skip to Main Content

سبزیوں کا بادشاہ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

کیا ہوا، راشد بیٹے، کھانا کیوں نہیں کھا رہے ہو؟“ امی نے حیرانی سے پوچھا۔ راشد سر جھکائے بیٹھا تھا۔ اُس کی پلیٹ میں آدھی سے زیادہ چپاتی اور کدو کا تھوڑا سا سالن موجود تھا۔ وہ ایک لقمے کو بے دلی کے ساتھ چبا رہا تھا۔
دستر خوان پر ابا جان، خالد بھائی، باجی کے علاوہ ننھا زاہد بھی موجود تھا۔سب لوگوں نے فکر مند ہو کر راشد کو دیکھا۔
”راشد، بیٹے، طبیعت کیسی ہے؟ پیٹ میں درد تو نہیں؟“ ابا جان نے پوچھا۔
”جی نہیں، ابا جان، میں ٹھیک ہوں۔“ راشد نے نیچی آواز میں کہا۔
”ٹھیک ہوں، جب کہتے ہیں تو الحمد للہ کہنا چاہیے، یعنی سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ خیر، اگر تمہاری طبیعت ٹھیک ہے تو کھانا کیوں نہیں کھا رہے ہو؟“ ابا جان نے پوچھا۔
”کچھ نہیں ابا جان، بس جی نہیں چاہ رہا۔“ راشد نے اسی طرح نیچی آواز میں جواب دیا۔
”اچھا اپنی پلیٹ میں موجود کھانا تو کھا لو، اس طرح برتن میں کھانا بچا کر اُٹھنا بری بات ہے۔“ امی نے توجہ دلائی۔ راشد نے بُرا سا منہ بنایا اور آہستہ آہستہ کھانے لگا۔

٭……٭……٭

رات میں امی نے دستر خوان بچھایا، اور گھر کے تمام افراد کھانا کھانے کے لیے آکر بیٹھے تو سب نے حیرت سے دیکھا کہ راشد مزے لے کر کھانا کھانے لگا۔ اس نے کئی بار قورمہ اپنی پلیٹ میں ڈالا اور تین روٹیاں کھا لیں۔
ابا جان نے اس طرح سر ہلایا، جیسے سب کچھ سمجھ گئے ہوں۔
کھانے کے بعد سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ باجی اور ننھے زاہد نے برتن سمیٹے۔ باجی تو امی کے ساتھ برتن دھونے لگیں، ننھا زاہد اپنے اسکول سے ملنے والا کام مکمل کرنے لگا۔ خالد بھائی اپنے کسی دوست سے ملنے چلے گئے۔ ابا جان نے راشد سے کہا:
”بیٹے راشد، ابھی کوئی کام تو نہیں؟ چلو لان میں چلتے ہیں۔ بڑی خوشگوار ہوا چل رہی ہے۔“
راشد اپنے ابا جان کے ساتھ اُوپر چلا گیا۔ ابا جان نے لان میں موجود کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھتے ہوئے کہا:
”بیٹھو راشد، پڑھائی کیسی ہو رہی ہے؟“
”ٹھیک ہورہی ہے ابا جان، میں اسکول سے ملنے والا کام مکمل کر چکا ہوں۔“
”شاباش! یہ بتاؤ کہ تمہیں کون کون سے مضامین پسند ہیں؟“
”مجھے تو اسلامیات، اردو اور سائنس پسند ہیں۔“
”پھلوں میں کیا پسند ہے؟“
”آم سب سے زیادہ پسند ہے، پھر انگور“
”اور سبزیاں کون سی پسند ہیں؟“
”سبزیاں۔۔۔“ راشد کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ لان میں چاند کی پھیلی ہلکی ہلکی روشنی میں بھی صاف نظر آ رہا تھا کہ اس نے سبزیوں کا ذکر پسند نہیں کیا۔ابا جان بولے:
”مجھے تو کدو بہت پسند ہے، تمہیں کیسا لگتا ہے؟“
”بس کوئی خاص نہیں۔“ راشد نے منہ بنا کر بیزاری سے کہا۔
”تمہارے لہجے سے ظاہر ہے کہ تمہیں سبزیاں اچھی نہیں لگتیں، حالانکہ اللہ نے سبزیاں ہم انسانوں ہی کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور ان میں بے شمار فائدے رکھ دیے ہیں۔“
”فائدے؟“ راشد نے اس طرح کہا جیسے اسے یقین نہ آیا ہو۔
”ہاں بیٹے، اور کدو تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت پسند تھا۔ اگر ہم بھی کدو شوق سے کھا ئیں اور اسے پسند کریں تو ہمیں سنت نبوی پر عمل کاثواب ملے گا۔
”ہاں، یہ تو ہے۔“
”پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کدو اس قدر پسند تھا کہ آپ کے صحابی حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر کھانے پر بلایا۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ ان لوگوں نے جو کی روٹی اور شور بہ پیش کیا۔ شور بے میں کدو اور گوشت تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، شوربے کے پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھا رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی کدو کو پسند کرنے لگا۔“ ابا جان نے بتایا۔
”یہ تو ٹھیک ہے ابا جان لیکن کدو کھانے سے فائدہ کیا ہے؟“ راشد نے پوچھا۔
”ایک فائدہ نہیں، بہت سارے فائدے ہیں، اس سبزی میں کیلشیم، پوٹاشیم، فولاد، فاسفورس ہوتا ہے۔ حیاتین الف اور ب بھی پایا جاتا ہے۔“
”حیاتین کیا ہوتے ہیں ابا جان؟“
”بیٹے، حیاتین ایسے کیمیائی مرکبات ہیں جو ہمارے جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ حیاتین کو انگریزی میں ’وٹامن‘ کہتے ہیں۔ ان کی کمی سے طرح طرح کی بیماریاں ہو جاتی ہیں۔“
”ابا جان، کدو کھانے سے کوئی نقصان تو نہیں ہوتا؟“
”نہیں بیٹے، بلکہ حکماء نے تو یہ تک کہا ہے کہ سبزیوں میں کدو ایسی غذاہے جس کو کھانے سے کوئی نقصان نہیں۔“
”کدو کیا صرف ایک ہی طریقے سے کھایا جاتا ہے؟“
”یہ کس نے کہ دیا؟ کدو کو گوشت کے ساتھ پکاتے ہیں، چنے کی دال، مونگ کی دال یا قیمے کے ساتھ پکایا جاتا ہے۔ کدو کا رائتہ بھی بڑا خوش ذائقہ ہوتا ہے۔“
”کدو کی کھیر بھی تو بنتی ہے۔“
”ہاں، اب تم نے اپنی پسند کی چیز کا نام لیا۔ کدو کی کھیر ہی نہیں، کدو کا حلوہ بھی بنتا ہے۔ کدو کئی طرح کی بیماریوں کے علاج میں بھی مفید ہے۔“
وہ کون سی بیماریاں ہیں ابا جان؟“
”بیٹے، کدو پیاس کو تسکین دیتا ہے، بے چینی کو دور کرتا ہے، قبض کا علاج ہے، یرقان کے مریض کے لیے بھی اچھی غذا ہے۔ کدو کے ساتھ بادام کا مغز استعمال کریں تو بدن میں طاقت آتی ہے۔ معدے کے کئی امراض کے علاج کے لیے کدو استعمال کیا جاتا ہے۔ کدو، آنتوں اور معدے سے تیزا بیت اور زہریلے اثرات کو دور کر دیتا ہے۔ کدو دماغ کو طاقت دیتا ہے اور عقل کو بڑھاتا ہے۔ اسی لیے تو کد وکو سبزیوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔“
”اچھا؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ مجھے بھی اتنی مفید سبزی کدو کھانا چاہیے۔“
”بالکل، اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ اس سبزی کو ہمارے پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ آپ کی غذا میں کدو اور مسور کی دال خاص طور پر شامل ہوتے تھے۔۔۔ اچھا بیٹے اب اندر چلتے ہیں۔ آپ کو کل اسکول جانا ہو گا، آپ جلدی سو جائیں تا کہ صبح فجر کی نماز کے لیے اُٹھ سکیں۔“
”شکر یہ ابا جان، آپ نے ایک ایسی سبزی کے بارے میں اتنی اچھی باتیں بتا دیں جس کو میں پسند نہیں کرتا تھا۔“
”یہ سب اللہ کا کرم ہے جس نے ہمیں طرح طرح کی نعمتیں عطا فرما ئیں اور ان نعمتوں کے فوائد کو جاننے کی صلاحیت سے بھی نوازا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top