انعام یافتہ خرگوش
کہانی: The Prize Rabbit
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
بہت پرانی بات ہے ٹوئنکس نامی ایک دھان پان سا شخص ہوا کرتاتھا ۔اس نے پرانے سے دڑبے میںایک خرگوش پال رکھا تھا۔یہ دڑبا نہ صرف یہ کہ کافی تنگ تھا بلکہ جس قدر صاف ہونا چاہیے تھا، اتنا صاف بھی نہیں تھا۔خلاف توقع ایک دن اس کے خرگوش نے ایک مقابلے میں انعام جیت لیا۔ انعام میں خوشبو کی ایک بوتل ملی جو ٹوئنکس نے گھر لے جا کر بڑے فخر سے اپنی بیوی کو دی۔
اس کے سب دوست مبارک باد دینے آئے تو انہوں نے اس پرانے دڑبے میں خرگوش کو بھی دیکھا۔
’’یہ کوئی تعجب والی بات نہیں کہ یہ خرگوش تمہیں بہت سے انعامات جیت کر دے گا۔ ‘‘ ایک دوست بولا۔’’اب یہ ایک قابل قدر جانور ہے۔ تمہیں اس کے لیے ایک اچھا سادڑبا خریدلینا چاہیے۔اگر تم نے اسے اسی پرانے اور گندے ڈبے میں رکھا تو یہ بیمار ہو کر مر بھی سکتا ہے۔‘‘
’’ میں ابھی جائوں گا اور ابھی کے ابھی اس کے لیے ایک نیا دڑبا خریدوں گا۔‘‘مسٹر ٹوئنکس نے کہا ۔وہ اپنی اہلیہ کوخوشبو کی بوتل دینے پر بہت پر جوش تھا۔’’اب تو یہاں کوئی بھی چیز میرے خرگوش کے معیار کی نہیں ہے۔‘‘
وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بڑھئی کی دکان پر گیا اور وہاں سارے دڑبوں کا معائنہ کیا۔ اس نے ایک عمدہ دڑبا پسند کیا اور دکان دار سے کہا کہ وہ دڑبا اور بل اگلے دن گھر بھیج دے۔
’’یہ جو دڑبا تم نے پسند کیا ہے، بہترین ہے۔‘‘ اس کے دوستوں نے کہااور مسٹر ٹوئنکس کا چہرہ دمکنے لگا۔’’ اب اس کے سونے کے لیے عمدہ گھاس کا ایک گٹھا،اور کھانے کے لیے عمدہ خوراک کیوں نہیں خرید لیتے؟اس طرح کے خرگوش کی خوراک میں تو ہر عمدہ چیز شامل ہونی چاہیے۔‘‘
چنانچہ ٹوئنکس نے گھسیارے سے ایک گٹھا عمدہ گھاس، خشک خوراک کی کچھ مقدار اور چار عمدہ قسم کے سلاد پتوں کا کہہ دیا۔
’’ خرگوش کے نام والی چاندی کی ایک چھوٹی سی تختی کیوں نہیں بنوا لیتے؟کیل کے ذریعے دڑبے پر لگا دینا۔‘‘ اس کے دوستوں نے کہا۔’’ یہ بہت ہی اچھا ہو جائے گا۔‘‘
چنانچہ ٹوئنکس نے چاندی والے سے تختی کا کہا اور خوشی خوشی گھر چلا گیا۔ اسے یقین تھا کہ اس کا خرگوش اسے بہت سے انعامات جیت کر دے گا اور اسے امیر ترین بنا دے گا۔
مگر میرے دوستو! جب سارا سامان گھر آیا تو ساتھ بل بھی آگئے،اوربے چارے مسٹر ٹوئنکس کو ایک جھٹکا لگا۔سبزی والے کے تین شلنگ، چاندی والے کے سات شلنگ اور چھ پینس،بڑھئی کے پندرہ شلنگ۔ مجموعی طور پر پندرہ شلنگ اور چھ پینس۔
مسٹر ٹوئنکس کی جیب میں صرف دو شلنگ تھے۔اس کی بیوی کے پاس تین تھے مگر وہ ان میں سے کچھ دینے کو تیار نہ تھی۔بلکہ بجائے کچھ دینے کے اس نے فضول خرچی پر انہیں خوب ڈانٹا،وہ بولی۔’’یہ ساری ادائیگیاں کرنے کے لیے آپ کو لازمی کچھ بیچنا پڑے گا۔‘‘
بے چارے ٹوئنکس کے پاس بیچنے کو کچھ تھا ہی نہیں کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی غریب تھا۔اس نے بیٹھ کر سوچ بچار کی اور بالاخراس کا چہرہ چمک اٹھا۔یقینا اس کے پاس بیچنے کے لیے ایک چیز تھی۔وہ پرانے دڑبے کے پاس گیا۔ دروازہ کھول کر اپنے خرگوش کو نکالا۔اپنے ایک جاننے والے کے پاس گیا اور انعام یافتہ خرگوش کو پچیس شلنگ اور چھ پینس میں بیچ دیا۔پھر خوشی خوشی گھر آیا اور ساری ادائیگیاں کر دیں۔
’’ میں ایک ہوشیار انسان ہوں!‘‘ اس نے اپنی بیوی سے کہا۔’’میںنے خرگوش بیچ کر ساری ادائیگیاں کردی ہیں۔‘‘
’’ہوشیار!‘‘ اس کی بیوی نے بے کار دڑبے، چاندی کی تختی اور گھاس کو دیکھتے ہوئے کہا۔’’ آپ تو خرگوش سے بھی زیادہ بے وقوف ہیں۔اب ہم اتنے بڑے اس دڑبے کا کیا کریں گے…؟مسٹر ٹوئنکس!بہتر ہے کہ اب آپ خود جا کر اس میں رہیے۔‘‘