یہ کیا کیا؟
کہانی: Well, Really, Amella!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
کیا آپ کا حافظہ اچھا ہے…؟میرا خیال ہے یقینا اچھا ہوگا کیونکہ حافظہ واقعی بڑے کام کی چیز ہے۔امیلا کا یا توحافظہ خراب تھایا پھر وہ چیزوں کو یاد رکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی۔
ایک دن اس کی امی کو ڈاکٹر کی طرف جانا تھا،اس لیے وہ گھر اس کے حوالے کرکے چلی گئیں اور جاتے جاتے کہہ گئیں:
’’سنو ، امیلا! تمہیں تین کام کرنے ہیں ، بھولنا مت۔مرغیوں کے دڑبے میں جھاڑو لگا دینا۔سلادکے پودوں کو پانی دے دینااور اگر بارش ہوتو صحن کو دھو لینا۔‘‘
’’مجھے نہیں لگتا کہ یہ کام مجھے یاد رہیں گے۔‘‘امیلا نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’تو تمہیں یاد رکھنے چاہئیں۔‘‘ اس کی امی نے یہ کہتے ہوئے جیسے ہی اس کی طرف دیکھا ان کی نظران تین بڑے بڑے بٹنوں پر پڑی جو امیلا کی قمیص پر لگے ہوئے تھے۔وہ اپنی ٹوکری کے پاس گئیں جس میں وہ چھوٹی چھوٹی ضرورت کی چیزیں رکھا کرتی تھیں اور اس میں سے ٹیپ کے تین ٹکڑے کاٹ لائیں۔پہلا ٹکڑا انہوں نے سب سے اوپر والے بٹن پر چپکاتے ہوئے کہا۔’’یہ دیکھ کر تمہیں یاد آئے گا کہ دڑبے میں جھاڑو لگانی ہے۔‘‘دوسرا ٹکڑا دوسرے بٹن پر چپکاتے ہوئے کہا۔’’ یہ تمہیں سلاد کے پودوں کو پانی دینا یاد دلائے گااور یہ تیسرا ٹکڑا یاد دلائے گا کہ اگر بارش ہو تو صحن کو دھو لینا ہے۔‘‘
امیلا نے خوشی خوشی امی کو الوداع کہا اور اپنی کتاب اٹھا کر پڑھنے بیٹھ گئی۔تھوڑی دیر بعد اس کی نظر دوسرے بٹن پر پڑی جس پر ٹیپ کا دوسرا ٹکڑا چپکا ہوا تھا۔وہ چونک کر بولی۔’’ اب یہ کس لیے تھا؟میرا خیال ہے کسی چیز کو پانی دینا تھا۔ہے نا…؟ ہاں ، ماں نے کہا تھا مرغیوں کو پانی دے دینا۔‘‘
امیلا نے سوچا کہ اب یہ کام یاد آہی گیا ہے تو کیوں نہ فوراً کرلیا جائے۔ اس نے چھلانگ لگا کر پانی والا ڈبہ اٹھایا، اسے پانی سے بھرااور چند ہی لمحوں بعد وہ مرغیوں کو پانی پلا رہی تھی بلکہ ان پر پانی برسا رہی تھی اور وہ حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
امیلا نے خوش ہوکر مرغیوں سے کہا۔’’ مجھے امید ہے کہ تمہاری نشو ونما میں اضافہ ہوگا۔‘‘ اسی دوران جب اس نے پہلے بٹن پر لگے سفید ٹیپ کو دیکھا تو تعجب سے بولی۔’’ اب یہ کس لیے تھا؟شاید جھاڑو سے کوئی کام کرنا تھا،ہے نا!…اوہ ہاں…صحن میں جھاڑو دینی تھی، اعلیٰ…‘‘
وہ بڑا سا جھاڑو اٹھا کر صحن میںزور و شور سے جھاڑو دینے لگی اورپھر اس نے وہ گرد اڑائی کہ خدا کی پناہ۔سارا گرد و غبار پہلے ہوا میں اڑااور پھر آہستہ آہستہ ہر چیز پر بیٹھ گیا۔ اس طرح تھوڑی ہی دیر میںہر صاف چیز سرمئی ہوگئی۔
اس نے ٹیپ کی آخری ٹکڑے کی طرف دیکھااور سوچنے لگی کہ یہ کس لیے تھا…اوہ بارش!ہاں ٹھیک ہے…سلاد کے پتوں کو اندر لانا تھا۔اس نے آسمان کی طرف دیکھا لیکن چونکہ بادل کم تھے ، توبارش کے چند قطرے گرنے لگے ۔ وہ جلدی سے بولی۔’’ مجھے فوراً سلاد پتے کاٹنے ہوں گے۔‘‘وہ بھاگ کر سلاد کی کیاری میں گئی اور سلاد کے سارے پودے کاٹ ڈالے۔
’’ اب ٹیپ کے تینوں ٹکڑے اتار دیتی ہوں۔‘‘امیلا اپنے آپ سے بولی۔
لیکن جب اس کی امی گھر آئیں تو کس قدر ناراض ہوئیں، پوچھو مت…!صحن گرد کے مارے پہلے ہی گندا ہو رہا تھا کہ اوپر سے ہلکی بارش نے اسے مزید گندا کردیا تھا۔گندے دڑبے میں مرغیاں بھری ہوئی تھی جو حیرت انگیزطور گیلی تھیں جیسے انہیںکسی نے نہلا دیا ہو۔باورچی خانے کی میز پر سلاد کے درجنوںتازہ پودے کٹے رکھے تھے۔
’’ہیں ، یہ کیا کیاامیلا؟‘‘اس کی امی یہ کہتی ہوئی پیچھے مڑیں مگر امیلا وہاں ہوتی تو نظر آتی۔ماں کا برہم چہرہ دیکھ کر اسے تین باتیں یاد آگئی تھیں۔پہلی یہ کہ امی شدید پٹائی کریں گی۔دوسری یہ کہ چھپنے کے لیے کوئی بہتر جگہ تلاش کرلینی چاہیے۔تیسری یہ کہ اگر وہ جلدی سے وہاں سے نہ گئی تو بہت دیر ہوجائے گی!