کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر اداسی تھی۔
ہم آہستہ آہستہ ان کے نزدیک پہنچ گئے۔
’’بابا…!‘‘احد نے آہستہ سے انھیں مخاطب کیا۔
بابا چونک کے ہمیں دیکھنے لگے۔’’ کہو کیا بات ہے؟‘‘انھوں نے پوچھا۔
’’میرادل چاہ رہا تھا کہ آپ کے پاؤںدباؤں۔‘‘ احد نے اچک کے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا اور بابا کا جواب سنے بغیر پاؤں دبانے لگا۔
بھلا میں کیوں پیچھے رہتا۔ میں نے بابا کا ایک ہاتھ اپنی گود میں رکھا اور آہستہ آہستہ دبانے لگا۔
’’ خیریت تو ہے نا، کوئی خاص فرمائش ہے کیا؟‘‘ بابا نے ہنس کر پوچھا۔
’’بس آپ سے باتیں کرنے کا دل چاہ رہا ہے۔ ‘‘میں نے فورا ًجواب دیا۔
’’ ہاں بابا! ہمیں بتائیں جب آپ چھوٹے تھے تو کون کون سے کھیل کھیلتے تھے؟‘‘احد نے سوال داغا۔
’’اچھا بھئی لگتا ہے آج انٹرویو کا موڈ ہے میرے بچوں کا۔‘‘ بابا مسکرا کے بولے۔
’’بتا ئیے نا۔‘‘ میں نے ضد کی۔
’’ بھئی بات یہ ہے کہ مجھے کیرم اور اسکریبل ڈرافٹ پسند تھا۔ بیڈمنٹن بھی کھیلتا تھا لیکن…!‘‘
وہ چپ ہو گئے۔
’’ لیکن کیا؟‘‘ احد نے جلدی سے پوچھا۔
وہ ایک لمبی سانس لے کر بولے:
اس میں سے سوائے لڈو کے میرے پاس کوئی اور گیم نہیں تھا۔ بہت پرانی بات ہے۔‘‘
’’ ہمیں بتائیں…!‘‘ہم دونوں نے بیک وقت کہا۔
بابا بولے: ’’تمھارے دادا جی کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔ ان دنوں تمھاری دادی اماں سلائی کیا کرتی تھیں۔ ان دنوں کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ سودا خریدنے کے لیے، لانے لے جانے کے کپڑے کے تھیلے، پلاسٹک کی ٹوکر یاں اور کاغذ کے لفافے استعمال ہوتے تھے۔ شاپرز تو اب استعمال ہونے لگے ہیں۔ میں پڑھتا بھی تھا اور شام کو کاغذ کے لفافے بھی بنا تا تھا۔ وہ پرانے اخبار، سیمنٹ کی بوریوں کے کاغذ اور اسی قسم کے کا غذوں سے بنائے جاتے تھے۔
بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی تھی۔ اماں ہر بات مان لیتی تھیں۔ مگر اسکول کی چھٹی یا ہوم ورک میں کوتاہی بالکل برداشت نہیں کرتی تھیں۔ خیر۔! اسی طرح میں نے میٹرک کرلیا۔ میرے آس پاس محلے کے بچے کھیلتے رہتے تھے۔ مجھے بھی بلانے آتے تھے مگر میں سوچتا تھا کہ اگر کھیلنے چلا گیا تو لفافے کون بنائے گا۔ بجلی کا بل بھی دینا ہوتا ہے۔ اسکول کی کتابوں کا پیوں کا خرچا ہے۔ یہ سب کیسے پورا ہوگا۔ اس لیے میں کھیلنے نہیں جا تا تھا۔ کبھی کبھی بس میں اور اماں لڈو کھیل لیتے تھے جس کی چاروں رنگ کی گوٹوں میں سے ایک دو کم تھیں ۔ان کی جگہ ہم نیلے اور کالے بٹن استعمال کر لیتے تھے۔‘‘
بابا نے ایک گہری سانس لی۔
ہم بالکل ہلے جلے بغیر ان کی یہ کہانی سنا رہے تھے۔
بابا کی آنکھوں میں نمی آ گئی تھی۔
’’پھر کیا ہوا با با؟‘‘ احد نے پوچھا۔
’’پھر یہ ہوا کہ میں جس دکان والے کو کاغذ کے لفافے بنا کر دیتا تھا۔ انھوں نے مجھے کاغذ بازار کاراستہ بتایا۔ میں نے ان سے کہا کہ میں خود لفافے مشین پر بنوانا چاہتا ہوں تو وہ بولے۔ میرے واقف کار کاغذ بازار میں کام کرتے ہیں، ان کا پرنٹنگ پریس بھی ہے، وہاں چلے جاؤ، وہ تمھاری مدد کریں گے۔ میں ان کے پاس پہنچا۔ وہ یوسف صاحب تھے۔ بہت اچھے آدمی۔ انھوں نے کہا ،تمھارا یہ خیال بہت اچھا ہے، کاغذ کے لفافے مشین سے بنواؤ تو سستے بھی پڑتے ہیں اور بک بھی جلدی جاتے ہیں۔ ان دنوں لوگ اچھے تھے۔ تعاون کرتے تھے۔ میں میٹرک کر رہا تھا۔ انھوں نے مجھے کاغذد یا اور لفافے بھی مشین سے بنوا کر دیے۔ میں نے ان سے کہا، آپ سارے لفافے اپنے پاس رکھیں۔ میں صرف اتنے لوں گا جتنے میرے پاس پیسے ہوں گے۔ روزانہ خریدوں گا اور روز کے روز بیچوں گا۔
وہ مان گئے تو میں نے لفافے اٹھائے، اپنی سائیکل کے کیریئر پر رکھے اور نکل پڑا۔ میں اردو بازار گیا۔ وہاں دو چار دکانداروں کو دکھائے۔ کچھ نے لیے، کچھ نے دو چار دن کے بعد آنے کا کہا۔ اس طرح دن رات محنت کر کے میں نے ایک ہفتے میں پانچ ہزار لفافے بیچے۔ اس کے بعد میری ہمت بڑھی اور میں آہستہ آہستہ زیادہ کا غذ خرید کے زیادہ لفافے بنوانے لگا۔ پھر میری ایک اسکول کے استاد سے بات ہوئی۔ وہ ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ انھوں نے اپنے اسکول کے لیے مجھ سے کاپیاں بنوائیں اور اس طرح کام چلنے لگا، مگر میرا بچپن، میری محنت کے وہ دن کھا گئے۔ میں نے کھیلنے کودنے کی عمر سے محنت کی۔ آج بازار میں میرا ایک نام ہے۔ میرا پرنٹنگ پریس ہے۔ لاکھوں کتا بیں چھپتی ہیں۔ درسی کتا بیں، جنرل نالج کی، کھیلوں کی، کہانیوں کی۔ آج میں تم لوگوں کی ہر خواہش پوری کر سکتا ہوں مگر…‘‘ وہ چپ ہوگئے۔
میں نے دیکھا کہ بابا کی آنکھوں میں آنسوتھے۔ میں نے بابا کے آنسو پونچھے۔ تب بابا نے میرے آنسو پونچھے۔ میں نے احد کی طرف دیکھا۔وہ بھی رور ہا تھا۔ ہم سب ہی رور ہے تھے۔
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ اپنے بچپن کو یاد کرکے اداس ہوتے ہیں۔‘‘ احد نے کہا۔
’’ہاں لیکن میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوںکہ آج اس نے مجھے اس قابل بنایا ہے کہ میں اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرسکتا ہوں۔‘‘وہ ہنسے۔
’’ہم ایسا کرتے ہیں کہ آپ کے بچپن کے دوست بن جاتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
’’وہ کیسے؟‘‘ با باہنسنے۔
’’ایسے کہ آپ یوں سمجھیں کہ ہم آپ کے باباہیں اور آپ کو جو لینا ہے، جو کھانا ہے، جو کھیلنا ہے وہ ہم سے کہیں ہم آپ کو دلائیں گے۔‘‘
’’زبردست…!‘‘ احد نے نعرہ لگایا۔
با با زور دار آواز سے ہنسنے لگے۔
امی باورچی خانے سے بھاگی بھاگی آئیں۔
’’کیا بات ہے خیریت تو ہے؟‘‘
’’ہم بابا کے بچپن میں جار ہے ہیں۔‘‘احد نے اعلان کیا۔
’’بالکل۔ چلیں اٹھیں بابا۔‘‘میں نے ان کا ہاتھ کھینچا۔
’’ کدھر چلے؟‘‘ امی نے پو چھا۔
’’ہم ذرا بازار جار ہے ہیں۔‘‘موحد نے اطلاع دی۔
’’اچھا بھئی۔‘‘ امی نے جواب دیا اور باور چی خانے کی طرف واپس چلی گئیں۔
’’چلیں بابا! بس اٹھ جائیں۔‘‘احد نے بابا کوزبردستی اٹھایا۔
’’اچھا بھئی چلتا ہوں۔‘‘بابا ا ٹھے اور واش روم چلے گئے۔
میں اور احد اپنے کمرے میں آئے۔ میں نے کہا:
’’احد! میرے پاس عیدی کے تین ہزار روپے پڑے ہیں،وہ میں ساتھ لے لیتا ہوں۔‘‘
’’میرے پاس بھی پندرہ سو ہیں۔‘‘ احمد نے کہا۔
ہم دونوں نے جلدی سے پیسے نکالے۔ آج ہم بابا کو کچھ بھی خریدنے کے لیے پیسے نہیں دینے دیں گے۔ بابا کے لیے ساری خریداری ہم کر یں گے۔‘‘
’’ بالکل ٹھیک۔‘‘ احد نے فوراً جواب دیا۔
ہم لوگ جلدی سے کمرے سے باہر آئے۔ بابا کے ساتھ گاڑی میں بیٹھے اور بازار چلے آئے۔ اتوار کی وجہ سے رش کم تھا۔ ویسے بھی ابھی دو پہر شروع ہی ہوئی تھی۔
ہم نے پوچھا: ’’با با آپ کیا لیں گے؟
اتنے میں احد بولا:’’ ہم بابا کے لیے سب سے پہلے لڈو اور ڈرافٹ خرید یں گے۔‘‘
ہم لوگ ایک سپورٹس کی دکان میں چلے گئے۔ وہاں سے ہم نے لڈو اور ڈرافٹ خریدا۔ باہر نکلے تو رنگین چاکلیٹ والے انکل اپنا سجا سجایا ٹھیلا لیے کھڑے تھے۔
مجھے تو جیلی بہت اچھی لگتی تھیں، یقینا بابا کو بھی اچھی لگیں گی۔
’’ بابا! میں تو یہ والی لوں گا آپ کو کون کی پسند ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
انکل ہمیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ جیسے سوچ رہے ہوں کہ یہ بچے کیسے ہیں جو کہ اپنے بابا کوبچوںکی طرح لیے پھر رہے ہیں۔
ہم تینوں نے اپنی اپنی پسند کی چاکلیٹس اور جیلی لی اور ساتھ ساتھ کھانا شروع کر دی۔
آگے بڑھے تو واٹر بال والا اچھال اچھال کر واٹر بال فروخت کر رہا تھا۔ میں نے سرخ، بابانے نیلے اور احد نے ہرے رنگ کی واٹر بال خریدی۔ ہم لوگ چلتے جا رہے تھے۔ واٹر بال سے کھیلتے بھی جا رہے تھے۔اچا نک احد نے واٹر بال جو کھینچ کر ماری تو وہ پھٹ گئی۔ ہم لوگوں کے کپڑے پانی سے بھر گئے مگر ہمیں غصہ آنے کے بجائے ہنسی آنے لگی۔
ہم تینوں ہی بے ساختہ ہنسنے لگے۔
واپسی پر اور نج آئس کریم کینڈی کھائی پھر کینو خریدے۔ اس کے چھلکے دبا کر ایک دوسرے کی آنکھ میں ڈالے۔
اس وقت خوب مزہ آ رہا تھا۔ ہم تینوں جیسے ایک ہی عمر کے ہو گئے تھے۔
واپسی پر ایک جگہ ایک ٹھیلے پر ایک آدمی پہیہ چلا چلا کر بڑھیا کے بال (لچھے) بنارہا تھا۔ بابا نے اس کے پاس گاڑی روک دی۔ ہم نے شکر سے بنے ہوئے وہ بڑھیا کے بال یعنی لچھے خریدے۔
بابا نے کہا: ’’بچپن میں ہمیں پچیس پیسے ملتے تھے مگر میں کبھی کبھارہی یہ لچھے خریدتا تھا کیونکہ مجھے اپنی ربڑ، پنسل، شاپنر کے لیے پیسے بچانے ہوتے تھے۔
’’تو ہم اب کھائیں گے اور خوب کھائیں گے۔‘‘ موحد نے کہا۔
پھر ہم نے بڑے بڑے تین لچھے اور بنوا کر کھا نا شروع کیے جو ہمارے ہونٹوں پر، گالوں پر ،بابا کی داڑھی پر چپک گئے۔ جنھیں ہم نے ٹشو پیپر سے صاف کیا۔
ابھی کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ سرخ پیلے موٹے موٹے بیر نظر آئے۔
بابا نے پوچھا۔’’ بیرکھاؤ گے؟‘‘
ہم نے فوراً گردن ہلا دی۔ بیر خوب پکے ہوئے تھے۔ ہم نے وہ بھی خرید لیے پھر راستے سے ہم نے امی کے لیے میٹھے پان بنوائے۔
جب ہم گھر آئے تو امی ہماری منتظر تھیں۔’’ کہاں تھے آپ سب لوگ؟‘‘
’’ہم اپنے بچپن سے ملنے گئے تھے۔‘‘ بابانے ہنس کر کہا۔ ان کا چہرہ خوشی سے تمتمار ہاتھا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
’’ ارے امی! چھوڑیں آپ تو یہ پان کھائیں۔‘‘‘احد نے انھیں پان پکڑائے۔
ادھرامی شاپرز میں سے چاکلیٹس، بیر، واٹربالز، جیلیاں، لڈو، ڈرافٹ کو حیرت سے نکالتے ہوئے پریشان تھیں کہ یہ آج تینوں باپ بیٹے کیا خرید لائے ہیں۔
ہم دونوں اپنے کمرے میں آ گئے۔ ہم نے اپنے پیسے گنے۔ احد کے پندرہ سو اور میرے تین ہزار میں سے صرف آٹھ سو ساٹھ روپے خرچ ہوئے تھے۔
’’اتنے کم پیسے خرچ ہوئے؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
احد نے کہا: ’’ہاں لیکن ہم نے بابا کے بچپن کے قیمتی ترین لمحات حاصل کر لیے۔‘‘
احد اور میں دونوں ہی ہنسنے۔
امی کی آواز آئی:’’آجاؤ دونوں… کھانا تیار ہے…‘‘
’’ آتے ہیں۔‘‘ ہم نے کہا اور ہاتھ منہ دھو کے کھانے کے کمرے میں پہنچ گئے۔
امی نے ہماری پلیٹ میں سالن ڈالتے ہوئے پوچھا:’’ آپ لوگ گئے کہاں تھے؟
’’ ہم لوگ بازار گئے تھے۔‘‘
’’کیا لینے؟‘‘
’’پچپن میں بچپن خریدنے گئے تھے۔‘‘بابا نے کہا۔
’’کیا مطلب؟‘‘ امی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے حیرت سے پو چھا۔مگر ہم سمجھ گئے۔ ہمارے بابا کچھ دن پہلے ہی پچپن برس کے ہوئے تھے۔
دوستو! کیا آپ نے کبھی سوچا۔ ہمارے آج کے لیے ہمارے ماں باپ اپنا بچپن تک قربان کر دیتے ہیں۔ اس لیے جب بھی اپنے بابا یا امی کو اداس دیکھیں تو انھیں فوراًپچپن سے بچپن میں لے جا ئیں۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top