skip to Main Content

انگور کے دانے ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی امی جان نے لاہور کا قصد کیا۔ سب بچے بہت خوش تھے۔ پچھلے سال دوتین شادیوں کے باعث وہ چھٹیاں گزارنے نانا جان کے پاس لاہور نہیں جا سکے تھے۔اس لیے اسکول کی چھٹیاں ہوتے ہی پہلے پندرہ دن تو ہوم ورک مکمل کرنے میں لگ گئے اور اب وہ سب چھٹیاں گزارنے کے لیے بالکل تیار تھے۔
’’ہر بچہ اپنے کورس کی کتابیں ضرور ساتھ رکھے۔ چھٹیوں کا یہ مطلب نہیں کہ کتابیں بالکل ہی بند کرکے رکھ دی جائیں۔‘‘ امی جان نے حکم صادر کیا۔لہٰذا سب نے کتابیں بھی ساتھ لے لیں تاکہ گاہے گاہے دیکھتے رہیں اور پڑھا ہوا سبق تازہ ہوتا رہے۔
احمر، اطہر اور سیما تینوں ہی بہت خوش تھے۔نانا جان بڑے مزے مزے کی کہانیاں بھی سناتے اور انہیںخوب گھماتے پھراتے تھے۔مظہر ماموں خوب ہنسی مذاق کرتے تھے۔
اللہ اللہ کرکے وہ ٹرین میں بائیس گھنٹے کا سفر کرکے لاہور پہنچے۔ اسٹیشن پر مظہر ماموں اور نانا جان ان کے منتظر تھے۔
سب بچے ماموں اور نانا جان سے لپٹ گئے۔ سلام دعا کے بعد قلی کی مدد سے سامان اتارا گیا، پھر وہ بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کرگھر روانہ ہو گئے۔
نانا جان ٹائون شپ میں رہتے تھے جہاں ان کا بڑا سا دو منزلہ گھر تھا جس میں کھیلنے کے لیے ایک بڑا لان بھی تھاجس میں ہمیشہ موسم کے پھول کھلے رہتے تھے۔گھر سے ذرا ہی دور بہت بڑا بازار تھا جہاں دنیا بھر کی چیزیں ملتی تھیں اور نانا جان جب بھی سودا سلف لینے جاتے وہ سب ان کے ساتھ ہولیتے تھے۔پہلا دن تو آرام کرنے میں ہی گزر گیا،مگر بھلا بچوں کوآرام کہاں؟ نانا جان نے احمر سے پوچھا:’’کیا کھائوگے؟‘‘
’’میںتو آلو قیمہ۔‘‘ اطہر نے آواز لگائی۔
’’میں بھنڈی گوشت۔‘‘ سیما بھلاکیوں پیچھے رہتی۔
’’ہاں بھئی سب کی فرمائشیں پوری ہوں گی۔‘‘نانی جان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’نانا جان نے کہا:’’مجھے سامان کی فہرست بنا دیجیے،میں لے آئوں۔‘‘
مظہر ماموں بولے:’’ابو میں لے آتا ہوں، آپ باتیں کریں۔‘‘
نانا جان نے کہا:’’نہیں بھئی میں خود لائوں گا۔تھوڑی بہت سیر صحت کے لیے اچھی ہوتی ہے اور پھر بچے بھی بازار جانے کی تاک میں رہتے ہیں۔‘‘
’’ہم بازار جائیں گے۔‘‘ تینوں نے ایک ساتھ نعرہ لگایا۔
بچوں کی بے چینی دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔
نانا جان نے کپڑے کے دو تھیلے لیے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔احمر نے تعجب سے پوچھا:’’نانا جان کپڑے کے تھیلے؟ کیا یہاں پلاسٹک کے شاپر نہیں ہوتے؟‘‘
’’ہوتے ہیں۔‘‘نانا جان نے جواب دیا:’’ لیکن میں نہیں استعمال کرتا۔ شاپرز خراب ہو کر زمین میں گلتے نہیں اور نالیوں میں پھنس کر خرابی پیدا کرتے ہیں جبکہ کپڑے یا کاغذ کے لفافے خراب ہونے کے بعد مٹی میں مل جاتے ہیں اور ماحول کو خراب نہیں کرتے۔‘‘
’’ارے! یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔‘‘ احمر نے کہا۔
’’بھائی! آپ نہ سوچا کریں۔‘‘ اطہر نے کہا۔’’ بلاوجہ آپ کے گھٹنوں میں درد ہوتا ہے۔‘‘
’’بھائی آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘سیما نے آنکھیں نچا کے شرارت سے کہا ،’’اطہر بھائی خود ٹخنوں سے سوچتے ہیں۔ابھی کچھ ہی دن پہلے تو امی کہہ رہی تھیں کہ اطہر تمہاری عقل تو ٹخنوں میں ہے۔‘‘سب ہنسنے لگے۔
پھر نانا جان کے ساتھ بازار کی طرف چل دیے۔نانا جان نے سبزیاں خریدنے کے لیے دکان کا رخ کیا۔ پالک، ہری ہری بھنڈیاں، سرخ ٹماٹر، ہری شملہ مرچیں، بڑے بڑے گوبھی کے پھول، صاف ستھرے آلو بڑے سلیقے سے لگے ہوئے تھے۔سبزی والے چاچا نے بچوں کو پہچان لیا:’’آگئے بچو! لاہور کے مزے لینے۔‘‘
’’جی چاچا جی! آپ سنائیں کیسے ہیں؟‘‘ اطہر نے پوچھا۔
’’اللہ کا شکر ہے۔‘‘
’’ سبزیاں تو بڑی اچھی لگ رہی ہیں اور یہ ٹماٹر۔‘‘اطہر نے ہاتھ بڑھا کر ایک ٹماٹر اٹھا لیا اور مزے سے کھانے لگا:’’ یہ تو بڑا کھٹا میٹھا ساہے۔‘‘
چاچا عبدالغفور ہنسنے لگے۔نانا جان نے سبزیاں خریدیں۔ چار سو اسی روپے بنے ۔ نانا جان نے پانچ سو کا نوٹ دیتے ہوئے کہا: ’’کوئی بات نہیں بیس روپے رکھ لو۔‘‘
’’بہت مہربانی۔‘‘چاچا عبدالغفور نے مسکراکر کہا۔
اس کے بعد وہ ذرا آگے بڑھے تو سامنے ہی مزے دار فالسے بک رہے تھے۔
نانا جان نے کہا:’’فالسے لیتے ہیں۔کھائیں گے اور شربت بھی بنوائیں گے۔‘‘
’’بالکل بالکل۔‘‘ سیما نے خوشی سے کہا۔
نانا جان فالسے خریدنے لگے۔ ان تینوں نے دودو چار چار فالسے اٹھاکے کھالیے۔ فالسے والے نے دیکھا تو سہی ، مگر بولا کچھ نہیں۔ نانا جان نے اسے پیسے دیے تو وہ پانچ روپے بقایا واپس کرنے لگا:’’کوئی بات نہیں رکھ لو۔‘‘انہوں نے کہا۔
بچے بہت خوش تھے۔نانا جان نے مرغی کا گوشت خریدا،پھر بکرے کا گوشت لینے لگے۔ اتنے میں احمر کی نظر انگور کے ٹھیلے پر پڑی۔ خوش رنگ ، رس بھرے سندر خانی انگور سے ٹھیلا بھرا ہوا تھا۔تینوں بچے ادھر ہی دیکھنے لگے۔
نانا جان گوشت لے کر فارغ ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ تینوں بچوں کی توجہ انگوروں کی طرف تھی۔ وہ سمجھ گئے کہ بچے انگور کھانا چاہتے ہیں۔
’’ہاں بھئی انگور کے متعلق کیا خیال ہے؟‘‘ انہوں نے بچوں سے پوچھا۔
’’نیک خیال ہے نانا جی۔‘‘ اطہر بولا۔
’’جو آپ کا خیال ہے۔‘‘احمر کے لہجے میں شرارت تھی۔ نانا جان ہنسنے لگے ۔انہوں نے سیما سے پوچھا:’’بھئی آپ کیوں چپ ہیں؟‘‘
سیما نے کہا:’’میں اس لیے چپ ہوں کہ آپ انگور تو ضرور ہی خریدیں گے تو میں کیوں نہ آم کی فرمائش کردوں۔‘‘
نانا جان ہنسنے لگے۔ پھر انہوں نے انگور والے سے دام پوچھے اور چار کلو انگور تولنے کو کہا۔ تینوں بچے انگور کے ٹھیلے کے گرد جمع تھے اور انگور کے دانے اٹھا اٹھا کے منہ میں ڈال رہے تھے۔نانا جان نے انگور تلوا کے پیسے دیے۔
انگور والا کہنے لگا:’’ میرے پاس کھلا نہیں ہے،بیس روپے کے انگور اور ڈال دوں؟‘‘
’’نہیں… نہیں رہنے دو، رکھو کوئی بات نہیں۔‘‘
تینوں بچے سودے سے بھرے ہوئے تھیلے لے کر خوش خوش گھر میں داخل ہوئے۔
امی جان نے جلدی سے بڑھ کے تھیلے ان لوگوں کے ہاتھ سے لیے اور احمر سے کہا:
’’جائو ہاتھ دھو کر نانا جان کے لیے پانی لائو۔‘‘
’’جی بہتر…‘‘احمر نے جلدی سے کہا اور نانا جان کے لیے پانی لینے چلا گیا۔
سب ہی بچے نانا جان سے بہت پیار کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے کہ نانا جان کوئی کام کہیں اور وہ دوڑ پڑیں۔ نانا جان نے امی سے کہا:
’’بیٹا! ذرا انگور دھو کر فریج میں رکھ دو۔ ذرا ٹھنڈے ہوں گے تو اور بھی زیادہ مزے دار لگیں گے۔‘‘
’’جی ابو جان!‘‘ امی نے کہا اور انگور اٹھا لیے۔
دوپہر کے کھانے کے بعد تقریباً چار بجے کے قریب نانا جان نے سب کو بلایا۔نانا جان بڑے کمرے میں موجود تھے۔نانا جان نے کہا:
’’میں نے سوچا کہ گھر کے سب افراد مل جل کے انگورکھائیں،ذرا سیما بیٹی فریج سے انگور لے آئو۔‘‘
’’جی نانا جان۔‘‘سیما نے کہا اور انگور لینے چلی گئی اور ذرا سی دیرمیں ٹھنڈے انگوروں کا طشت لے آئی۔اتنی دیر میں امی جان نے انگور کے لیے پلیٹیں نکال لیں۔نانا جان نے سب کو انگور پلیٹوں میں رکھ کے دیے۔ سب انگور کھانے لگے۔ انگور بہت میٹھے اور رس بھرے تھے۔ اس دوران جس بچے کی توجہ ذرا بھی ادھر ادھر ہوتی وہ بڑی ہوشیاری سے انگور کے دوچار دانے دوسرے کی طشتری سے اڑا لیتا۔ نانا جان دیکھ رہے تھے۔
انہوں نے کہا:’’بچو! کیا چوری بری بات ہے؟‘‘
’’ کیا مطلب نانا جان؟‘‘احمر نے حیرت سے کہا:’’یہاں چور کہاں؟‘‘
’’تم سب ایک دوسرے کے انگور کے دانے چوری کر رہے ہو۔‘‘ ناناجان نے نرمی سے کہا،’’ ایک بات بتائوں؟‘‘انہوں نے بچوں سے کہا۔
’’جی ضرور۔‘‘ بچے ایک ساتھ بولے۔
’’کسی کی ملکیت سے بغیر اجازت کچھ لینا چوری ہے اور چوری سخت گناہ ہے۔‘‘
’’جی نانا جان!‘‘ بچوں نے گردن ہلائی۔’’مگر ہم نے چوری کہاں کی ہمیں بتائیے؟‘‘
’’اچھا۔‘‘نانا جان نے کہا،’’ میں نے تم سب کو الگ پلیٹوں میں انگور دیے۔کیوں؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘بچوں نے فوراً جواب دیا۔
جب آپ سب کو الگ پلیٹوں میں انگور دیے تو وہ آپ کی ملکیت میں ہوگئے، چاہے سارے کھالیں یا کچھ بچالیں، یہ آپ کی مرضی ہے۔ہے نا؟‘‘ انہوں نے بچوں سے پوچھا۔
’’جی بالکل۔‘‘اطہر نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں ان کی طرف دیکھا۔
’’اب اگر کوئی بغیر اجازت آپ کی پلیٹ سے نظر بچا کر انگور کھائے اور آپ کو پتا بھی نہ چلے تو وہ کیا ہوگا؟‘‘
’’چوری۔‘‘ بے ساختہ تینوں کے منہ سے ایک ہی لفظ نکلا۔
’’تو پھر آج آپ لوگوں میں سے کسی نے ٹماٹر، کسی نے فالسے اور کسی نے انگور کے دانے ٹھیلوں سے اٹھا کر کھائے تو کیا بغیر اجازت کھانا چوری نہیں؟‘‘
’’لیکن ہم نے تو ان کے سامنے کھائے تھے۔‘‘ احمر نے آہستہ سے کہا۔
’’یہ تو پھر چوری اور سینہ زوری ہوئی نا۔‘‘ نانا جان ہنسے:’’آپ نے دیکھا کہ میں نے ٹھیلے والوں کو دس پیس روپے زیادہ ہی دیے، کیوں؟‘‘
’’جی…‘‘سیما نے کہا۔ اس کی آواز میں افسوس تھا۔
’’بعض چھوٹی چھوٹی چیزیں جنہیں ہم غیر اہم سمجھتے ہیں وہ نہ صرف ہماری نیکیاں ضائع کر دیتی ہیں بلکہ اللہ کے حضور ہمیں جواب دہ بھی بناتی ہیں۔ اللہ کے سچے رسول حضرت محمد مصطفی ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا:
’’اے عائشہ! اپنے آپ کو ان گناہوں سے بچانے کی خاص طور پر کوشش کرو جن کو حقیر اور معمولی سمجھا جاتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی باز پرس ہونے والی ہے۔‘‘
’’جی آپ صحیح کہتے ہیں نانا جان!‘‘ اطہر نے سر جھکا کے کہا:’’ آئندہ ہم خیال رکھیں گے کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں بھی احتیاط کریں۔‘‘
’’شاباش۔‘‘ نانا جان نے مسکراکے کہا۔’’ابھی انگور تو کھائو۔‘‘
’’لیکن اپنے اپنے۔‘‘ سیما نے گرہ لگائی اور سب ہنسنے لگے۔

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top