skip to Main Content

کیا کہنے، بھائی خرگوش!

کہانی: Well, Really, Brer Rabbit!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

ایک دن بھائی خرگوش، بھائی لومڑ کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے کہ انہیں تازہ شکار کی گئی مچھلی کی عمدہ خو شبو آئی۔وہ رک کر سونگھنے لگے۔بھائی لومڑ کھڑکی سے سر باہر نکال کر مسکرائے اور بولے۔’’اوہو!یہ مت سوچنا کہ تم میری مچھلی لے اڑوگے بھائی خرگوش!اب میں تمہاری ساری چالیں سمجھنے لگا ہوں!‘‘
بھائی خرگوش کوئی جواب دیے بغیر آگے چل پڑے۔جب وہ بھائی ریچھ کے گھر کے باہر پہنچے توانہیں تازہ اکھاڑے گئے پیازوں کی خوشبو آئی۔بھائی ریچھ نے کھڑکی سے سر باہر نکالا تو بھائی خرگوش کو ہوا میں سونگھتے پایا۔’’بھائی خرگوش، ذرا دور ہو کر سونگھو!‘‘انہوں نے کہا۔’’تمہیں میرے پیازوں میں سے اتنا ہی ملے گا جتنا سونگھ لوگے۔‘‘
بھائی خرگوش نے ایک قہقہہ لگایا اور آگے چل پڑے۔راستے میں تھوڑا رقص کیا اور پھر گھر کی طرف بھاگ گئے۔گھر جاکر وہ اس وقت تک تلاش کرتے رہے جب تک انہیں اچھی خاصی لمبی رسی نہ مل گئی۔انہوں نے رسی لی، پھر چرخی اٹھائی اور گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔وہ بخوبی جانتے تھے کہ بھائی لو مڑ اور بھائی ریچھ اپنی چیزوں کی بات کرنے منڈی جائیں گے اور تھوڑی دیر میں یہیں سے گزریں گے۔وہ تھوڑی دیر انتظار کرتے رہے اور پھر وہ دونوں آتے دکھائی دیے۔پھر تو بھائی خرگوش جیسے بہت مصروف نہیں ہو گئے۔ کبھی اِس طرف ناپنے لگے، کبھی اُس طرف ناپنے لگے۔پھر رسی کو کھول کر اس طرح دیکھنے لگے جیسے کچھ کرنا چاہتے ہوں۔
ٍ ’’ارے سنو بھائی خرگوش!‘‘بھائی لومڑنے ٹہلتے ہوئے کہا۔’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
’’میں یہاں ایک گھر بنانے کا سوچ رہا ہوں۔‘‘ بھائی خرگوش نے جواب دیا۔’’میں یہ دیکھنا چاہ رہا ہوں کہ مجھے کتنی زمین چاہیے ہوگی۔ادھر دیکھیے بھائی لومڑ! میں زمین کی پیمائش کرنا چاہتا ہوں، مہربانی کرکے ذرا رسی کے اس سرے کو پکڑ لوگے!‘‘
بھائی لومڑ کو اس میں کوئی نقصان نظر نہ آیا تو اس نے رسی کا سرا پکڑ لیا۔بھائی خرگوش آگے چل پڑے اور کچھ دور جا کر ایک جھاڑی کے پیچھے غائب ہوگئے۔انہوں نے ایک لمحہ انتظار کیا، پھر اپنی ٹوکری اٹھا ئی اور بھائی ریچھ کی جاسوسی کرنے جا پہنچے۔’’ارے بھائی ریچھ!‘‘ بھائی خرگوش نے شائستگی کے ساتھ سر سے ٹوپی اٹھاتے ہوئے کہا۔’’مہربانی کرکے آپ رسی کے اس سرے کو ایک لمحے کے لیے پکڑ لیں گے؟ میں ذرا پیمائش کر رہا ہوں اور ایک ہی وقت میں چرخی کو استعمال کرنا اور رسی کو بھی پکڑے رکھنا ذرا مشکل ہورہا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے!‘‘ بھائی ریچھ نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے سرا پکڑ لیا۔ بھائی خرگوش تیزی سے ایک جھاڑی کے گرد گھومے اور دوسرے جھاڑی کے پیچھے غائب ہوگئے۔پھر وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ایک ایسے بِل میں گھس گئے جس سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔
بھائی لومڑ تقریباً دس منٹ تک رسی کا سرا پکڑکے کھڑے رہے۔پھر وہ تھک کر اسے کھینچنے لگے۔بھائی ریچھ جو دوسراسراتھامے کھڑے تھے، وہ بھی اتنے لمبے انتظار سے تھک چکے تھے۔انہوں نے جب کھچائو محسوس کیا تو وہ بھی رسی کو اپنی طرف کھینچنے لگے۔بھائی لومڑ نے یہ سمجھ کر کہ دوسری طرف بھائی خرگوش ہیں، رسی دوبارہ کھینچی تو بھائی ریچھ طیش میں آگئے اور انہوں نے اور زور سے کھینچا۔پھر دونوں شدید غصے میں کھینچا تانی کرنے لگے۔
’’اسے روکو ، میں تم سے کہہ رہا ہوں!‘‘ بھائی لومڑ چلائے۔
’’تم خود روکو!‘‘جواب میں بھائی ریچھ بھی چلائے۔ پھر دونوں غضب ناک ہو کر رسی کھینچتے ہوئے آگے بڑھنے لگے ۔ اسی طرح جب بڑی جھاڑی کے پاس پہنچے تو دونوں آمنے سامنے آگئے۔’’ یہ رسی تم نے کیوں پکڑ رکھی ہے؟‘‘ بھائی لومڑ نے حیرت سے پوچھا۔’’تم اس رسی سے کیا کر رہے ہو؟‘‘بھائی ریچھ نے بھی حیرت سے یہی سوال کیا۔’’ مجھے تو بھائی خرگوش پکڑا گیا ہے۔‘‘
’’ہاں، مگر کس لیے…؟‘‘بھائی لومڑ نے پوچھا۔پھروہ ایک لمحے کے لیے رکے اور پھر ایک خوف ناک چیخ ماری۔’’میری مچھلی …!‘‘ چلاتے ہوئے انہوں نے اندھا دھند گھر کی طرف دوڑ لگا دی۔’’میرے پیاز…!‘‘بھائی ریچھ بھی چیخ مارتے ہوئے پوری رفتار سے بھاگے۔
لیکن بہت دیر ہوچکی تھی۔ ان کے توشہ خانے خالی تھے اور دور کہیں جنگل میں بھائی خرگوش بیٹھے ہنس رہے تھے۔انہوں نے ہفتوں تک بہترین کھانا کھایا۔کیاکہنے بھائی خرگوش! اب آگے کیا ارادے ہیں؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top