قاتل کون؟
کاوش صدیقی
ہم سب انہیں ’’اچھے بھائی‘‘ کہتے تھے اور وہ تھے بھی بہت اچھے…یونیورسٹی میں پڑھتے تھے اور اپنے گائوں سے پڑھنے کے لیے آئے تھے۔ ابو کو معلوم ہوا کہ رشیدہ خالہ کے بیٹے شہر میں رہا ئش کے لیے پریشان ہیں تو ابو فوراً ہی انہیں لے آئے اور اوپر والا کمرہ انہیں دے دیا جس کے ساتھ ملحقہ غسل خانہ تھا۔اوپر ہونے کی وجہ سے وہ کمرہ گھریلو چیخ و پکار، شرارتوں سے محفوظ تھا۔اچھے بھائی وہاں اپنی کتابوں وغیرہ کو سیٹ کرکے رہنے لگے۔ بتول آیا نے تولیہ، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور پلاسٹک کی نئی بالٹی وغیرہ شام کو ہی رکھ دی تھی۔ اچھے بھائی کی باتیں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں، ایسی کہ بس سنتے رہو اور جی نہ بھرے۔ یونیورسٹی کی باتیں، گائوں میں پرندوں کا شکار،نہر میں نہانا، دن بھر گلی ڈنڈا کھیلتے پھرنا، کھیت سے کچے آلو نکال کے وہیں بھون کے کھانا، یہ سب ہمارے لیے پریوں کی کہانی کی طرح تھا۔چند ہی دنوں میں ہم سب اچھی طرح گھل مل گئے اور سچی بات تو یہ کہ ہمارے لیے بڑے بھائی کی کمی پوری ہوگئی۔ ہم لوگ صبح کا ناشتہ اور رات کا کھانا اکٹھے کھاتے اور گپیں لگاتے تھے۔
ایک دن ابو نے پوچھا:’’کیا ہے اچھے میاں…!آپ ذرا سست سست لگ رہے ہیں۔‘‘
’’پتا نہیں…‘‘اچھے بھائی نے کہا۔’’بس ایسے ہی…شاید رات میں دیر تک لیکچر کی تیاری کرتا رہا، اس لیے تھکان ہوگئی ہوگی۔‘‘ اچھے بھائی نے بتایا اور ہمارے ساتھ ناشتہ کرنے میں مصروف ہو گئے۔
مگر دوتین دن میں ہی ایسا لگنے لگا کہ اچھے بھائی سست سست سے ہیں، ان کی رنگت بھی کافی نیلی پیلی سی ہورہی تھی، امی جان نے کہا:
’’ ارے بیٹا ڈاکٹر کو دکھائو، مجھے تو لگتا ہے کہ معدے میں گڑ بڑ ہے۔‘‘
’’جی خالہ جان! ڈاکٹر کو دکھا دوں گا۔بس اس ہفتے پیپرز سے فارغ ہو جائوں۔‘‘
’’اچھے بھائی…!‘‘سلیم نے سرگوشی کی۔’’کہیں آپ سگریٹ تو نہیں پینے لگے۔‘‘
’’نہیں بھائی…!!‘‘اچھے بھائی مسکرائے۔’’الحمد للہ…!مجھے ایسی کوئی عادت نہیں۔‘‘
اور واقعی ہم نے کبھی بھی اچھے بھائی کے پاس سگریٹ، ماچس نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ یہ ہفتے کی رات تھی، اچھے بھائی بیمار تو لگ رہے تھے مگر ان کا موڈ بہت اچھا تھا۔ان کے پیپر ز بہت اچھے ہوئے تھے اس لیے خوب گپیں لگ رہی تھیں۔ تقریباً گیارہ بجے اچھے بھائی نے کہا:
’’اچھا میں اب چلتا ہوں، مزے سے سوئوں گا، برش کرکے۔‘‘ اور یوں ہنسی مذاق کی محفل برخاست ہو گئی۔
صبح ہم سب معمول سے زیادہ تاخیر سے اٹھے، امی جان اور بتول آیا ناشتہ بنا رہی تھیں ، امی نے کہا:
’’جائو سلیم…!اچھے بھائی کو اٹھائو، دس بج گئے ہیں، ناشتہ کرلیں۔‘‘
’’جی اچھا امی…!‘‘ سلیم نے کہااور اوپر سیڑھیاں چڑھ گیا۔
’’اچھے بھائی…!! اچھے بھائی…!‘‘اس نے دروازہ کھٹکھٹا کے کہا:
’’جلدی سے نیچے آجائیں، ناشتہ تیار ہے۔‘‘ وہ کہہ کر دھڑ دھڑ سیڑھیاں اتر تا نیچے چلاآیا۔ ہم لوگ ناشتہ کرنے لگے، مگر آدھا گھنٹہ ہوگیا اچھے بھائی نہیں آئے۔
ابو نے تشویش سے پوچھا:’’ کیا بات ہے، اچھے میاں نیچے کیوں نہیں آئے؟‘‘
’’دوبارہ جائو!‘‘ امی نے کہا۔’’وہ تو ایک آواز میں نیچے آجاتا ہے۔‘‘
مگر سلیم بھائی کے دروازہ دھڑ دھڑانے کے باوجود دروازہ نہیں کھلا۔ابو بھی نیچے سے اوپر آگئے، ہم سب نے آوازیں دیں مگر اچھے بھائی کے کمرے کا دروازہ بند ہی رہا، ہم سب گھبرا گئے۔
امی نے کہا:’’ اللہ خیر کرے، میری تو حالت بری ہو رہی ہے۔‘‘
ایک امی ہی کیا ، ہم سب پریشان تھے۔ ہماری باتوں کے دوران ہی نعمان ماموں آگئے جو خفیہ پولیس میں انسپکٹر تھے، انہوں نے کہا:’’معاملہ گڑ بڑ لگ رہا ہے۔‘‘
پھر انہوں نے دوچار زور دار ٹکریں مار کر دروازہ کھول دیا، پرانی چٹخنی ٹوٹ گئی تھی۔وہ سب سے پہلے اندر داخل ہوئے ، سامنے ہی بستر پر اچھے بھائی چت پڑے ہوئے تھے۔ نعمان انکل ایک دم چونک کر رک گئے ۔انہوں نے ہمیں پیچھے رہنے کا اشارہ کیا اور خود آگے بڑھ کے بڑی احتیاط سے اچھے بھائی کا معائنہ کرنے لگے،پھر انہوں نے ابو کی طرف دیکھا اور بولے:
’’میں ایمبولینس کے لیے فون کر رہا ہوں اور قریبی تھانے والوں کو بھی۔‘‘
’’تھانے والے کیا مطلب؟‘‘ ابو نے حیرت سے پوچھا۔
نعمان انکل نے کہا:’’میرا خیال ہے کہ اچھے میاں کا قتل ہو گیا ہے۔‘‘
’’ کیا…!!!‘‘ہم سب یہ سنتے ہی چیخ پڑے۔
’’ایسا کیسے ہوا؟‘‘ ابو نے حیرت اور پریشانی سے کہا۔’’رات تو اچھا بھلا تھا۔‘‘
نعمان انکل نے کہا:
’’اب یہ تو نہیں معلوم کہ کیا ہوا؟ لیکن لگتا ہے کہ یہ زہر کا کیس ہے، ہونٹ دیکھو بالکل نیلے پڑے ہیں۔‘‘
ابو نے ہم سب کو نیچے بھیج دیا،تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس آگئی اور پیچھے پیچھے پولیس بھی۔اچھے بھائی کو لے جایا گیا، پولیس والے کمرے کا معائنہ کرنے لگے، پھر انہوں نے کمرہ سیل کر دیا۔ ابو اور نعمان انکل ہاسپٹل چلے گئے،ہم سب افسردہ ہو کر نیچے بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر میں ابو کا فون آگیا کہ ڈاکٹر نے اچھے بھائی کی موت کی تصدیق کردی ہے اور موت کی وجہ زہر بتائی ہے ، ہم سب حیران تھے۔ سلیم نے کہاـ:
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟اچھے بھائی تو زہر کھا ہی نہیں سکتے، وہ تو سگریٹ تک نہیں پیتے تھے۔‘‘
دوسرے دن پولیس پھر آئی اور اچھے بھائی کے کمرے اور غسل خانے کا جائزہ لینے لگی، اس نے پانی کا گلاس ، چائے کا تھرماس، بستر کی چادر، تکیے کا غلاف سب اٹھا لیے کہ اس کا اچھی طرح معائنہ کیا جا سکے۔پھر وہ باتھ روم میں گئے جہاں تولیہ، صابن، ٹوتھ برش دیوار کے ساتھ سلیقے سے رکھے ہوئے تھے۔
پولیس انسپکٹر نے کہا:
’’سمجھ میں نہیں آتا کہ زہر کیسے اور کس نے کھلایا…؟‘‘سلیم اورہمارا چھوٹا بھائی موحد کمرے میں جھانک رہے تھے، اچانک موحد کی نظر غسل خانے کے کھلے دروازے سے نظر آنے والے واش بیسن پر پڑی۔ وہ تھوڑی دیر غور سے دیکھتا رہا، پھر اچانک بولا:
’’مجھے پتا چل گیا ہے کہ اچھے بھائی کو زہر کس نے اور کیسے کھلایا!‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ پولیس افسر اور سپاہی دونوں نے چونک کر پوچھا۔
’’وہ دیکھئے، میں بتاتا ہوں!‘‘موحد نے کہنا شروع کیا۔’’وہ دیکھئے …! دیوار کے ساتھ چپکی ہوئی چھپکلی ٹوتھ برش کو چاٹ رہی ہے، چھپکلی زہریلی ہوتی ہے اور اس کا زہر برش میں لگ لگ کر اسے زہریلا بنا رہا تھا۔ شاید اچھے بھائی برش کو دھوتے نہیں تھے، بلکہ پہلے سے دھلے ہوئے برش کو استعمال کرتے ہوں گے۔‘‘
’’ہوں…!واقعی…!‘‘
پولیس افسر نے قابل تعریف نگاہوں سے موحد کو دیکھا اور آگے بڑھ کر ٹوتھ برش اور وہ کپ جس میں ٹوتھ برش رکھا تھا، احتیاط سے اٹھا کے لفافے میں رکھ لیا اور کمرہ دوبارہ لاک کردیا۔ اسی دن ، رات تک تصدیق ہو گئی کہ جس زہر سے اچھے بھائی کی موت ہوئی تھی، وہی زہر ٹوتھ برش پر موجود تھا۔موحد کی سمجھ داری نے جہاں اچھے بھائی کی موت کا معمہ حل کردیا تھا ، وہیں ہمیں ہمیشہ کے لیے محتاط بھی کردیا تھا۔
اب ہم کبھی بھی ٹوتھ برش کو بغیر کیپ(CAP) کے رکھتے ہیں اور نہ ہی گھر میں کہیں چھپکلی کو رہنے دیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے