skip to Main Content

سب کی خوشی

کہانی: You Can’t Please Everybody!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

لمبو اور چھوٹو دوایسے خوش مزاج بونے تھے جو ہر وقت دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے۔لیکن جیسا کہ آپ آگے چل کر پڑھیں گے کہ ایک دن متعدد بار انہوں نے یہ کوشش کی مگر ناکام رہے۔
ہوا یوں کہ اس دن وہ اپنی ہاتھ والی ریڑھی لے کر آلو لینے بازار جانے لگے۔ چھوٹوکو خیال آیا کہ کیوں نہ ایک بوری سیبوں کی بھی ساتھ لیتے جائیں، فروخت ہوگئے تو اچھا ہو جائے گا۔چنانچہ انہوں نے ایک بڑی ریڑھی لی،اپنے سیبوں میں سے بہترین سیب چن چن کر بوری میں ڈالے اور بھری ہوئی بوری اٹھا کر روانہ ہو گئے۔
لمبو کا قد کافی لمبا اور جسم پتلا تھا جبکہ چھوٹو کا قد چھوٹا اور جسم مضبوط تھا، اس طرح لمبو اور چھوٹو کی یہ عجیب سی جوڑی بازار کی طرف چل پڑی ۔لمبو نے ریڑھی دھکیلنا شروع کی اور چھوٹو نے سیبوں کی بوری اپنے موٹے سے کندھے پر رکھ لی۔دن بہت گرم تھا اور بازار کا راستہ کافی طویل ۔اس دن بہت سے اور لوگ بھی بازار کی طرف جا رہے تھے اوران میں سے اکثر ان بونوں کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔
’’اس چھوٹے قد والے موٹے کو دیکھو جس نے بوری اٹھا رکھی ہے۔‘‘ایک بڑے پری زاد نے اپنی لمبی انگلی سے چھوٹوکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔’’یہ کتنا بے وقوف ہے! بوری کو ریڑھی میں ڈال کر کیوں نہیں چلاتا؟ خواہ مخواہ میں وزن اٹھائے چلا جا رہا ہے۔‘‘
’’ارے ے…!‘‘لمبونے رک کر چھوٹوکی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔’’ہم نے یہ تو سوچا ہی نہیں چھوٹو…! سیبوں کی بوری ریڑھی میں رکھ دو۔میں بہ آسانی اسے چلا لوں گا۔‘‘
چنانچہ چھوٹو نے شکریہ ادا کرتے ہوئے بوری کو ریڑھی میں ڈالا اور بوجھ سے چھٹکاراپاکر خوشی خوشی چل پڑا۔ پتلے اور لمبے قد والے لمبو کے حساب سے ریڑھی کافی بھاری ہوگئی تھی اور ہر بار جب وہ اسے دھکا لگاتا تواس کی ہلکی سی کراہ نکل جاتی ۔پاس سے گزرنے والے چند ننھے بونوں نے اس کی آواز سنی تو انہوں نے رک کر دیکھا اور پھر کہنے لگے:
’’اس موٹے اور طاقت ور بونے کو تو دیکھو۔خودکس قدر خود غرضی سے چل رہا ہے اوراتنی بھاری ریڑھی کو اپنے پتلے بھائی سے دھکا لگوا رہا ہے۔اسے شرم محسوس کرتے ہوئے خود ہی اس ریڑھی کو دھکا لگانا چاہیے۔‘‘
دونوں بونے رک گئے۔ چھوٹو شرم کے مارے سرخ ہوگیا ۔اس نے فوراً لمبوکے ہاتھ سے ریڑھی کا دستہ واپس لیتے ہوئے کہا:
’’بہتر یہی ہے کہ ریڑھی مجھے دھکیلنے دولمبو!میں نہیں چاہتا کہ لوگ مجھے خود غرض کہیں کیونکہ مجھے تو جیسے تم پر ظلم کرنے کا بڑا شوق ہے۔تم چلو میں ریڑھی دھکیلتا ہوں۔‘‘
چنانچہ چھوٹے قد والا بونا ریڑھی دھکیلنے لگا اوردبلاپتلا لمبو سیٹی بجاتا ہوا ریڑھی کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔سورج آگ برسا رہا تھااور جلد ہی چھوٹو گرمی کے مارے ہانپنے گا۔ وہ مسلسل ریڑھی کو دھکیلتا رہا یہاں تک کہ اسے اپنے چہرے پر پانی کے ننھے ننھے قطرے محسوس ہونے لگے ۔ اسے واقعی بہت گرمی لگ رہی تھی۔
ایک قدآور بونا اور اس کی بیوی گدھے پر سوارسیر کے لیے نکلے تھے۔بونے کی بیوی نے لمبو کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا:
’’سرتاج!آپ اس لمبے بونے کو دیکھ رہے ہیںجو اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ چل رہا ہے اور وہ بے چارا جان جوکھوں میں ڈال کر اس بھاری ریڑھی کو دھکیل رہا ہے۔اسے شرم نہیں آتی…؟ کیا یہ اس کی مدد نہیں کر سکتا؟… کم از کم یہ اس کے ساتھ ہاتھ تو لگوا ہی سکتا ہے کہ نہیں؟‘‘
اب سرخ ہونے کی باری لمبو کے چہرے کی تھی۔ لمبو بونے نے رک کر چھوٹوکی طرف دیکھاجو ریڑھی دھکیلتے ہوئے ہانپ رہا تھا اور ہانپتا ہی جا رہا تھا۔لمبو بولا:
’’چھوٹو میری بات سنو! کیا ہم دونوں مل کر ریڑھی کو نہیں دھکیل سکتے؟ایک طرف والا دستہ تم پکڑ لو اور دوسری طرف والا میں پکڑ لیتا ہوں۔اس طرح ہر کوئی دیکھ کر یہی کہے گا کہ ہم ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں۔‘‘
چنانچہ چھوٹونے ریڑھی کا دایاں دستہ پکڑ لیا اور لمبو نے بایاں، اور دونوں سڑک پر چلنے لگے۔
جلد ہی ایک ویگن گزری جس میں پری زادوں نے اودھم مچا رکھا تھا۔انہوں نے جب دوبونوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہی ریڑھی کو دھکا لگا رہے ہیں تو خوب شور مچایا ، قہقہے لگائے اور پھر حقارت سے اپنی چھوٹی چھوٹی انگلیوں سے اشارے کرتے ہوئے بولے:
’’دیکھو! دیکھو! یہ بونے کتنے کمزور اور ناتواں ہیں کہ ایک ریڑھی کو دھکیلنے کے لیے دونوں کو دھکا لگانا پڑ رہا ہے۔واہ کیا مضحکہ خیز نظارہ ہے۔بہت ہی گئے گزرے لوگ ہیں بھئی!انہیں بہت سا مکھن اور انڈے کھانے چاہئیں تاکہ ان میں کچھ طاقت پیدا ہواور ایک چھوٹی سی ریڑھی کو دھکیلنے کے لیے دو کی ضرورت نہ پڑے۔‘‘
بونوں نے ایک جھٹکے سے ریڑھی کو چھوڑا اور بدتمیز پری زادوں کی جاتی ویگن کو پیچھے کھڑے ہو کر غضب ناک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔چھوٹو نے غصے سے نتھنے پھلاتے ہوئے کہا:
’’لگتا ہے آج کی صبح ہم کسی کو خوش نہیں کر سکتے۔ اب کیا کریں؟
ہم یہ بھی نہیں کر سکتے کہ ایک ریڑھی کو دھکیلے اور دوسرا سیب اٹھالے کیونکہ ایسا کرنے پر تو تھوڑی دیرپہلے تک ہم خود ہنس رہے تھے۔
سیبوں کو ریڑھی میں رکھ کر ہم میں سے کوئی ایک دھکیلے گا تو لوگ یہی کہیں کہ یہ دوسرا خود غرض اور کام چور ہے۔‘‘
’’اور اگر دونوں مل کر دھکیلتے ہیں تو کمزور اور ناتواں سمجھے جاتے ہیں۔‘‘لمبو بولا۔’’لیکن ٹھہرو! میں جانتا ہوں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔چھوٹو! تم ریڑھی کو کندھے پر اٹھائو اور میں سیبوں کی بوری کو اٹھالیتا ہوں۔اس طرح کوئی بھی ہمیں احمق، خود غرض اور کمزور نہیں کہے گا۔ یہ ٹھیک نہیں رہے گا، کیا خیال ہے؟‘‘
’’ہاںٹھیک ہے!‘‘یہ کہتے ہوئے چھوٹونے ریڑھی کو سر پر اٹھا لیا ۔اس کے وزن سے وہ اتنا جھک گیا تھا کہ اب اسے راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس نے لمبو سے کہا کہ وہ اس کے آگے آگے چلے تاکہ راستے کا پتا چل سکے۔لمبو سامنے آگیااور اس طرح دونوں بازار کی طرف چل پڑے۔
سڑک پر بہت ہجوم تھا اور ہر طرف بکریاں، مرغیاں اور بطخیں پھیلی ہوئی تھیں۔اچانک ایک بکری لمبو کی لمبی ٹانگوں میں سے بھاگ کر گزری اور وہ سیبوں کی بوری سمیت زمین پر آرہا۔سیب بوری میں سے نکل کر سڑک پر لڑھکنے لگے اور پالتو جانور سیبوں پر ٹوٹ پڑے۔ چھوٹو لمبوسے ٹکرایا تو ریڑھی زمین پر آگری۔اس کا ایک پہیہ آدھاٹوٹ گیا اور دونوں دستے بھی ٹوٹ گئے۔
’’میرے خدایا!‘‘چھوٹو اٹھ کر بیٹھتے ہوئے بولا۔وہ سیبوں میں گھومتے جانوروں اور ٹوٹی ہوئی ریڑھی کو زمین پر بیٹھامایوسی سے دیکھ رہا تھا۔’’دیکھا لمبو! جو ہر کسی کو خوش کرنے کو کشش کرے، اس کے ساتھ یہی ہوتا ہے۔اب کی بار ہم صرف اپنے آپ کو خوش کریں گے۔‘‘ اور میرا خیال ہے کہ اگر وہ پہلے ہی ایسا کرلیتے تو زیادہ بہتر ہوتا، کیاخیال ہے؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top