skip to Main Content

شرارتی پریاں

کہانی: The Naughty Smoke Fairies
مصنفہ: Enid Blyton
مترجمہ:گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ دھوئیں کی ننھی منی پریوں کا ایک ہجوم الائو میں سے فرار ہو گیا۔ کسی نے انھیں جاتے ہوئے نہیں دیکھا اور وہ کھلے کھیتوں کی طرف اڑ گئیں۔
’’ہّرے!‘‘ ایک پری نے پیچھے مڑ کر اپنی ساتھیوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آخر ہم آگ سے آزاد ہو ہی گئے۔‘‘
‘‘ہاں۔ اور اب ہمارے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہے۔‘‘ دوسری چلّائی۔
وہ کالک کی طرح سیاہ رنگ کی پریاں تھیں کیونکہ انھوں نے اپنی ساری زندگی دھوئیں میں گزاری تھی۔ ان کی ذمہ داری آگ سے نکلنے والے سیاہ دھوئیں کو اس جگہ سے دور لے جانا تھا جہاں بچے سانس لیتے ہیں۔
’’چلو، کیوں نہ کوئی تفریح کریں۔‘‘ ایک تیسری ننھی پری نے کہا۔ ’’میں ہمیشہ اچھی بن کر رہنے اور اپنا کام ایمانداری سے کرنے سے تنگ آ گئی ہوں۔‘‘
’’ہاں۔ چلو‘‘ ساری پریوں نے کہا۔
دھوئیں کی پریاں ایک ایسی جگہ پہنچیں جہاں سانپ کی چھتریاں اگتی تھیں۔ یہاں انھوں نے بڑھئی پریاں دیکھیں جو سانپ کی چھتریوں کو ایک دائرے کی شکل میں لگانے میں مصروف تھیں۔
’’تم لوگ کیا کر رہی ہو؟‘‘ دھویں کی ایک پری نے پوچھا۔
’’ہم یہاں آج ہونے والی دعوت کا انتظام کرنے کے لیے آئے ہیں۔ سانپ کی ان چھتریوں پر پریاں کھانے کے لیے بیٹھیں گی۔‘‘
یہ سن کر دھوئیں کی پریوں نے حیران ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
’’اوہ! وہ دیکھو۔‘‘ دھوئیں کی ایک پری نے سرگوشی کی اور شاہ بلوط کے ایک درخت کی طرف اشارہ کیا۔ دوسری پریوں نے دیکھا کہ شاہ بلوط کی جڑوں کے پاس ایک چھوٹا سا دروازہ نظر آ رہا تھا۔ دروازے کے اندر ایک الماری تھی جس میں دعوت کے لیے کیک، مٹھائیاں ، جیلی، شہد اور شبنم سے بنے ہوئے مزے دار مشروبات سجے ہوئے تھے۔
’’کیا ہم اس دعوت میں شریک ہو سکتے ہیں؟‘‘ دھوئیں کی پریوں نے بڑھئی پریوں سے دریافت کیا۔
’’اگر تم لوگوں کو دعوت نامہ نہیں ملا تو جواب ہے کہ۔۔۔ نہیں!‘‘مصروف کارندوں نے جواب دیا۔
’’لیکن ہمیں تو کوئی دعوت نامہ نہیں ملا۔‘‘ دھوئیں کی ایک پری نے اداسی سے کہا۔
’’تب تم نے یہاں آ کر بہت بڑی شرارت کی ہے!‘‘ بڑھئی پری نے سختی سے کہا۔ ’’اگر تم لوگوں کو دعوت میں آنے کی چھٹی نہیں دی گئی ہے تو تم سب کو اپنے کام پر ہونا چاہیے۔‘‘
یہ کہہ کر بڑھئی پریاں اڑ گئیں کیونکہ ان کا کام مکمل ہو چکا تھا۔
’’یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے۔ ہم کام پر واپس نہیں جائیں گے۔‘‘ دھوئیں کی پریاں وہیں بیٹھ کر تیوریاں چڑھانے لگیں۔
’’ہم اس بات کا بدلہ لیں گے۔ آخر ہمیں اس دعوت میں کیوں نہیں بلایا گیا؟‘‘ ایک پری نے کہا۔
’’کیوں نہ ہم سانپ کی چھتریاں آدھی آدھی کاٹ دیں تاکہ جب پریاں ان پر بیٹھیں تو چھتریاں ٹوٹ جائیں اور سب پریاں گر پڑیں۔‘‘ ایک اور ننھی پری چلّائی۔
’’اوہ ہاں۔ بہت مزا آئے گا۔‘‘ شرارتی پریاں یہ تجویز سن کر اچھل پڑیں۔ انھوں نے کچھ آریاں اٹھائیں جو بڑھئی پریاں چھوڑ گئی تھیں اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔ جلد ہی سانپ کی تمام چھتریوں کے تنے نصف کے قریب کٹ چکے تھے۔
’’مجھے بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ سب سے بڑی پری نے کہا۔
’’کیوں ناں شاہ بلوط کے درخت میں سے جیلی نکال کر کھائیں؟‘‘ دوسری نے خیال پیش کیا۔
سب نے الماری میں سے اپنی پسند کی چیزیں نکال لیں۔ وہ اتنی بھوکی تھیں کہ تھوڑی سی دیر میں الماری خالی ہو گئی۔ اچانک انھوں نے سامنے سے بہت سی مہمان پریوں کو آتے دیکھا۔ اب ان کے پاس فرار کا وقت نہیں تھا لہٰذا وہ سب اڑ کر درختوں میں چھپ گئیں۔ جلد ہی ملکہ اور بادشاہ بھی آ گئے اور دعوت کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔
لیکن پھر فوراً ہی ایک پری کے چیخنے کی آواز آئیی۔ وہ سانپ کی چھتری ٹوٹنے سے زمین پر آ گری تھی۔ ایک ایک کر کے سب چھتریاں ٹوٹ گئیں اور پریاں گھاس پر گر پڑیں۔ بادشاہ سلامت غصے میں اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ ابھی وہ کچھ کہنا ہی چاہتے تھے کہ کچھ ننھی سرخ پریاں چلّائیں، ’’حضور! کھانے کی الماری بالکل خالی ہے۔ کسی نے کھانے کی ساری چیزیں چرا لی ہیں۔‘‘
’’یہ سب نامعقول حرکتیں کس کی ہیں؟‘‘ بادشاہ سلامت غصے سے چلّائے۔ کسی نے جواب نہیں دیا لیکن درختوں میں چھپی دھوئیں کی پریاں بادشاہ کا غصہ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہو گئی تھیں۔
’’حضور! مجھے یقین ہے کہ یہ دھوئیں کی پریاں ہیں جو آج صبح اپنے کام سے فرار ہو گئی تھیں۔‘‘ ایک نیلی پری نے کہا۔
’’میں نے انھیں دیکھ لیا ہے۔ وہ یہاں چھپی ہوئی ہیں۔‘‘ ایک سبز پری نے درختوں کی طرف اشارہ کیا۔ دھوئیں کی پریاں یہ سنتے ہی تیزی سے اڑنے لگیں۔ باقی سب ان کے پیچھے تھے۔ اڑتے اڑتے وہ ایک کھیت میں آئیں جہاں بہت سے سرخ گل لالہ کھلے ہوئے تھے۔ دھوئیں کی ساری پریاں ان پھولوں کے اندر گھس گئیں اور پھول کی پتیاں چاروں طرف سے بند کر لیں۔ لیکن افسوس کہ بادشاہ نے انھیں جلد ہی تلاش کر کے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔
’’اب مجھے بتائو کہ ان سب حرکتوں کا مقصد کیا تھا؟‘‘ بادشاہ سلامت نے پوچھا۔
’’جناب! ہم اپنے کام سے بہت تھک چکے تھے اس لیے ہم وہاں سے فرار ہو گئے۔ اور جب ہم یہاں پہنچے تو پتا چلا کہ آج سب پریوں کی دعوت ہے لیکن ہمیں اس میں نہیں بلایا گیا۔ ہمیں یہ بات بہت بری لگی تھی۔‘‘ سب سے بڑی پری نے کہا۔
’’یہ تمہاری اپنی غلطی ہے۔‘‘ بادشاہ نے کہا۔ ’’میں نے تم سب کو دعوت نامے بھجوائے تھے لیکن میرے پیامبر نے تمہیں کام سے فرار پایا اس لیے وہ تمہیں دعوت نہیں دے سکا۔ اور اگر تم اپنے کام سے تھک گئی تھیں تو تمہیں بغیر بتائے کام چھوڑنے کے بجائے مجھ سے بات کرنی چاہیے تھی۔‘‘
دھوئیں کی پریاں رونے لگیں۔ ’’حضور! ہم اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہیں کہ ہم نے آپ کی دعوت خراب کی۔ ہمیں معاف کر دیں ۔ ہم اپنے کام پر واپس چلے جائیں گے۔‘‘
’’میں تمہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘ بادشاہ نے نرمی سے جواب دیا۔ ’’اور اگر تم اپنے کام سے تھک چکی ہو تو میں تمہیں کوئی دوسرا کام دے دیتا ہوں۔ آج سے تم لوگ سیاہ بھونروں کی پالش کیا کرو گی اور رات کے وقت گل لالہ میں رہو گی۔‘‘
’’اوہ بہت بہت مہربانی جناب!‘‘ ننھی پریاں خوشی سے چلّائیں اور بادشاہ سلامت مسکراتے ہوئے واپس لوٹ گئیں۔
لہٰذا اب دھوئیں کی وہ ننھی پریاں گل لالہ میں رہتی ہیں۔ اگر آپ کسی گل لالہ کو اندر سے دیکھیں تو جان جائیں گے کہ وہ بیچ سے اتنا کالا کیوں ہوتا ہے اور اس کو چھونے سے سیاہ پائوڈر آپ کی انگلیوں پر کیوں لگ جاتا ہے!!!

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top