skip to Main Content

سنہری مچھلی

کہانی:Tail of Goldfish
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ:سنہری مچھلی
مترجم:احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے، ہزاروں سال پہلے چین میں ایک تاجر رہتا تھا، جسے مچھلیاں پالنے کا بہت شوق تھا۔ اس نے پانی کے چار بڑے بڑے حوض بنائے ہوئے تھے، جن میں مختلف اقسام کی مچھلیاں تیرا کرتی تھیں۔ کچھ چھوٹی، کچھ بڑی،کچھ بھڑکیلے رنگوں والی اور کچھ ایسی جن کے جسم پر چاندی کے چکتے بنے ہوئے تھے۔ تاجر کو اپنی مچھلیوں سے بہت محبت تھی اور وہ انھیں بڑے شوق سے کھانا کھلایا کرتا تھا۔
اسے شوخ اور بھڑکیلے رنگوں والی مچھلیاں زیادہ پسند تھیں۔ ان میں سے کئی ایسی تھیں جن پر نیلی لکیریں تھیں اور کچھ ایسی جن کی دُموں پر قوس قزح کے ساتوں رنگ موجود تھے۔ تاجر حوضوں پر جھک کر غور سے مچھلیوں کو دیکھا کرتااور ہمیشہ ایک چیز کی خواہش کرتا کہ کاش اس کے پاس کوئی ایسی مچھلی ہو جو سر سے دم تک سنہری رنگ کی ہو۔ وہ خود سے باتیں کرتا اور کہتا کہ اس کے پاس کئی چاندی کے رنگ کی مچھلیاں موجود ہیں۔ اس کے پاس کئی قوس قزح کے رنگوں والی مچھلیاں موجود ہیں،لیکن دنیا میں کوئی ایسا شخص نہیں جس کے پاس مکمل سنہری رنگ کی مچھلی ہو۔ کاش اس کے پاس ہوتی تو ہر کوئی اسے دیکھ کر حیران رہ جاتا۔ سنہری مچھلی سے زیادہ خوب صورت مچھلی ہو نہیں سکتی۔ اگر ہوتی تو دنیا دور دور سے اسے دیکھنے آتی اور خوش ہوتی۔
اس نے بڑی کوشش کی کہ کہیں سے اسے ایسی مچھلی مل جائے؛ لیکن پھر اسے یہ بات نا ممکن لگنے لگی۔ کئی مچھلیاں ملیں جن پر گہرے پیلے رنگ کے چکتے تھے۔ کئی مچھلیاں نارنجی دھاری دار تھیں لیکن مکمل سونے کے رنگ کی مچھلی کہیں نہ مل سکی۔
پھر تاجر پر برا وقت آ گیا۔ روپیا پیسا اس سے منہ موڑ گیا اور وہ غریب ہوتا گیا۔ اس نے اپنا بڑا مکان بند کر دیا اور اس کے ایک کونے میں رہنے لگا۔ اب اس کے پاس کوئی ملازم نہیں تھالیکن وہ اپنی مچھلیوں کو کھانا کھلانا نہیں بھولتا تھا۔ وہ بوڑھا ہو گیا تھا اور اس نے سنہری مچھلی کو پانے کی خواہش ترک کر دی تھی۔ وہ اگرچہ غریب ہو گیا تھا لیکن اب بھی خوش رہتا تھا۔
اب کئی دفعہ اس کے پوتے پوتیاں اسے ملنے آتے تو وہ ان کے ساتھ کھیلتا۔ اب اس کی سب سے بڑی خوشی یہی تھی۔ پھرایک رات ایک اجنبی تاجر کے مکان پر آیا۔ بڑی مدت کے بعد کسی نے مکان کے باہر لٹکی ہوئی گھنٹی بجائی۔ تاجر نے اس گھنٹی کی آواز کو بہت حیرت سے سنا۔ وہ حیران تھا کہ اسے کون ملنے آیا ہے؟ اس کے دوست مدت ہوئی اسے بھول چکے تھے۔ وہ گھر کی لمبی راہداریوں سے ہوتا ہوا باہر کے دروازے پر آیا۔ اس نے دیکھا کہ باہرایک شخص کھڑا ہے،جس نے سیاہ چوغہ پہنا ہوا ہے اور اس کا گھوڑا اس کے ساتھ کھڑا ہے۔
اجنبی نے اس سے پوچھا:”کیا عظیم تاجر وانگ فواِدھر رہتے ہیں؟“
تاجر نے مودبانہ لہجے میں اسے جواب دیا:”معززمہمان! میں ہی وانگ فو ہوں،لیکن میں اب پرانا عظیم وانگ فو نہیں ہوں۔ میں ایک غریب آدمی ہوں۔ میرا گھر خالی ہے، میں دعا کرتا ہوں کہ تمھیں رہنے کی جگہ دے سکوں اورتمھارے لیے کھانے کا بندوبست کر سکوں۔لیکن میں بہت اچھے کھانے کا وعدہ نہیں کر سکتا۔“
اجنبی مکان میں داخل ہو گیا، تاجر اسے غسل خانے میں لے گیا اوراس کے نہانے کا بندوبست کیا۔ پھر وہ گھوڑے کو دیکھنے آیا۔ اس نے گھوڑے کو خالی اصطبل میں باندھ دیا اور اسے کھانے کو دیا۔پھر اجنبی کے لیے کھانا بنانے باورچی خانے میں چلا گیا۔ایک پرانی الماری میں سے اس نے کچھ کھانے کی چیزیں نکالیں اور پھر کھانا تیار کر کے اجنبی کوآواز دے کر بلایا،جو مچھلیوں کے حوض پر جھکا ہوا انھیں دیکھ رہا تھا۔
اجنبی نے سر اٹھا کر تاجر سے پوچھا:”آپ مچھلیوں کے بہت شوقین لگتے ہیں۔ میں نے جب پانی میں ہاتھ ڈالا تو مچھلیاں ڈرنے کے بجائے میرے ہاتھ کے قریب آگئیں۔“
تاجر نے اجنبی کو بتایا:”ہاں! میری ساری زندگی، خواہش رہی ہے کہ کاش میرے پاس کوئی ایسی مچھلی ہوتی،جس کا مکمل رنگ سنہری ہوتا لیکن میری خواہش پوری نہ ہو سکی۔معزز اجنبی! آپ میرے ساتھ آئیں کھانا تیار ہے۔“
پھر وہ کھانا کھانے بیٹھ گئے۔ کھانے کے بعد اجنبی نے آخر کار بتایا کہ وہ کون ہے اور اسے کیوں ملنے آیا ہے؟ اس نے بتایا:”میرا نام سِنگ فو ہے۔آپ کے گھر بہت سال پہلے ایک عورت کام کیا کرتی تھی، جو آپ کے کپڑے دھوتی تھی،میں اس کا بیٹا ہوں۔“
تاجر نے حیران ہو کر پوچھا:”لیکن آپ تو بہت امیر لگتے ہیں۔“
اجنبی کہنے لگا:”ہاں میں اب بہت امیر ہوں۔ میری ماں نے مجھے جادوگر لے ٹو کے پاس بچپن ہی میں کام پر ڈال دیا تھا،جس نے میری پرورش اپنے بیٹے کی طرح کی۔ اب لے ٹو کا انتقال ہو گیا ہے تو اس کی ساری جائیداد اور منتر مجھے مل گئے ہیں۔“
تاجر نے یہ سنا تو اجنبی کے سامنے سر جھکا کر احترام سے کھڑا ہو گیا۔وہ ہمیشہ جادوگروں سے ڈرتا تھا اور اب ایک جادو گر کو سامنے دیکھ کر اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
اجنبی نے اسے کہا:”میرے آگے سر نہ جھکاؤ۔ میری ماں ناراض ہوگی۔“
تاجر نے پوچھا:”کیا تمھاری ماں زندہ ہیں؟“
اجنبی نے بتایا:”ہاں وہ زندہ ہیں اور مکمل صحت مند ہیں، میں ان کے حکم پر ہی آپ سے ملنے آیا ہوں۔ کیا آپ کو وہ یاد ہیں۔“
تاجر نے فوراً کہا:”ہاں!کیوں نہیں؟ وہ صحت مند اور خوش رہنے والی خاتون تھیں اور میرے ریشمی کپڑے بہت اچھے طریقے سے دھوتی تھیں۔“
اجنبی نے پوچھا:”کیا آپ کو وہ دن یاد ہیں، جب وہ بیمار ہو گئی تھیں اور پانچ ہفتے تک کام نہیں کر سکی تھیں۔“
تاجر یہ سوال سن کر پریشان ہو گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ پتا نہیں، اس نے اجنبی کی ماں کے ساتھ کیسا سلوک کیا تھا، اسے یاد نہیں تھا۔ اسے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں اجنبی جادوگر کی ماں نے اسے سزا دینے کے لیے نہ بھیجا ہو؟آخر اس نے کہا:”نہیں مجھے ان کی بیماری کے دن یاد نہیں۔“
اجنبی کہنے لگا:”لیکن میری ماں کو وہ دن یادہیں۔ آپ نے انھیں سہارا دے کر بستر پر لٹایا تھا۔ فوراً ایک طبیب کا بندوبست کیا تھا اور پھر کام نہ کرنے کے باوجود پوری مزدوری دی تھی۔ وہ کبھی نہیں بھولیں۔ اب میں امیر ہوں تو انھوں نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ان لوگوں سے ملوں، جنھوں نے زندگی میں ان پر احسا ن کیے ہیں اور انھیں انعام دوں۔ اسی لیے میں آپ کے پاس آیا ہوں۔“
تاجر یہ سن کر حیران رہ گیا۔ اس نے پوچھا:”کیا تم ان لوگوں سے بھی ملو گے جنھوں نے تمھاری ماں سے اچھا سلوک نہیں کیا۔ کیاتم انھیں سزا دو گے؟“
اجنبی نے جواب دیا:”نہیں! میری ماں کی ایسی خواہش نہیں ہے۔ وہ اپنے دشمنوں کو بھول چکی ہیں، لیکن اپنے خیر خواہوں کو انھوں نے یاد رکھا ہے۔ اے مہربان تاجر! تم اب غریب ہو۔ میں تمھارے لیے دولت لایا ہوں جس سے تم خوش ہو جاؤ گے۔“
تاجر کہنے لگا:”آپ کی یہ بات غلط ہے۔ دولت سے خوشی نہیں ملتی، میں دولت کے بغیر بھی خوش ہوں۔ مجھے سونا چاندی یا ملازم نہیں چاہییں؛ نہ قیمتی کھانا اور کپڑے۔میں بوڑھا ہوں اور تھک چکا ہوں لیکن خوش ہوں اور ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں۔“
اجنبی نے حیران ہو کر تاجر کی طرف دیکھا۔ وہ کبھی ایسے شخص کو نہیں ملا تھا،جو دولت کو اس طرح ٹھکرا دے۔ وہ اور کچھ نہیں بولا اور تاجر سے اجازت لے کر فرش پر چٹائی بچھاکر لیٹ گیا۔ آدھی رات کو وہ اٹھا،اپنے گھوڑے کے پاس گیا اور اس کی کمر پر لدا ہوا تھیلا اتارا،جس میں سونے کے ڈلے تھے، جو وہ تاجر کو تحفے میں دینے کے لیے لایا تھا لیکن تاجر کو سونا نہیں چاہیے تھا۔ اب اس کے استعمال کی ایک شان دار ترکیب اجنبی کے ذہن میں آئی تھی۔
وہ اسے لے کر ایک حوض کے پاس گیا، جہاں مٹیالے سبز رنگ کی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ایک ایک کر کے وہ سونے کے ڈلے حوض کے پانی میں گرانے لگا اور ساتھ ساتھ ایک منتر بھی پڑھنے لگا۔ ہر سونے کا ڈلا پانی میں گھلنے لگا اور سنہری نارنجی رنگ کا بادل بنانے لگا۔ ان بادلوں کے مرغولوں کی طرف مچھلیاں آنے لگیں کہ دیکھیں یہاں کیا ہو رہا ہے؟
جب صبح ہوئی تو وہ تمام مچھلیاں سر سے دُم تک سنہری ہو چکی تھیں۔ بوڑھے تاجر نے اجنبی کو بہت تلاش کیا لیکن وہ جا چکا تھا۔ پھر اس نے مچھلیوں کو دیکھا،تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اس کا خواب سچ ہو گیا تھا اس کے حوض میں سنہری مچھلیاں ہی مچھلیاں تھیں۔
بچو! آپ جب بھی سنہری مچھلی کہیں دیکھو تو نیک دل تاجر کو دل میں یاد کرنا اور کپڑے دھونے والی اس کی نیک ملازمہ کو بھی اور پھر خود بھی ہمیشہ دوسروں سے مہربانی سے پیش آنا۔ کوئی نہیں جانتا کب نیکی کا بدلہ دینے کوئی اجنبی تمھارا دروازہ کھٹکھٹانے آن پہنچے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top