بڑا آدمی
بن یامین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسینے میں ڈوبا ذیشان سوچنے لگا کہ دراصل بڑا آدمی کون ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذیشان نے ہارن کی تیز آواز پر اپنے کمرے کی کھڑکی سے پردہ ہٹا کر نیچے پورچ کی طرف دیکھا۔ مین گیٹ کے باہر ایک لمبی چمچماتی گاڑی کھڑی تھی جس کا ڈرائیور بے صبری سے ہارن بجا رہا تھا۔ گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ڈاکٹر سہیل تشریف فرما تھے۔ ذیشان کو یقین تھا کہ اتنی بے صبری سے ہارن بجانے کا محرک یقیناًڈاکٹر سہیل کی ہدایات ہی ہوں گی۔وہ اپنا ایک منٹ ضائع کرنا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر سہیل، ذیشان کے والد تھے اور اس شہر کے بہت ہی مایہ ناز برین سرجن تھے۔
اگلے کچھ لمحات میں جو کچھ ہونا تھا اس کا علم ذیشان کو پہلے ہی سے تھا کیوں کہ وہ تقریباً روزانہ کا معمول تھا۔ کسی میکانکی انداز میں اس کی نظریں بے اختیار لان کی دوسری طرف پودوں کی تراش خراش کرتے آواز خان کی طرف اُٹھ گئیں۔
وہ پودے تراشنے والی قینچی کو چھوڑ کر تیزی سے دروازے کی طرف بھاگا۔ اس کے دروازہ کھولتے ہی گاڑی تیزی سے اندر آئی۔ گاڑی سے اُتر کر ڈاکٹرسہیل آواز خان سے کچھ بات کرنے لگے۔ ذیشان کو اوپر تک صاف آواز تو نہیں آرہی تھی لیکن ان کے لہجے اور اس کے اپنے سابقہ مشاہدے کی بنا پر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کے دیر سے دروازہ کھولنے پر خفگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ آواز خان سر جھکاے ایک لفظ کہے بغیر ان کی ڈانٹ سنتا رہا۔ نام تو اس کا آواز خان تھا مگر اس کی آواز شاذ و نادر ہی سننے کو ملتی۔
آواز خان ڈاکٹر سہیل کے گھرمیں تقریبا چار سال سے کام کر رہا تھا۔ وہ بطور مالی ملازم رکھا گیا تھا مگر سودا سلف لانے سے لے کر گھر کے تقریبا سارے ہی کام کرتا تھا۔ ذیشان کو اب تک یاد ہے کہ جب آواز خان نے پہلی دفعہ اسے اپنا نام بتایا تو اس کو بے اختیار بہت ہنسی آئی۔۔۔ بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا۔۔۔ آواز خان لیکن آواز خان نے اس کی ہنسی کا بالکل بُرا نہیں مانا تھا۔ وہ ہر وقت مسکرانے والا ایک ہنس مکھ نوجوان تھا۔ ذیشان نے کبھی اُسے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ آواز خان کو پھولوں اور پودوں سے عشق تھا اور یہ کام وہ نوکری سے بڑھ کر کرتا تھا، اس نے ذیشان کو بھی باغبانی کے کافی گُر سکھائے تھے۔
گاڑی سے اُتر کر ڈاکٹر سہیل چلتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہوگئے۔ ذیشان ان کو سلام کرنے کے لیے نچلی منزل پر آچکا تھا۔ ذیشان کو دیکھ کر بولے :’’کیا حال ہیں بیٹا! اپنی برتھ ڈے کا گفٹ پسند آیا۔‘‘
’’جی ابو۔‘‘ ذیشان نے کہا۔
اس کی سالگرہ پر اُنھوں نے ذیشان کو آئی فون سیون پلس تحفے میں دیا تھا۔
’’بس اس بات کا خیال رکھنا کہ ہر وقت گیم نہ کھیلتے رہنا اس پر۔‘‘
’’جی ابو۔‘‘
ابھی دونوں باپ بیٹے باتیں کر ہی رہے تھے کہ باہر دروازے سے آوازخان کی ہچکچاتی ہوئی آواز آئی: ’’صاحب جی! آپ سے ایک بات کرنی تھی۔‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘ ان کے لہجے میں ناگواری تھی۔ شاید یوں گفتگو میں اس طرح مداخلت اُنھیں بُری لگی تھی۔
’’ڈاکٹر صاحب! میری ماں گاؤں سے اِدھر آگئی ہے اگر میری تنخواہ۔‘‘
اس کی بات ابھی ادھوری ہی تھی کہ ڈاکٹر صاحب اس کی بات تیزی سے کاٹ کر بولے:’’تنخواہ بڑھانے کی بات تو بالکل نہ کرنا۔ تمھیں معلوم ہے تم نے دس ہزار پر یہ ملازمت شروع کی تھی۔ میں ہرسال از خود تمھاری تنخواہ بڑھا رہا ہوں۔ اب تمھاری ماں میری ذمہ داری تو نہیں ہے۔‘‘
آواز خان کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ ذیشان نے اس کے چہرے پر واضح طور پر کرب محسوس کیا مگر آواز خان منھ سے کچھ نہ بولا اورہلکے سے ’’جیسی آپ کی مرضی ‘‘ کہتا ہوا چلا گیا۔
آواز خان کی تنخواہ بارہ ہزار روپے تھی۔ اس تنخواہ میں وہ گھر کے سارے کام صبح سے شام تک کرتا رہتا تھا۔ کبھی کوئی کام کرتے وقت اس کے ماتھے پر شکن نہ آتی، آج پہلی دفعہ اس نے اس قسم کی کوئی بات کرنے کی کوشش کی تھی۔
ذیشان کو یاد آیا کہ کل ہی اس کی فیملی دو دریا پر کھانا کھانے گئی تھی تو چالیس ہزارروپے کا بل بنا تھا، اس کو سالگرہ پر دیا جانے والا آئی فون کم از کم اسّی ہزار روپے کا تو ہوگا۔
’’تم یقیناًیہ سوچ رہے ہوگے کہ میں نے اس کے ساتھ زیادتی کی۔‘‘ ڈاکٹر سہیل اپنے بیٹے ذیشان کے چہرے پر گہری فکر کے آثار دیکھ کر بولے: ’’نہیں میں تو بس ایسے ہی۔‘‘
’’بیٹا تم نہیں جانتے، اگرہم ان لوگوں کے مطالبات ایسے ہی مان لیں تو اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ کل کو آکر کہے گا کہ مجھے آئی فون دلوادیں۔ تنخواہ اور بڑھادیں وغیرہ وغیرہ۔ تم اپنے ننھے ذہن کو پریشان نہ کرو، جب بڑے ہوگے تو زندگی کے تضادات خود بخود سمجھ میں آجائیں گے۔ یہ سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ نے کچھ لوگوں کو مالی اور کچھ کو سرجن کیوں بنایا ہے۔یہ تضادات نہ ہوں تو زندگی نہ چلے۔
’’جی ‘‘ ذیشان ایک آہ بھر کر رہ گیا۔
اگلے دن اس نے دیکھا کہ آواز خان اسی تندہی سے باغبانی میں لگا ہوا ہے۔ کل کی بات کا اس پر جیسے کوئی اثر ہی نہ ہوا ہو۔
آج مہینے کی پہلی تاریخ تھی اور آج سارے ملازمین کو تنخواہ ملنے کا دن تھا۔ ڈاکٹر سہیل صبح ہی ذیشان کو سارے ملازمین کی تنخواہ الگ الگ لفافے میں رکھ کر دے گئے تھے۔ اس نے جب آواز خان کو اس کی تنخواہ کا لفافہ دیا تو اس نے لفافے کو کھول کر دیکھا تو ہزار کے بارہ نوٹ لفافے میں تھے۔ آواز خان کچھ دیر نوٹوں کو دیکھتا رہے اور پھر کچھ سوچ کر بولا۔
’’ذیشان بابو۔۔۔ کیا تم مجھ کو یہ تنخواہ دس دس کے نوٹ میں دے سکتے ہو۔‘‘
اس کا یہ مطالبہ سن کر ذیشان کچھ چکرا سا گیا :’’دس کے اتنے سارے نوٹ میں کہاں سے لاوں گا ۔‘‘
’’مجھ کو کوئی کھلا نہیں دے گا۔۔۔تم کسی کو بینک بھیج دو ۔‘‘
“مگر اتنے سارے دس کے نوٹوں کا تمھیں کرنا کیا ہے۔‘‘ ذیشان زچ ہو کر بولا۔’’خیر میں بھیجتا ہوں ڈرائیور کو ۔‘‘
’’تھوڑی دیر میں ڈرائیور دس روپے کی بارہ گڈیاں لے کر آگیا۔‘‘ آواز خان وہ پیسے لے کر وہاں سے روانہ ہوا۔
آواز خان کے اس عجیب مطالبے نے اس کے تجسس کو ہوا دے دی تھی کہ دیکھے تو وہ ان نوٹوں کا کیا کرتا ہے۔
پتا نہیں ذیشان کو کیا سوجھی کہ ڈرائیور سے کہا:’’گاڑی نکالو اور اس کے پیچھے ایسے چلو کہ اس کو پتا نہ چلے۔‘‘
پتا نہیں کتنی ہی دور تک آواز خان پیدل چلتا رہا۔
ذیشان کو گاڑی کی سست روی سے اُلجھن ہونے لگی۔ وہ سوچنے لگا، آخریہ آواز خان کا بچہ بس میں کیوں نہیں چلا جاتا۔ کتنا وقت ضائع ہورہا ہے۔ کتنے ہی میل آواز خان پیدل چلنے کے بعد وہ ایک دوا کی دکان پر رُکا اور وہاں سے دوا خریدی پھر دوبارہ پیدل روانہ ہوگیا۔ کچھ اور فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک کچی بستی میں داخل ہوا۔ راستہ کچھ ایسا ہوگیا تھا کہ اس کے آگے کاڑی نہیں جاسکتی تھی۔ ذیشان پیدل ہی اُتر کر آواز خان کے پیچھے چل پڑا، اُس کی خود سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے۔
پلٹ کر واپس جانے کی سوچ ہی رہا تھا کہ آواز خان ایک چھوٹے سے مکان میں داخل ہوگیا۔ دروازہ صحیح طریقے سے بند نہ تھا اور ذیشان اندر کے مناظر دیکھ سکتا تھا۔ اس کو اندازہ ہورہا تھا کہ اس سے ایک غیراخلاقی حرکت سرزد ہورہی ہے مگر اس کے پاؤں جیسے اپنی جگہ جم سے گئے تھے
ذیشان نے دیکھا کہ ایک بوڑھی سی عورت ٹٹول ٹٹول کر چل رہی ہے جس سے اندازہ ہوسکتا تھا کہ اس کی بینائی بہت کم ہے۔ تھوڑی دیر میں وہ عورت ایک کرسی پر بیٹھ گئی اور آواز خان سے بولی۔
’’بیٹا۔۔۔ مجھے نیند بھی نہیں آتی یہ سوچ کر کہ میں نے تمھیں پریشان کردیا۔ میرے کھانے کا خرچہ۔ میری دوا۔ تمھاری تنخواہ ہی کیا ہوگی۔ اللہ تمھارے ابا کو جنت نصیب کرے۔ نہ ان کی ناگہانی موت ہوتی اور نہ میں تم پر بوجھ۔۔۔‘‘ اپنا جملہ ادھورا چھوڑ کر وہ عورت سسکیاں لینے لگی۔
’’اماں تم کیسی بات کرتی ہو۔مجھے معلوم تھا کہ روزانہ کی طرح آج تم یہی بات کروگی۔ تم کو کتنی دفعہ کہا ہے کہ تم مجھ پر بوجھ نہیں ہو۔ ایک منٹ رُکو تم کو ایک چیز دکھاتا ہوں۔‘‘
ذیشان نے دیکھا کہ آواز خان گڈیوں سے دس کے نوٹ نکال کر پورے بستر پر پھیلا رہا ہے۔ کچھ ہی دیر میں پورا بستر نوٹوں سے بھر گیا ۔
پھروہ اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر بستر تک لے گیا اور نوٹوں سے بھرے ہوئے بستر پر اس کا ہاتھ پھروانے لگا۔
’’یہ دیکھو۔۔۔ یہ دیکھو۔یہ سب میری تنخواہ ہے۔‘‘
’’تم سچ کہہ رہے ہو ۔‘‘ ماں غیر یقینی سے بولی۔
’’ اماں خدا کی قسم یہ میری تنخواہ کے پیسے ہیں۔ میرا سیٹھ اس شہر کا بہت بڑا آدمی ہے۔ میرا بہت خیال رکھتا ہے۔‘‘
باہر پسینے میں ڈوبا ذیشان سوچنے لگا کہ دراصل بڑا آدمی کون ہے۔۔۔ڈاکٹر سہیل یا آواز خان۔۔۔
*۔۔۔*