جنت کا پھل
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
انور کی امی چند اشیاء خریدنے کے لیے بازار گئیں تو واپسی میں انہیں ایک ٹھیلے پر انار فروخت ہوتے ہوئے نظر آئے۔ انھوں نے ایک کلوگرام انار خرید لیے۔ وہ گھر پہنچیں تو انور، اکرم، عائشہ اور سعدیہ نے انہیں دیکھتے ہی سلام کیا، پھر سب بچے ان کے گرد جمع ہو گئے۔ عائشہ نے امی کے ہاتھ سے ٹوکری لے لی، سعدیہ نے اناروں کی تھیلی پکڑ لی اور خوشی سے چلائی:
”آہا، انار!“
”مجھے بھی دینا۔!“ انور نے پکار کر کہا۔
”مجھے بھی!“ اکرم بھلا کیوں چپ رہتا۔
”میں بھی پورا ایک انار لوں گی۔“ عائشہ نے بھی اعلان کیا اور امی نے پیاربھرے لہجے میں کہا:
”لو! وہی بات ہوگئی، ’ایک انار سو بیمار!‘ تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ ابو کوآ جانے دو، کھانے کے بعد سب مل کر انار کھائیں گے۔“
”اس کا کیا مطلب ہوا امی؟“ سعدیہ نے پوچھا۔
”یہ اردو کی ایک مثل ہے یعنی ایک جملہ جو مثال کی طرح مشہور ہو جائے۔جب ایک چیز کو حاصل کرنے کے خواہش مند بہت سارے ہوں تو کہا جاتا ہے، ایک انار سو بیمار۔“ امی نے سمجھایا۔
جب ابو گھر آگئے، سب نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد امی نے انار چھیل کر ان کے سرخ سرخ دانے ایک پلیٹ میں رکھ دیے۔ سب نے مزے لے کر انار کے کھٹ مٹھے دانے کھائے۔ اللہ کا شکر ادا کیا، نماز سب ہی پڑھ چکے تھے اس لیے سب اپنے اپنے بستر پر چلے گئے۔ صرف انور، مطالعہ کے کمرے میں بیٹھا اسکول کا کام کرنے لگا۔
”اب تو ہم دو ہی اس گھر میں رہ گئے ہیں؟“ انور کو ایک آواز سنائی دی، یہ آواز باورچی خانے سے آ رہی تھی، وہ اٹھ کر باورچی خانے میں پہنچا۔ دھیمی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور میز پر رکھے ہوئے دو انار آپس میں باتیں کر رہے تھے۔
ایک انار کہ رہا تھا:
”ہاں! کل ہمیں بھی کھا لیا جائے گا، مگر ہم تو خوش ہیں کہ اللہ نے ہمیں جس مقصد کے لیے پیدا کیا ہم اسی کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں، یعنی یہ کہ انسان ہمیں کھائے، ہمارے ذائقے کا لطف اٹھائے، ہمارے اندر جو فائدے ہیں، انہیں حاصل کرلے اور اللہ کا شکر ادا کرے۔“
”کون سے فائدے؟“ انور نے بے دھیانی میں اچانک پوچھ لیا اور دونوں انار چونک کر انور کی طرف دیکھنے لگے۔
”آپ کون ہیں؟“ ایک انار نے حیرانی سے پوچھا۔
”السلام علیکم، میں انور ہوں، میں دوسرے کمرے میں اپنے اسکول کا کام کر رہا تھا کہ آپ کی آوازیں سن کر یہاں آگیا۔“
”وعلیکم السلام، آپ اچھے بچے ہیں کہ ذمہ داری کے ساتھ اسکول کا کام کر لیتے ہیں۔“ بڑے والے انار نے کہا۔
”میں بہت خوش ہوں کہ آپ سے ملاقات ہوگئی۔ کیا آپ مجھے اپنے بارے میں بتانا پسند کریں گے؟“
”کیوں نہیں۔ آپ بیٹھیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے جو کچھ سنا ہے، وہ آپ کو بتا دیتے ہیں۔“ بڑے والے انار نے پیار بھرے انداز میں کہا۔ انور ایک کرسی پر بیٹھ گیا تو بڑے انار نے کہنا شروع کیا۔
”انور میاں، ہماری اہمیت کے لیے اتنا کہنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارا ذکر اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا اور یہ بات بتائی کہ انسان کو جب دنیا میں اچھے اعمال انجام دینے پر جنت میں داخل کیا جائے گا، تو وہاں کئی پھل اسے کھانے کے لیے ملیں گے، ان پھلوں میں انار بھی شامل ہو گا۔ آپ نے سورہ رحمن پڑھی ہے؟“
”جی ہاں!“ انور نے کہا۔
”اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمارا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ ہر اس شخص کے لیے جو اپنے رب کے حضور پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو، دو باغ ہیں، اور ان دو باغوں کے علاوہ دو باغ اور ہوں گے، گھنے اور سرسبز۔ ان میں کثرت سے پھل، کھجوریں اور انار ہوں گے۔“
”یہ تو بڑی فضیلت ہے۔“ انور نے کہا۔
”ہاں یہ اللہ کاکرم ہے۔ انسان کا بھی تو ذکر قرآن مجید میں جگہ جگہ آیا ہے بلکہ قرآن کا موضوع ہی انسان ہے۔ اگر انسان چاہے تو اپنے رب کا فرماں بردار بن کر دنیا اور آخرت کی بھلائیاں حاصل کر سکتا ہے۔“
”اچھا یہ تو بتائیے کہ آپ کہاں کہاں پائے جاتے ہیں؟
”ہمارا شمار بہت قدیم پھلوں میں ہوتا ہے۔ کہتے ہیں ہماری ابتداء مشرق وسطیٰ اور ایشیا سے ہوئی۔ آج ہمیں افریقہ، ملائشیا، بھارت، جنوبی یورپ اور امریکہ کے مختلف علاقوں میں اگایا جاتا ہے۔ آپ کے پڑوسی ملک افغانستان کے علاقے قندھار کا انار بہت مشہور ہے۔ ویسے ہماری پیداوار کے لیے وہی موسم بہتر ہے جس میں گرمی کم ہو اور ہوا میں نمی بھی زیادہ نہ ہو۔“
”انار کا درخت کتنا اونچا ہوتا ہے؟“ انور نے پوچھا۔
”عام طور پر بارہ سے سولہ فٹ اونچا ہوتا ہے لیکن کچھ درخت تیس فٹ تک بلند ہو جاتے ہیں۔“
”اچھا، یہ بتائیے کہ آپ میں اللہ تعالیٰ نے کون سے فائدے رکھے ہیں؟“
”فائدے تو بہت سارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے بیجوں کے گرد ذائقہ دار گودا بنا دیا ہے جسے آپ مزے لے کر کھاتے ہیں۔ اس کا رس اور شربت بنا کر پیتے ہیں۔ ایک انار میں آٹھ سو بیچ بھی ہو سکتے ہیں۔ ان بیجوں کے گرد جو گودا ہوتا ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کی چکنائی نہیں ہوتی لیکن پوٹاشیم کی خاصی مقدار ہوتی ہے اور حیاتین ج (وٹامن سی) بھی بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے جو آپ کے جسم کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر مختلف بیماریوں کو دور کرنے کی صلاحیت بھی رکھ دی ہے۔“
”مثلاً؟“
”دل کے امراض میں ہمارا استعمال مفید ہے۔ اس کے علاوہ اگر طویل عرصے تک روزانہ انار کھایا جائے تو سرطان سے تحفظ ملتا ہے۔ دل کے امراض میں خون کی رگیں سخت ہو جاتی ہیں۔ انار کھا ئیں تو یہ رگیں سخت نہیں ہوتیں۔ ایک تازہ تحقیق کے مطابق انار سے ایسی دوا بنائی جا سکتی ہے جو خطرناک وائرس کا مقابلہ کرے گی۔ انار میں کیلشیم، فاسفورس اور فولاد بھی ہوتا ہے۔ یہ عناصر جسم میں قوت پیدا کرنے، ہڈیوں کو مضبوط بنانے، دل و دماغ کو طاقت دینے اور خون بنانے کے لیے ضروری ہیں۔“
”کیا انار کی کئی قسمیں ہیں؟“
”ذائقے کے لحاظ سے تین قسمیں ہیں۔ انار شیریں یعنی میٹھا انار، انارترش یعنی کھٹا انار، انار میخوش یعنی کھٹا میٹھا انار۔“
”ان تین قسم کے اناروں کی خصوصیات میں فرق ہوتا ہے؟“ انور نے سوال کیا۔
”ہاں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو الگ الگ خصوصیات عطا کی ہیں مثلاً انار شیریں ان لوگوں کے لیے مفید ہے جن کو پیاس زیادہ لگتی ہے۔ گھبراہٹ رہتی ہے۔ یرقان یعنی پیلیا میں بھی اس کا استعمال مفید ہے۔ یہ انارخون بناتا اور جگر کوطاقت دیتا ہے۔ انار میخوش بھی دل اور جگر کو طاقت دیتا ہے۔ متلی اور قے کے مریضوں کے لیے مفید ہے۔ انار ترش، معدے اور آنتوں کو طاقت دیتا ہے، غذا کو ہضم کرتا ہے۔“
”اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انار میں بڑے فائدے رکھے ہیں۔“
”اللہ تعالیٰ نے ہر شے میں فائدے رکھے ہیں۔ انار میں اور بہت سے فائدے ہیں، آپ کتابیں پڑھیں، آپ کو بہت سی معلومات حاصل ہوں گی۔ میں آپ کو بتاؤں کہ انار کے چھلکے، انار کی جڑ کی چھال، انار کے پھولوں، میں بھی بہت سے فائدے ہیں۔ یہاں تک کہ انار کے دانوں کے بیج میں جو سفید رنگ کی جھلی سی ہوتی ہے، اس میں بھی فائدے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے انار کے دانوں کو کس طرح خوب صورت انداز میں انار کے اندر محفوظ کر دیا ہے۔“
”انار کے دانے مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں؟“
”ہاں، کچھ انار ایسے ہوتے ہیں جن کے دانے سفید رنگ کے ہوتے ہیں، کچھ کے دانے سرخ ہوتے ہیں۔ بعض دانوں کے اندر سخت بیج ہوتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے اندر بیج بہت چھوٹا یا کمزور سا ہوتا ہے، ایسے انار کو’بے دانہ‘ کہتے ہیں۔“
”انار کتنے دنوں تک گھر میں رکھنے پر خراب نہیں ہوتا؟“
”آپ انار خرید کر اپنے ریفریجریٹر میں ایک ماہ تک رکھ سکتے ہیں، اوراگر فریزر میں رکھیں گے تو تین ماہ تک بھی انار خراب نہ ہو گا۔“
”آپ نے تو بڑی مفید معلومات بتائیں۔ آپ کا بے حد شکریہ۔“ انور نے خوش ہو کر کہا۔
”چلتے چلتے ایک اور دلچسپ بات سن لیجیے۔ انار کی ڈالیوں سے سانپ، بچھو اور دوسرے کیڑے مکوڑے مر جاتے ہیں۔ اسی لیے پرندے زیادہ تر انار کے درخت پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں تا کہ سانپ، بچھو وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں۔“
”یعنی اللہ تعالیٰ نے پرندوں میں یہ بات سمجھنے کی صلاحیت پیدا فرمادی ہے۔ سبحان اللہ۔“ انور نے حیرانی سے کہا اور ہاتھ بڑھا کر انار کو اٹھا لیا۔ وہ انار کو ہاتھ میں لے کر اسے الوداع کہنا چاہتا تھا، لیکن اسے بڑی حیرت ہوئی کہ انار پتھر کی طرح سخت تھا۔ اس نے انار کو دبانا چاہا لیکن دبانے میں ناکام رہا۔ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اپنے مطالعے کی میز کے سامنے کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو گیا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ پر نظر ڈالی، اس کے ہاتھ میں پتھر سے بنا ہوا گول پیپر ویٹ تھا۔