skip to Main Content

طاقت کا خزانہ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

انور، تراویح کی نماز پڑھ کر واپس آیا تو اُس نے اپنی اسکول کی کتا بیں، کا پیاں سلیقے سے بستے میں رکھیں، تا کہ اگلے دن اسکول جاتے ہوئے کوئی پریشانی نہ ہو، پھر اسے یاد آیا کہ جغرافیہ کے ایک سوال کا جواب تو اس نے یاد ہی نہیں کیا۔ اس نے بستے میں سے جغرافیہ کی کاپی نکالی اور سوال کا جواب یاد کرنے لگا۔ جواب میں بتایا گیا تھا کہ گرم ممالک میں کھجور کی پیداوار زیادہ ہوتی ہے۔ عرب ممالک، مصر، سعودی عرب اور لبنان وغیرہ میں کھجور سے مختلف غذا ئیں تیار کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی کھجور بہت پیدا ہوتی ہے۔ پاکستان چالیس سے زائد ملکوں کو کھجوریں بھیجتا ہے۔
پڑھتے پڑھتے انور کو محسوس ہوا کہ کمرے میں کچھ شور سا ہو رہا ہے۔ اس نے چونک کر دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس کی نظروں کے سامنے طرح طرح کی کھجوریں موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ کو تو وہ جانتا تھا۔ مکران کی کھجوریں، سکھر کی کھجوریں اور عرب کی وہ کھجور بھی جو اس کی امی اور ابو، حج بیت اللہ سے واپسی پر ساتھ لائے تھے۔
ارے! یہ تو کوئی کانفرنس ہو رہی ہے۔ دیس دیس کی کھجوروں کی کانفرنس۔سینے تو!
ایک خوب صورت سی کھجور کہ رہی ہے:
”میری بہنو! آج کا یہ اجلاس اس لیے بلایا گیا ہے کہ ہماری قدر نہ ہونے پر احتجاج کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنا بڑا مرتبہ بخشا کہ ہمارا ذکر قرآن مجید میں فرمایا ہے، کھجور کھانا سنت نبوی بھی ہے۔ اس کے علاوہ اللہ نے ہمیں زبر دست غذائیت بھی بخشی ہے اور مختلف بیماریوں کو دور کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے، لیکن آج کا مسلمان ہمیں سال میں صرف ایک ماہ کے لیے یاد رکھتا ہے۔“
”آپ کی مراد ماہ رمضان المبارک سے ہے۔“ ایک دبلی پتلی کھجورنے کہا۔
”جی ہاں! مسلمان ہمیں بھول گئے ہیں، صرف رمضان المبارک میں روزہ افطار کرنے کے وقت ہمیں یاد کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تو افطار کے وقت ہمیں دیگر لوازمات کے ساتھ رکھنا ہی بھول جاتے ہیں، پھر اذان ہوتے ہی شور مچتا ہے: کھجور لاؤ کھجور لاؤ!“
انور سے رہا نہ گیا، اس نے آگے بڑھ کر کہا:
”معاف کیجیے، آپ کی محفل میں بلا اجازت چلا آیا ہوں، کچھ پوچھناچاہتا ہوں۔“
”ہائے اللہ۔ یہ کون آ گیا؟“ بھوری رنگت والی ایک کھجور گھبرا کر بولی۔
”یہ پہرہ دینے والی کھجوریں کہاں چلی گئیں؟ لو! وہ تو اطمینان سے بیٹھی تقریریں سن رہی ہیں؟“ بصرہ کی کھجور نے سکھر اور مکران کی کھجوروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”خیر، یہ صاحب زادے اب آہی گئے ہیں تو ان کو انسانوں کا نمائندہ سمجھتے ہوئے، انہیں بھی اس اجلاس میں شریک کر لیا جائے۔ آؤ میاں! کیا نام ہے تمہارا؟“ ایک بوڑھی سی کھجور نے کہا: ”ویسے، کسی محفل میں جاتے ہیں تو پہلے سلام کرتے ہیں۔“
”معذرت چاہتا ہوں، السلام علیکم! دراصل میں نے پہلے کبھی کھجوروں کو باتیں کرتے نہیں دیکھا تھا، اس لیے حیرانی میں سلام کرنا بھول گیا تھا۔“ انور نے صفائی پیش کی۔
”وعلیکم السلام، اس میں حیرانی کی کیا بات ہے، ہم بھی اللہ کی مخلوق ہیں۔ خیر، یہ بتاؤ کہ تم کیا پوچھنا چاہتے ہو؟ تم نے اپنا نام نہیں بتایا؟“بوڑھی کھجور نے کہا۔
”میرا نام انور ہے، میں آپ لوگوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں تا کہ مجھے آپ کی اہمیت اور فائدوں کا علم ہو سکے اور میں یہ علم دوسروں تک پہنچاسکوں۔“ انور نے جلدی سے کہا۔
”لڑ کا بات تو اچھی کر رہا ہے اسے علم حاصل کرنے کا شوق ہے۔“ ایک طرف سے کسی کھجور نے کہا۔ بہت سی کھجوروں نے سر ہلایا، پھر بوڑھی کھجور نے جو شاید اس اجلاس کی صدارت کر رہی تھی، سیاہ رنگ کی ایک کھجور سے کہا: ”آپ انور میاں کو ہمارے بارے میں بتائیے۔“
”انور میاں! آپ نے کبھی سوچا کہ مسلمانوں کو کھجور سے روزہ افطار کرنے کی ہدایت کیوں دی گئی ہے؟ نہیں سوچا؟ میں بتاتی ہوں، دراصل جب آپ روزہ رکھتے ہیں تو آپ کی جسمانی قوتوں میں کمی آتی ہے، پھر دن بھر کچھ نہ کھانے سے معدے میں تیزابی رطوبتیں جمع ہو جاتی ہیں۔ جب آپ کھجور سے روزہ افطار کرتے ہیں تو ایک طرف تو آپ کے جسم کو اہم غذائی اجزا فوراً مل جاتے ہیں جو کھجور میں موجود ہوتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ کھجور میں ایسے نمکیات اور معدنیات ہوتی ہیں جو معدے کی بڑھتی ہوئی تیزابیت کو کم کر دیتی ہیں، ان کی وجہ سے معدے اور آنتوں کو سکون ملتا ہے۔“
”بہت خوب، یہ تو مجھے معلوم ہی نہ تھا۔“ انور نے حیرانی سے کہا۔
”ہم تو تمہیں اور بہت کچھ بتا سکتے ہیں، ہمیں اللہ نے یہ خوبی بخشی ہے کہ ہمارے اندر غذائیت بہت ہے اور ہم انسان کے پیٹ میں جا کر بہت جلدی ہضم بھی ہو جاتی ہیں۔“ سیاہ کھجور نے مسکرا کر کہا۔
بوڑھی کھجور نے اب سرخ رنگ کی ایک کھجور کو اشارہ کیا: ”اب آپ بتائیے۔“
سرخ کھجور نے ادب سے سر جھکایا اور کہنے لگی:”انور میاں! ہمیں تو طب کے ماہرین، طاقت اور خون پیدا کرنے کا خزانہ کہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے اندر ایسا فولاد ہوتا ہے، جو پیٹ کو خراب بھی نہیں کرتا۔ اچھا یہ بتائیں آپ کے جسم کو جو توانائی غذا سے حاصل ہوتی ہے، اسے آپ کس طرح ناپتے ہیں؟“
”جی ہاں! ہمارے استاد نے بتایا تھا، توانائی کو حراروں یعنی کیلوریز میں ناپتے ہیں۔“ انور نے جوش سے کہا۔
”بالکل ٹھیک۔“سرخ کھجور مسکرائی۔”تو بھئی، اللہ نے ہمیں اتنی غذائیت دے دی ہے کہ اگر آپ پچاس گرام سیب کھا لیں تو آپ کو پینتیس حرارے ملیں گے، پچاس گرام کیلے کھائیں تو چھیاسی حرارے ملیں گے لیکن اگر پچاس گرام کھجور کھالیں تو آپ کے جسم کو ایک سو ساٹھ حرارے حاصل ہوں گے۔“
”اس کے علاوہ ہمارے اندر حیا تین، الف، ب اور ج یعنی وٹامن اے، بی اورسی بھی مناسب مقدار میں ہوتے ہیں۔“ ایک چھوٹی سی کھجور اپنی بار یک کی آواز میں بولی:
”اور کیلشیم، پوٹاشیم، میگنیشیم، تانبا (کا پر) گندھک (سلفر) جست اور آئیوڈین بھی تو ہیں۔“ دبلی پتلی کھجور نے بھی معلومات میں اضافہ کیا۔”یہ سب معدنیات صحت کے لیے بہت اہم ہیں۔ جدید طبی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ کھجور دل کو بیماری سے بچاتی ہے، اس میں کیلشیم ہوتا ہے جو دل کے پھیلنے اور سکڑنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر آپ روزانہ پانچ چھے کھجوریں کھا لیں تو دن بھر کے لیے آپ کی کیلشیم کی جسمانی ضرورت پوری ہو جائے گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ کھجور کے استعمال سے، جسم میں کولسٹرول کی مقدار نہیں بڑھتی۔ سرخ کھجور نے بتایا۔ پھر اس نے گول سی شکل کی ایک کھجور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”ان سے ملیے، یہ ہماری عجوہ بہن ہیں۔ ان کے بارے میں پیارے نبیؐ نے فرمایا کہ ان میں بیماریوں سے شفا ہے۔“ عجوہ نے مسکرا کر انور کو دیکھا اور بولی:
”انور میاں! ضروری بات یہ ہے کہ آپ یہ سوچ کر ہمیں استعمال کریں کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور استعمال فرمایا کرتے تھے۔ اس طرح آپ کو سنت نبوی پر عمل کا ثواب ملے گا۔ شفا اور غذائیت تو پھر بھی آپ کو حاصل ہوگی۔“
اس وقت بوڑھی کھجور نے کہا: ”ارے بچیو! وقت بھی دیکھا ہے، کیاہو گیا ہے؟“
”وقت بھی دیکھا ہے، کیا ہو گیا ہے؟“ انور کو یہ آواز اپنی دادی جان کی سی لگی۔ واقعی وہ دادی جان کی آواز تھی۔ دادی جان، انور کو جھنجوڑ کر جگاتے ہوئے کہ رہی تھیں:
”اے ہے! تراویح پڑھ کر آیا تو یہیں صوفے پر بیٹھے بیٹھے سو گیا۔ بیٹا اٹھ کر اپنے بستر پر سو جاؤ، وقت بھی دیکھا ہے، کیا ہو گیا ہے، دو بج رہے ہیں رات کے!“
انور نے آنکھیں ملتے ہوئے، کمرے میں نظریں دوڑائیں۔ وہ طرح طرح کی کھجوریں اب جانے کہاں غائب ہو چکی تھیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top