skip to Main Content

عرشی خالہ ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

عرشی خالہ بہت دلچسپ شخصیت کی حامل ہیں۔ وہ ہماری کون ہیں۔ یہ توٹھیک سے ہمیں بھی نہیں معلوم لیکن جب سے ہم نے آنکھ کھولی اور ہمیں عقل آئی( یہ ہمارا خیال ہے) ہم نے عرشی خالہ کے ہی چرچے سنے، پھر جب ذرا بڑے ہوئے تو ان کی باتیں سمجھتے ہوئے کبھی ہنسے، کبھی حیران ہوئے اور کبھی قہقہے لگائے۔
ہمارا ذاتی خیال ہے کہ عرشی خالہ کوسارے جہاں کی معلومات حاصل ہیں۔ وہ ہر بات اتنے یقین سے کہتی تھیں کہ سب یقین کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
ایک دن سب بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک زمین میں ہلکی لرزش سی محسوس ہوئی۔ امی اس وقت نماز کے لیے جائے نماز پر بیٹھی ہی تھیں۔ لرزش ہوئی تو امی نے زور سے کلمہ طیبہ پڑھا اور بولیں:’’اللہ خیر کرے، کہیں زلزلہ آیا ہے…!‘‘
’’ہاں تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے…!‘‘خالہ عرشی نے اطمینان سے کہا:’’جب گائے سینگ بدلتی ہے زلزلہ آتا ہے…!‘‘
بھائی جان سدا کے جرح کے شیدائی، فوراً بولے:
’’ عرشی خالہ بھلا گائے کے سینگ بدلنے سے زمین کے زلزلے کا کیا تعلق ہے؟‘‘
’’اے لوتمہیں یہ بھی نہیں پتا، یہ زمین گائے کے سینگوں پر کھڑی ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے زمین کو اچھال کے ایک سینگ سے دوسرے سینگ پر رکھ لیتی ہے۔اور اس اچھل کود کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے۔ اتنی سی بات نہیں پتا، برا بنتا ہے پڑھاکو…!‘‘
خالہ عرشی نے فاتحانہ انداز میں انہیں دیکھا۔
میں، ابا، دادا جان، بڑی باجی، چھوٹی، امی اور بھائی جان سب انہیں حیرت سے دیکھنے لگے۔ بھائی جان نے حیرت کے جھٹکے سے سنبھل کے پوچھا:
’’اچھا اگر یہ بات ہے تو یہ بتائیے کہ پھر گائے کس پر کھڑی ہے؟‘‘
بھائی جان کا سوال اتنا ذہانت آمیز اور منطقی تھا کہ ہم سب کو یقین ہو گیا بس آج تو عرشی خالہ کا علمی رعب ہو گیا ختم…!
مگر بھلا خالہ اورہار مان جائیں فوراً بولیں:
’’اے اس میں بھلا کاہے کی پریشانی۔اے میاں! گائے اللہ کی قدرت سے کھڑی ہے اور کیا؟‘‘
خالہ کا جواب ایسا مسکت تھا کہ بھائی جان ہکا بکا رہ گئے۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور وہ تو کیا ہم میں سے کوئی بھی خالہ کے اس علمی جواب کا توڑ لانے کی تاب نہ لا سکا۔
اس موقع پر باجی شکی جو ہر بات میں کوئی نہ کوئی شک کا پہلو نکال ہی لیتی تھیں، بھائی جان کی مدد کو آگے آئیں۔کہنے لگیں:
’’عرشی خالہ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ گاے بس اللہ کی قدرت سے کھڑی ہے۔ کوئی ایسی مثال دیجیے کہ پھر اس کا توڑ نہ ہو۔‘‘
خالہ عرشی نے شکی باجی کو دیکھا پھر بھائی جان کو دیکھا۔پہلے مسکرائیں، پھر کھلکھلائیں اور آخر ایک زوردار قہقہے کی گونج میں بولیں:
’’اے کل کے بچو! تم بھلا عرشی خالہ کو ہرا سکتے ہو۔ ایں؟‘‘
ان کا بات کے اختتام پر ’’ایں‘‘ کہنا اچھے خاصے بندے کو مشتعل کر دیتا تھا۔ بھائی جان مشتعل ہوکے بولے:
’’عرشی خالہ! اگر آج آپ نے مجھے لاجواب کردیا تو ہمیشہ کے لیے آپ کا شاگرد ہو جائوں گا بلکہ آپ کے پیر دھو دھوکے پیوں گا۔‘‘
’’اے کیا سچ؟‘‘ خالہ عرشی نے جلدی سے بڑے اشتیاق سے اپنے گہرے سانولے پیر آگے بڑھائے۔وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بازار سے پیدل چلتی ہوئی آئی تھیں۔ بارش کی وجہ سے پیروں میں کچھ کیچڑ لگ کر خشک ہو گیا تھا اور وہ آتے ہی بغیر ہاتھ پائوں دھوئے ہم لوگوں سے باتوں میں لگ گئی تھیں۔
’’اے نسیمہ! یہ تمہارا لڑکا تو بڑا سعادت مند ہے، تم بلا وجہ ہی اسے جھکی جھکی کہتی پھرتی ہو…!‘‘
بھائی جان جذباتی ہوکے محاورہ تو بول گئے تھے مگر اس وقت وہ ان کے گلے پڑ گیا۔ ابو اور دادا جان ان کی کیفیت پر مسکرا رہے تھے۔
بھائی جان نے کہا:’’تو ثبوت دیجیے نا…‘‘
خالہ عرشی نے انہیں دیکھا اور بولیں:’’ ذرا اوپر تو دیکھو…!‘‘
بھائی جان ہی نہیں ہم سب نے سر اٹھا کے اوپر دیکھا ۔ بارش کے بعد آسمان نکھرا نکھرا تھا۔ تارے چمک رہے تھے۔
ہم سب نے بیک وقت کہا:’’وہاں تو گائے نہیں ہے!‘‘
’’ ارے احمقو!‘‘خالہ عرشی نے ہم لوگوں کی بات پر ہمیں یوں دیکھا جیسے ایک مربی اور شفیق استاد اپنے غبی اور کند ذہن طالب علموں کو دیکھتا ہے۔
’’ارے اوپر آسمان ہے ناں، اب بھلا بتائو یہ کون سا پلر پر، کون سا ستونوں پر قائم ہے یا کون سا اس میں کنڈے ڈال کے فرشتے کھینچے بیٹھے ہیں۔ اے جب اللہ نے آسمان اپنی قدرت سے قائم رکھا ہے تو کیا گائے کو اپنی قدرت سے کھڑی نہیں رکھ سکتے؟ایں۔‘‘
خالہ عرشی کا جوابی استدلال ایسا تھا کہ ہم لوگ مزید کچھ کہہ ہی نہ سکے اور باجی شکی اور بھائی جان عرشی خالہ کو یوں دیکھ رہے تھے، جیسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔
’’اے چھوٹی۔‘‘ خالہ نے چھوٹی بہن کو مخاطب کیا:’’ذرا تسلہ تو لے آئیو۔‘‘ انہوں نے بٹوے میں سے پان نکالا، کلے میں دبایا، دوسری طرف سے قوام کی شیشی برآمد کی،انگلی سے قوام چاٹا اور بولیں:’’جلدی لے آ…!‘‘
’’ عرشی خالہ تسلہ کاہے کو؟‘‘ شکی آپی نے اپنی عینک سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
’’ اے یہ جھکی لا جواب ہوا کہ نہیں، جواب تو بن نہیں پڑا اس سے، اب میرا شاگرد بنے اور میرے پیر دھو دھو کے پیے…!‘‘انہوں نے مزے سے کہا اور پان چباتے ہوئے بڑے مزے سے بھائی جان کو دیکھنے لگیں۔
بھائی جان کی شکل دیکھ کر ابا جان ہنسنے لگے۔
دادا جان نے کہا:’’ اسی لیے بڑے کہتے ہیں پہلے تولو پھر بولو…!‘‘
تو ایسی تھیں ہماری عرشی خالہ!
ہنستی، مسکراتی۔ چاہے سنی سنائی بات ہی کرتیں تو یوں لگتا جیسے سچ بول رہی ہیں۔ایک دن انہوں نے بڑے مزے سے کہا:
’’ تم لوگوں کو پتا ہے کہ یہ جو ہر مہینے نیا چاند نکلتا ہے تو پرانا کہاں جاتا ہے؟‘‘
’’ہمیں تو نہیں پتا۔‘‘ پانچ سالہ نظافت نے پوچھا:’’آپ بتائو نا…!‘‘
’’ یہ جو پرانا چاند ہوتا ہے ناں اسے توڑ توڑ کے فرشتے ستارے بناتے رہتے ہیں!‘‘
’’بھلا یہ کیا بات ہوئی…؟چھوٹی ناراض ہو کر بولی۔
’’اے تو کیا میں جھوٹ کہہ رہی ہوں؟‘‘ انہوں نے غصے سے کہا۔
’’ اور کیا…!‘‘چھوٹی بھلا کب لحاظ کرنے والی تھی۔
خالہ عرشی بولیں:’’ اچھا یہ بتائو، چاند چمکتا ہے۔‘‘
’’جی ہاں…!‘‘
’’ ستارے چمکتے ہیں…؟‘‘ انہوں نے سوال کیا۔
’’ ہاں بالکل…!‘‘
’’ تو پھر وہ چاند کے ٹکڑے ہی ہوئے ناں، جب ہی تو چمکتے ہیں ورنہ اتنے سارے چاندوں سے تو آسمان بھر جاتا اور وزنی ہو کر ہم پر ہی اوندھا ہو جاتا…!‘‘انہوں نے اطمینان سے کہا۔ چھوٹی نے ان کی بات سن کر اپنی سائنس کی کتاب وہیں پٹخی اور اندر چلی گئی۔
عرشی خالہ فاتحانہ انداز میں مسکرانے لگیں۔
کوئی ایک واقعہ خالہ عرشی کا بیان کرنا ہو تو کریں۔ ان کے تو واقعات پر دفتر کے دفتر لکھے جا سکتے ہیں۔
خالہ عرشی کا ایک اور کمال یہ تھا کہ جو منہ میں آتا تھا کہہ دیتی تھیں۔ کسی کو اچھا لگے یا برا انہیں پروا نہیں ہوتی تھی مگر بعد میں پھر بڑے مزے سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگ لیتی تھیں۔’’اے اب تم اتنے بڑے ہوگئے کہ خالہ عرشی کی باتوں کا برا مانو گے۔ ہم سے ناراض ہوگے۔ایں؟‘‘
ان کا انداز ایسا دل موہ لینے والا ہوتا کہ ناراض اپنی رنجش بھول کر مسکرانے لگتا۔

۔۔۔۔۔

اللہ کے فضل سے ہمارا کافی بڑا خاندان ہے۔ ابا جان سمیت چھے بھائی، پانچ پھوپھیاں ہیں پھر امی کا خاندان، ان کے بہن بھائی ۔ سب کا آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔ابا جان، دادا جان یعنی ہم اکٹھے ہی رہتے ہیں۔باقی دو چچا اور پھوپھیاں نزدیک ہی رہتی تھیں اور باقی رشتے دار ذرا فاصلے پر۔
سردیوں کے دن تھے۔ دادا جان کو سردی لگ گئی اور بخار ہو گیا۔عرشی خالہ کو پتا چلا تو فوراً دوڑی چلی آئیں۔دادا جان کو وہ بھائی صاحب کہتی تھیں۔
’’اب یہ جوانوں کی طرح خالی کرتوں میں گھومیں گے تو ہوا تو لگے گی نا۔ مان لیں بھائی صاحب آپ بڈھے ہو گئے ہیں … !‘‘ خالہ عرشی نے کہا۔
دادا جان ہنس دیے۔’’ کہہ تو آپ صحیح رہی ہیں، مجھے احتیاط کرنی چاہیے…!‘‘انہوں نے خالہ عرشی کی بات کو تسلیم کیا۔
’’اچھا بھئی ایک بات کہتی ہوں، برا نہ مانیے گا۔‘‘ انہوں نے کہا۔
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتیں، بڑی پھوپھو اور چھوٹی پھوپھو ساتھ ساتھ گھر میں داخل ہوئیں۔ وہ بھی دادا جان کے بخار کا سن کر مزاج پرسی کے لیے چلی آئی تھیں۔ دادا جان ان کے سلام کا جواب دے کر بولے:
’’ہاں تو عرشی خالہ! آپ کیا کہہ رہی تھیں؟‘‘
’’میں یہ کہہ رہی تھی کہ انسان کا کیا پتا، اچھا برا وقت کب آجائے۔ اتنا بڑا خاندان ہے میں تو کہتی ہوں کہ آپ بھی کوئی وصیت وغیرہ کردیں…!‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں عرشی خالہ…!‘‘بڑی پھو پھو ناراض ہوکے بولیں:’’اللہ ہمارے ابا جان کو زندگی دے ایسی بات تو نہ کہیں ناں…!‘‘
’’ اے لو بھیا!میں نے کون سی انوکھی بات کہہ دی۔کل ہی رشیدہ کے گھر میں حاجن بی بی بتا رہی تھیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
انسان کی ملکیت میں کچھ ہوتو اس کو روا نہیں کہ تین دن سے زیادہ بے وصیت رہے۔ بیٹا میں نے تو دین کی بات سنائی اب تم جانو تمہارا کام ۔مجھے کو ن سا لڈو پیڑے ملنا ہیں۔‘‘
خالہ عرشی نے اطمینان سے کہا اور بٹوے میں سے پان نکال کر چبانے لگیں۔
دادا جان نے کہا:’’ عرشی خالہ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں کل ہی وکیل کو بلوا کر وصیت تیار کراتا ہوں۔اور ویسے بھی میرا سب کچھ انہیں کا تو ہے…!‘‘
دادا جان نے ابو کو مخاطب کرکے کہا۔
’’جی ابو…!‘‘ا با جان کبھی بھی، کسی بھی معاملے میں دادا جان سے کوئی اختلاف نہیں کرتے تھے۔
اس کے بعد بات آئی گئی ہوگئی۔ سب لوگ باتوں میں لگ گئے۔ خالہ عرشی جب ہوں تو بھلا کون خاموش، اداس رہ سکتا ہے۔
اس واقعے کے دو دن بعدمنجھلی پھوپھی اور چھوٹے چچا آئے۔وہ سلام کرکے خاموش بیٹھ رہے جوکہ ایک خلاف معمول بات تھی۔
دادا جان نے پوچھا:’’ کیوں رخشندہ کچھ خاموش خاموش سی لگ رہی ہو۔ کیا بات ہے کیا پریشانی ہے؟‘‘ دادا جان نے دونوں کی طرف دیکھا۔
چھوٹے چچا نے کہا:’’ابا جان کیا آپ ہم سے ناراض ہیں؟…ہم سے کوئی کوتاہی ہوئی ہے؟‘‘
’’ نہیں ایسا کیا ہوا جو تم یہ بات کر رہے ہو؟‘‘ دادا جان نے حیرت سے پوچھا۔
’’پھر آپ ہمیں وصیت سے کیوں خارج کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو لمبی عمر دے ہم نے سب کچھ آپ ہی کی راہنمائی میں آپ کی دعائوں سے بنایا ہے پھر آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔‘‘
’’صاف صاف کہو کہنا کیا چاہتے ہو، کیوں پہیلیاں بجھوا رہے ہو۔‘‘دادا جان الجھن آمیز نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگے۔
’’آپ نے وصیت میں سے ہمیں خارج کر دیا ہے اور صرف بھائی جان (میرے والد) کو ہی سب دینے کا فیصلہ کیا ہے؟‘‘
’’یہ کس نے کہا؟‘‘ دادا جان نے حیرت سے پوچھا۔
’’ آپ نے بھائی جان سے کہا کہ وکیل بلوائو تم ہی لوگوں کو دینا چاہتا ہوں سب کچھ۔‘‘
’’بات تو ٹھیک ہے مگر تم سے کہا کس نے؟‘‘ دادا جان نے دوبارہ سوال کیا۔
چھوٹے چچا کے کہنے لگے۔’’دو دن پہلے جب عرشی خالہ نے آپ سے وصیت کا کہا تو آپ نے ہی بھائی سے کہا کہ وکیل کو بلوائو تاکہ میں وصیت تیار کروائوں، سب کچھ تم ہی لوگوں کا تو ہے…!‘‘
اسی وقت رشی خالہ گھر میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں بڑا سا تھیلا تھا جس میں چکوترے بھرے ہوئے تھے۔
’’لیجیے بھائی صاحب ! چکوتروں کا رس نکلوائیے اور پیجئے۔ بخار کی ساری کڑواہٹ چلی جائے گی…!‘‘انہوں نے کہا اور وہیں دادا جان کے قریب خالی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
’’لیجیے عرشی خالہ بھی آگئیں ان سے پوچھ لیجئے کیا ہم غلط کہہ رہے ہیں اور خود عرشی خالہ نے کہا یا نہیں؟‘‘
’’اے کیا پوچھ پچھیا کر رہے ہو بھیا؟‘‘ خالہ عرشی نے پوچھا۔
’’وہی وصیت والی بات؟‘‘
’’اے تو کیا جھوٹ ہے، بھائی صاحب نے ہی تو کہا تھا کہ اِن( میرے والد) سے کہ وکیل بلوائو، میں وصیت تیار کرائوں گا، سب کچھ صغیر کا ہی تو ہے…!‘‘
’’یہ میں نے کب کہا؟‘‘ دادا جان نے حیرت سے پوچھا۔
’’اے بھائی صاحب آپ ہی نے تو کہا تھا صغیر سے کہ سب کچھ انہیں کا تو ہے تو پھر صغیر کو سب دینے کا ارادہ تھا ناں آپ کا …!‘‘
دادا جان عرشی خالہ کی بات سن کر ہنسنے لگے اور پھر بولے:’’ عرشی خالہ!آپ غلط سمجھیں۔ان ہی سے مراد میرے سارے بیٹے بیٹیاں تھے۔ میں کسی کا بھی شریعت سے کم حصہ کرکے، ہیر پھیر کرکے اپنی آخرت تباہ نہیں کرنا چاہتااور تم…!‘‘دادا جان نے چچا جان کی طرف دیکھا۔’’اپنے باپ ہی کو بے انصاف سمجھ بیٹھے۔‘‘
’’ہمیں معاف کر دیجیے…!‘‘ چھوٹے چچا جان نے فوراً دادا جان سے معافی مانگتے ہوئے ہاتھ جوڑ دیے۔
’’کوئی بات نہیں…!‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے کہا:’’اچھا ہوا کہ تم نے پوچھا ورنہ ہمیشہ کے لیے تمہارے دل میں شک رہ جاتا ۔‘‘
چچا جان، پھوپھی جان سب نے سر جھکا لیا۔
دادا جان نے عرشی خالہ کو مخاطب کرکے کہا:
’’ عرشی خالہ اس دن آپ نے مجھے حدیث پاک سنائی تھی ۔ اجازت ہوتو میں بھی ایک دو حدیث پاک پیش کروں…!‘‘
’’ اے کیوں نہیں بھیا…!‘‘عرشی خالہ نے یہ کہتے ہوئے جلدی سے دوپٹہ سر پر رکھ لیا۔
دادا جان نے کہا:’’نبی محترم حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ارشاد ہے کہ یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی جھوٹی بات بیان کرو جبکہ وہ تم کو اس بات میں سچا سمجھتا ہو!‘‘
’’اے بھائی صاحب آپ سچ کہہ رہے ہیں۔ بغیر سمجھے بات بیان کرنا جوکہ اصل میں نہ ہو اس کو آگے بڑھانا جھوٹ ہی تو ہے۔ اللہ مجھے معاف کرے۔ اے بیٹا، اے بھیا تم بھی مجھے معاف کردو۔‘‘ عرشی خالہ نے فوراً ہی اپنی غلطی مان لی۔
’’چلو کوئی بات نہیں۔‘‘ دادا جان نے مسکرا کے کہا۔’’ مگر اب دوسری حدیث مبارکہ کا مفہوم سن لو۔حضور نبی کریم ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مجلس کی بات امانت ہوتی ہے۔ یعنی ایک جگہ بات سن کر دوسری مجلس میں نقل نہیں کرنی چاہیے جب تک اجازت نہ ہو۔‘‘
اب تو عرشی خالہ نے باقاعدہ اپنے کان پکڑ لیے۔ جہاں اللہ میاں اور سرکار دو عالم ﷺ کی بات آجاتی تھی، و ہ فوراً سر تسلیم خم کردیا کرتی تھیں۔
’’اچھا اب اس بات کو چھوڑو۔ یہ بتائوچکوتروں کا رس پلائو گی یا نہیں…!‘‘
دادا جان کی بات پر عرشی خالہ ہنس دیں۔
غلط فہمی کے بادل چھٹ گئے تھے۔ سب مسکرا دیے۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top