نیکی کا سفر
ڈاکٹر صفیہ سلطانہ صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’تمال۔۔۔ دمال۔۔۔!! نانا ماموں۔۔۔ تم وہی بچے ہو کیا؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسعود بھی حیرت انگیز بچہ تھا، ہر میدان میں آگے اور فاتح۔ پڑھائی ہو یا کھیل، تعلیم و تربیت سے لے کر نیکی اور بھلائی کے کاموں میں وہ سب سے آگے تھا۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ وقت ضائع کرنے والے فالتو کام اور مشاغل سے دُور رہتا تھا۔
وہ اور اس کا دوست رافع، کرکٹ کھیل کر واپس آرہے تھے! ’’آج تو جیت کا مزا آگیا۔‘‘ رافع نے خوشی سے کہا۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں، مگر مسعود نے ’’ہوں‘‘ کہہ کر مختصر سا جواب دے دیا۔
’’چلو آج کچھ مزے دار چیز کھاتے ہیں، بہت بھوک لگی ہے!‘‘ رافع بولا۔
’’تم کھالو! میں گھر چلتا ہوں اب۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’تھکتے تو ہو نہیں تم! پھر کیا ہوا ہے؟ اور ہم ہار کے بھی نہیں آرہے؟‘‘ رافع نے بُرا سا منھ بنایا۔
’’ویسے ہی کہا؟ ابھی مغرب ہو رہی ہے، پھر نکلنا پڑے گا، نماز پڑھ کر ہی چلتے ہیں۔ چلو آؤ کچھ کھاتے ہیں نا!‘‘ رافع نے کہا۔
’’موڈ نہیں!‘‘ مسعود نے کہا تو رافع اس کے پیچھے ہی پڑ گیا۔ ’’بتاؤ کیا ہوا ہے؟‘‘
مسعود نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول تھا جو میں نے ساتویں جماعت میں پڑھا تھا کہ ’’اُس دن پہ رو، جس دن تو نے کوئی نیکی نہ کی ہو۔‘‘ میں نے ساتویں جماعت سے لے کر آج کے دن تک یہ طریقہ اپنالیا کہ دن میں بیس نہیں تو کوئی دس نیک کام ضرور کرتا ہوں۔ مگر آج میں نے کوئی نیکی اور بھلائی نہیں کی بس اسی لیے اُداس ہوں۔‘‘
’’ہم نے نیکی کی تو ہے۔ ابھی جو عصر پڑھی تھی۔ پانچ وقت کی نمازیں پڑھتے ہیں ہم! دوسرے بچوں کو دیکھو!‘‘ رافع نے کہا۔
’’نہیں یار! اپنے سے اوپر جانے والوں کو دیکھو، اپنے سے نیچے بلکہ گرنے والوں کو نہیں دیکھو۔‘‘
باتوں ہی باتوں میں مغرب کی اذان ہوگئی۔ وہ نماز پڑھ کر نکلے ہی تھے کہ انھیں سامنے سڑک کے کنارے ایک چار سالہ بچہ روتا ہوا نظر آیا۔
’’چل یار! نیکی کرلے، زبردستی سڑک پار کرادے بچے کو۔‘‘رافع نے شرارت سے کہا۔
بچے کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ گیا تھا! نجانے وہ کب سے خوفزدہ رو رہا تھا۔ رافع اور مسعود نے اس کے پاس جاکر اس سے سوالات کرنا شروع کردیے۔
’’مسعود! دیکھ لو۔۔۔ آج کل بچوں کے ذریعے ڈاکو چور اور بچوں کو اغوا کرنے والے اپنا کام دکھاتے ہیں۔ نیکی گلے نہ پڑ جائے۔‘‘ رافع نے خوفزدہ ہوکر کہا۔ ’’لیکن اگر یہ کوئی مظلوم ہے تو بہت بڑا گناہ ہوجائے گا ہم سے، معلوم کرکے کچھ نہ کچھ اندازہ کرلیتے ہیں۔‘‘ مسعود نے پر خیال انداز میں کہا۔
’’یار تم اکیلے نیکی کرو، بیس نیکیوں کا کوٹا پورا ہوجائے گا مجھے دیر ہو رہی ہے، میں تو چلا۔‘‘ یہ کہہ کر رافع جانے کے لیے مڑ گیا۔
’’کہاں چلا؟ا یسے کیسے جائے گا؟ اب تو ہم ساتھ ہی جائیں گے اس بچے کو اس کی منزل تک پہنچا کر۔‘‘ مسعود کی آواز میں خوشی اور شرارت کی آمیزش ہوگئی تھی۔ اس نے رافع کا ہاتھ پکڑ کر کھینچا۔ مجبوراً رافع کو رکنا پڑا۔ اب وہ بچے کے قریب آگئے تھے۔
مسعود نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا: ’’بیٹے کون ہو تم؟‘‘
’’تمال‘‘ بچے نے ہچکیوں کے درمیان بتایا۔
’’ہائیں؟ کون؟‘‘ رافع نے مسکرا کر پوچھا۔
’’دمال!‘‘ بچے نے روتے روتے ہی جواب دیا۔
’’لو! اس کا تو ہر لمحے نام بدل جاتا ہے۔ آثار بتاتے ہیں کہ یہ جمال بھی ہوسکتا ہے کمال بھی!‘‘ رافع نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’آپ کہاں رہتے ہیں؟‘‘ مسعود نے اس کے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’توتلی میں!‘‘ بچہ معصومیت سے بولا۔
’’یار مسعود! اس نام کا تو کوئی بھی علاقہ کراچی میں نہیں پایا جاتا! کس مصیبت میں پڑ گئے۔ چلو اس کی گمشدگی کا اعلان کراکے گھر چلتے ہیں۔‘‘
کمال اور جمال کے نام سے بچے کی گمشدگی کا اعلان ہوا مگر کوئی بھی بچے کو لینے نہیں آیا۔ بچے کی ٹوٹی پھوٹی زبان سے پتا چلا کہ وہ کوٹلی کا رہنے والا تھا اور اپنے نانا کے گھر آیا ہوا تھا! وہ نانا کے پیچھے گھر سے نکلا اور چلتے ہوئے بہت دُور نکل آیا۔ مسعود نے رافع کو چھٹی دے دی اور اپنے گھر دیر سے آنے کا کہلوا دیا۔ جب رات زیادہ ہونے لگی تو امام مسجد کی اجازت اور مشورے سے مسعود اس بچے کو گھر لے آیا۔
بچہ بہت سارے بسکٹ چاکلیٹ اور پھل لے کر بہل گیا، مسعود کی امی نے اسے کھانا کھلایا اور کہا کہ کل قریبی مساجد سے بھی اعلان کراؤ۔ اتنا چھوٹا بچہ آدھا کلومیٹر سے زیادہ دُور نہیں جاسکتا۔
’’دادی؟ ادل تامنے دھل تا میلے نانا دان تھا! اب تو ماما میلی آئی تلیم بھی تھا دئے اونگے!‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ لہٰذا اسے ایک آئس کریم بھی منگوا کے دے دی گئی۔
’’اب تو تھوتھی تالہ نے میلے تیس بھی تھالیے ہوں دے۔‘‘ اور وہ سوچ کر رونے لگا پھر چپس منگوانے پڑے۔ کھانے کی چیزیں ختم ہوتے ہی بچے کو یاد آجاتا کہ وہ تو کھو گیا ہے۔ مسعود کی امی کا اندازہ ٹھیک نکلا اور بچے کو اس کے نانا تک پہنچا دیا گیا۔
مسعود کی زندگی میں سکون بہت تھا، مشکلات اور خطرات سے اللہ اسے صاف بچا لیتا تھا، بڑے ہوکر بھی اس نے اپنا طریقہ نہیں بدلا۔ وہ مشکلات کی ٹھوکروں سے گھبرا کر سیدھے راستے سے ہٹنے والوں میں نہیں تھا۔
*۔۔۔*
زندگی کے پچیس برس اسی طرح بیت گئے۔ دوسروں کا بھلا سوچنا اور حلال کھانا اس کا طریقہ رہا۔ مسعود، مسعود صاحب بن گیا۔ مسعود کا ایک چھوٹا سا کاروبار تھا، تین بچے تھے اور تینوں کی شادی ہوچکی تھی۔ بڑی بیٹی شہدادپور میں بیاہی گئی تھی۔
باقی صفحہ نمبر۔۔۔ پر
بقیہ: نیکی کا سفر
آج مسعود صاحب اپنی بیگم کے ساتھ اپنی بیٹی اور نواسی سے ملنے جارہے تھے۔ دونوں سفر میں تھے کہ مسعود کے پیٹ میں شدید درد اُٹھا اور انھیں سفر منقطع کرنا پڑا۔ اب نہ وہ شہدادپور پہنچ سکتے تھے نہ ہی واپس کراچی۔ لہٰذا اُنھیں درمیان میں ہی اُتر کر اسپتال کی تلاش کرنی پڑی۔ ان کی حالت بہت خراب تھی۔
نیکیاں کرنے والوں کا اللہ ہاتھ پکڑتا ہے۔ اس کی مدد کے لیے نیک بندے بھیجتا ہے اور جہاں لوگ نہ ملیں وہاں اللہ کے ولی کی فرشتوں سے کے ذریعے کی جاتی ہے۔ رکشے والے نے مسعود صاحب اور ان کی اہلیہ کو ایک چھوٹے سے اسپتال میں پہنچا دیا۔ مسعود کی بیوی فاطمہ نے کہا: ’’مجھے تو لگتا ہے کہ یہاں ڈاکٹر ہی موجود نہیں ہے؟ ‘‘وہ درد سے تڑپتے شوہر کے لیے سخت پریشان تھی۔
وارڈ بواے، جو اس اسپتال کا چوکیدار، ڈاکٹر، منتظم سبھی کچھ لگ رہا تھا اس نے بے نیازی سے کہا:’’ پین کلر دے سکتا ہوں یا کسی اور بڑے اسپتال چلے جاؤ فی الحال یہی مشورہ دے سکتا ہوں!‘‘ ابھی فاطمہ فیصلہ بھی نہ کر پائی تھی کہ اس نے دو آدمی اندر داخل ہوتے ہوئے دیکھے، وارڈ بواے نے چڑ کر کہا: ’’بھائی! ڈاکٹر نہیں ہے اِدھر! آپ کو جو بھی مسئلہ ہے وہ لے کر کہیں دور چلے جاؤ۔‘‘
ان آدمیوں میں سے، ایک ادھیڑ عمر کا شخص اور ایک نوجوان تھا، نوجوان نے گھور کر لڑکے کو دیکھا اور کہا: ’’میں خود ڈاکٹر ہوں اور یہ میرے اسپتال کے منتظم ہیں۔‘‘
’’اوہ! اچھا۔۔۔ پھر آپ یہاں کیسے آگئے؟ وارڈ بوائے نے ذرا گھبرا کر کہا۔
’’لمبے سفر پہ ہیں! پانی کی ضرورت پڑ گئی تھی گاڑی میں ڈالنے کے لیے پانی ختم ہوگیا۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب، آپ میرے شوہر کو دیکھ لیں۔‘‘ فاطمہ نے ڈاکٹر کی بات کاٹ کر اس کو ایمرجنسی روم میں لیٹے شخص کی طرف متوجہ کیا اور ڈاکٹر باقی سب بھول کر مریض کو دیکھنے کے لیے بڑھ گیا۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد صبح ہوگئی! ڈاکٹر سرجن کمال نے بہت خوش ہوکر اپنے ساتھ آنے والے شخص کو اور فاطمہ کو بتایا کہ اللہ نے اس مریض کی جان بچا لی!! ہرنیا کا چھوٹا سا آپریشن تھا مگر مریض کی لاپروائی کی وجہ سے ایک چھوٹی تکلیف جان لیوا ثابت ہوسکتی تھی، بروقت آپریشن ہوگیا لہٰذا اب مریض پرسکون ہوچکا ہے، بغیر سہولیات کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں ایک ماہر ڈاکٹر میسر آگیا تھا! مسعود اللہ کی مدد پر بہت حیران و شکر گزار تھا۔ فاطمہ نے شکرانے کے نفل ادا کیے تھے۔
ڈاکٹر کمال نے کہا: ’’ماموں جان! اب چلیے؟ بہت وقت ہوگیا ہے؟‘‘ مسعود ان دونوں کا بہت شکر گزار تھا! مجھے لگتا ہے کہ میں نے آپ کو کہیں دیکھا ہے۔۔۔؟ مسعود نے اس شخص کو مخاطب کیا جسے ڈاکٹر نے ’’ماموں‘‘ کہا تھا۔ ’’جی۔۔۔ آپ کی شکل آواز بھی مجھے بہت شناسا لگتی ہے؟ شاید کراچی میں آپ کو کہیں دیکھا ہے۔‘‘
’’آپ کی رہائش کہاں ہے کراچی میں؟‘‘ مسعود نے پوچھا۔
’’لالوکھیت دس نمبر کے قریب! اور دس نمبر سے پیچھے والے علاقے میں جب بھی کبھی جانا ہو، میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں!!‘‘ ڈاکٹر کے ماموں نے کہا۔
’’وہ کیوں۔۔۔؟؟‘‘ مسعود نے پوچھا۔
’’یہ صاحب زادے کھو گئے تھے ایک بار، ان دنوں ان کے والدین کوٹلی میں تھے اور یہ ابا جی کے ساتھ ضد کرکے کراچی آگئے تھے۔
’’میں اس قصے کو بہت انجواے کرتا ہوں، ماموں حمید مجھے اکثر چھیڑتے ہیں اس قصے کی تفصیلات بتا کر۔‘‘ ڈاکٹر نے جھینپ کر کہا۔
’’تمال۔۔۔ دمال۔۔۔!! نانا ماموں۔۔۔ تم وہی بچے ہو کیا؟‘‘ مسعود حیرت زدہ رہ گیا۔
’’ارے ارے۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر کے ماموں چونکے اور اُنھوں نے اب مسعود کو باقاعدہ گھور کر دیکھا۔
’’تم۔۔۔ تم وہی مسعود!! تم وہی مسعود ہو نا؟ ‘‘ماموں نے خوشی سے کہا۔
’’ہاں بالکل!میں وہی ہوں!! مجھے یقین آگیا کہ نیکی آخرت میں تو بہت کام آتی ہی ہے مگر دنیا میں بھی راحت و سکون دیتی ہے۔‘‘
مسعود نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔
’’میں اکثر سوچتا ہوں کہ اگر کمال کسی غلط ہاتھ میں پڑجاتا تو کوئی چور ڈاکو یا بھکاری ہوتا! میں اسے ہمیشہ یاد دلاتا ہوں کہ ایک مسعود نامی شخص نے تمھیں بہت دُور سے ہمیں واپس لاکر دیا تھا! میں اللہ کا بہت شکر گزار ہوں کہ اس نے کمال کو تمھارے ہاتھوں میں دے دیا تھا، ورنہ یہ کسی اور کے ہتھے چڑھ جاتا تو ہم اس کے والدین کو کیا جواب دیتے؟‘‘ حمید کی آنکھوں میں اس واقعے کی یاد سے بھی آنسو آجایا کرتے تھے!
’’میں نے اپنے محسن کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے آج!‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔
’’اب تو تم بھی ہمارے محسن ہو بیٹا!! اصل میں اللہ ہی ہے وہ، جو ہم سب کا خیال ایک دوسرے سے کرواتا ہے۔ نیکی کی توفیق دے کر!‘‘
کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر کمال کی گاڑی سب کو لے کر رواں دواں ہوگئی تھی، اب ڈاکٹر کمال کو پہلے اپنے محسن مریض کو منزل تک پہنچانا تھا۔ اس کے بعد ان منزل تھی۔