skip to Main Content

حضرت امام ابوحنیفہؒ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

وہ ایک موچی تھا۔ دن بھر جوتے مرمت کرتا اور شام ہوتی تو بازار کا رخ کرتا، مزدوری کی رقم سے گوشت اور شراب خرید لیتا اور گھر لوٹ آتا، رات گئے اس کے دوست احباب جمع ہو جاتے۔ موچی خود ہی سیخ پر کباب لگانے کا فریضہ بھی سنبھال لیتا،محفل ناؤ نوش گرم ہو جاتی، خوب غل غپاڑہ مچتا، موچی ترنگ میں آکر ایک شعر گاناجس کا مفہوم یہ تھا۔
”لوگوں نے مجھ کو ہاتھ سے کھو دیا اور کیسے برے شخص کو کھو دیا جو لڑائی کے دن کام آتا۔“
موچی کے پڑوس میں ایک بہت بڑے عالم رہتے تھے۔ وہ صرف علم ہی کے نہیں عمل کے بھی شہسوار تھے، نہایت نیک اور متقی بزرگ تھے۔ دن ان کا درس و تدریس میں اور رات ذکر اللہ میں گزرتی تھی۔ پڑوس میں روزانہ رات کو ہنگامہ رہتا اور رنگین مزاج موچی اور اس کے دوستوں کے شور شرابے کے باعث بزرگ کی عبادت میں خلل پڑتا لیکن اللہ کے اس نیک بندے نے کبھی اپنے پڑوسی موچی سے کچھ نہ کہا۔
ایک رات شہر کا کوتوال ادھر آنکلا۔ اس نے جو ہنگامہ مچا دیکھا تو موچی کو پکڑ کر لے گیا اور جیل میں ڈال دیا۔ صبح ہوئی تو بزرگ نے اپنے دوستوں سے دریافت کیا کہ رات پڑوس میں سکون تھا ہمسائے کی آواز نہیں آئی۔ لوگوں نے بتایا کہ اسے کوتوال صاحب پکڑ کر لے گئے ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو خوشی کا اظہار کرتا کہ چلو اچھا ہوا جان چھوٹی۔ کئی دن سے رات کی نیند حرام کر رکھی تھی، اب جیل کی ہوا کھائے گا تو درست ہو جائے گا لیکن بزرگ نے ایسا نہیں کیا۔ انہوں نے سواری طلب کی اور گورنر کے پاس تشریف لے گئے۔
گورنر کو لوگوں نے بزرگ کی آمد کی اطلاع دی تو وہ تعظیم کے لئے اٹھا اور کہنے لگا۔”آپ نے کیوں تکلیف کی، مجھے بلا بھیجتے۔“ بزرگ نے فرمایا۔ ”ہمارے محلے میں ایک موچی رہتا ہے، کوتوال نے اسے گرفتار کر لیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ رہا ہو جائے۔“گورنر نے اسی وقت حکم دیا اور موچی رہا کر دیا گیا۔
بزرگ واپس جانے لگے تو موچی بھی ساتھ ہو لیا۔ بزرگ نے اس سے اس کے پسندیدہ شعر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا ”کیوں ہم نے تم کو ضائع کیا؟“ موچی بولا۔”نہیں، آپ نے ہمسائیگی کا حق ادا کیا۔“
اس رات بزرگ کے پڑوس میں شراب و کباب کی محفل نہیں سجی، وجہ یہ نہیں تھی کہ کوتوال، موچی کو دوبارہ پکڑ کر لے گیا تھا یا کوتوال نے موچی کو دھمکیاں دی تھیں بلکہ وجہ یہ تھی کہ موچی نے عیش پرستی سے توبہ کر لی تھی۔ اس کے دل پر اپنے پڑوسی بزرگ امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ کے حسن سلوک کا اتنا گہرا اثر ہوا تھا کہ اس کی کایا پلٹ گئی تھی، وہ امام صاحب کے حلقہ درس میں بیٹھنے لگا تھا۔ پھر رفتہ رفتہ اس نے فقہ میں اتنی مہارت حاصل کی کہ فقیہ کے درجے تک پہنچا۔
امام ابو حنیفہ ؒ کا امت مسلمہ پر عظیم احسان ہے، ان کے بیان کردہ مسائل بارہ سو برس سے تمام اسلامی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کی عظیم اکثریت فقہی مسائل کے حل کے لئے آپ کی جانب رجوع کرتی ہے۔ آپ فقہ حنفی کے بانی ہیں۔
آپ کا نام نعمان اور والد کا نام ثابت تھا۔ کنیت نام سے زیادہ مشہور ہے، یعنی’ابو حنیفہ‘ لیکن یہ حقیقی کنیت نہیں ہے۔ آپ کی کسی اولاد کا نام حنیفہ نہیں تھا۔ کنیت و صفی معنوں کے اعتبار سے ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ”حنیف“ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ یعنی ”یکسو“ ایسا شخص جو ہر طرف سے کٹ کر ایک خدا کا ہورہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ کی حیات مبارکہ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صاف محسوس ہوتاہے کہ آپ کی ذات نہ صرف علم کا ایک وسیع و عریض سمندر تھی بلکہ آپ عمل کی بلندیوں پر بھی فائز تھے۔ آپ ہر طرف سے بے نیاز ہو کر اس ایک ذات کے ہو رہے تھے، جس کے قبضہ میں دونوں جہانوں کے خزانے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی لالچ،کوئی ڈر اور کوئی دباؤ آپ کو حق بات کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔
امام ابو حنیفہ 80ھ / 669ء میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ ابتداء میں اپنے والد کی طرح تجارت کی طرف مائل ہوئے۔ جامع مسجد کے پاس ان کی دکان اور کارخانہ تھا۔ جن دنوں آپ کی عمر اٹھارہ انیس سال کے لگ بھگ تھی،ایک واقعہ پیش آیا۔ ایک دن بازار جا رہے تھے، کوفہ کے مشہور امام، امام شعبیؒ کے مکان کے سامنے سے گزرے۔ امام شعبی نے انہیں دیکھا تو سمجھے کوئی نوجوان طالب علم ہے۔ پاس بلا لیا، پوچھا ”کہاں جا رہے ہو؟“ انہوں نے کسی سوداگر کا نام بتایا کہ اس کے پاس جا رہا ہوں۔ امام شعبی نے دریافت کیا۔ ”تم پڑھتے کس سے ہو؟“ جواب ملا”کسی سے نہیں۔“ امام شعبی نے کہا۔”تم میں مجھ کو قابلیت کے جو ہر نظر آتے ہیں، تم علماء کی صحبت میں بیٹھا کرو۔“
امام حماد ؒکوفہ کے مشہور امام تھے۔ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نہایت قریبی صحابی حضرت انسؓ سے حدیث کا علم حاصل کیا تھا۔ ابو حنیفہ،امام حماد کے درس میں شریک ہو گئے۔ پہلے دن بائیں صف میں بیٹھے کیونکہ نئے طالب علموں کے لئے یہی ضابطہ تھا لیکن چند ہی دنوں بعد امام حماد نے حکم دیا کہ ابو حنیفہ سب سے آگے بیٹھا کریں۔ کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ پورے حلقہ میں کوئی بھی شاگرد ذہانت اور حافظہ میں ابو حنیفہ کی برابری نہیں کر سکتا۔
امام ابو حنیفہ کہتے ہیں دو سال تک امام حماد کے حلقہ درس میں حاضر ہوتا رہا پھر خیال آیا کہ خود بھی درس کا سلسلہ شروع کروں مگر استاد کا ادب مانع آتا تھا، انہی دنوں امام حمادؒ کے ایک رشتہ دار بصرہ میں انتقال کر گئے۔ امام صاحب کو جانا پڑا، وہ مجھے اپنا قائم مقام بنا گئے، اب اگلے چند دنوں میں کئی ایسے مسئلے میرے سامنے آئے جن کے بارے میں استاد سے میں نے کوئی روایت نہ سنی تھی۔میں نے ان مسائل کے جوابات اپنے اجتہاد سے دیئے اور احتیاطاً ایک یادداشت لکھتا گیا۔ دو ماہ کے بعد امام حماد واپس آئے تو میں نے یادداشت پیش کی۔ ساٹھ مسئلے تھے۔ استاد نے ان کے جوابات میں بیس غلطیاں نکالیں اور کہا کہ باقی جوابات درست ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک امام حماد زندہ ہیں ان کی شاگردی نہ چھوڑوں گا۔ امام حماد کا انتقال 120ھ میں ہوا۔ امام ابو حنیفہ نے اگر چہ اور کئی اساتذہ اور علماء سے علم حاصل کیا لیکن وہ امام حماد کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔
امام ابو حنیفہ اب حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔ کوفہ میں شاید ہی کوئی ایسا محدث ہو جس کی امام صاحب نے شاگردی نہ اختیار کی ہو۔ آپ کے اساتذہ میں امام شعبی ابو اسحق شعبی، حضرت سماک اور حضرت قتادہ شامل ہیں۔ اس کے بعد امام ابو حنیفہ حرمین شریفین تشریف لے گئے۔وہاں مکہ مکرمہ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کا حلقہ درس قائم تھا، اس میں شریک ہو گئے۔ آپ نے حضرت عبداللہ بن عباس کے غلام حضرت عکرمہ،شام کے امام المذہب مکحول شامی اور امام اوزاعی سے مکہ میں تعارف حاصل کیا اور حدیث کی سند لی۔ آپ کے اساتذہ کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے۔ امام ابو حنیفہ کی شہرت کا اب یہ حال تھا کہ حرمین شریفین کے سفر کا ارادہ کرتے تو شورمچ جاتا کہ فقیہ عراق عرب جا رہے ہیں۔
ایک دفعہ مکہ مکرمہ تشریف لے گئے، اتنا ہجوم تھا کہ ایک پر ایک گرا پڑتا تھا۔ آپ نے کہا۔”کاش ہمارے میزبان سے کوئی کہتا کہ اس ہجوم کا انتظام کرے۔“ ابو عاصم نبیل نے کہا۔”میں جاتا ہوں لیکن چند مسئلے دریافت کرنے رہ گئے۔“ امام صاحب نے مسئلے توجہ سے سنے۔اس میں میزبان کا خیال جاتا رہا، ابو عاصم سے فارغ ہوئے تو دیگر طالب علموں نے مسائل پوچھنے شروع کر دیئے۔ کچھ دیر بعد پھر خیال آیا تو دریافت کیا ”کسی شخص نے میزبان کے پاس جانے کے لئے کہا تھا۔“ ابو عاصم کہنے لگے۔ ”جی ہاں میں نے عرض کیا تھا۔“ آپ نے پوچھا ”پھر تم گئے نہیں؟“ ابو عاصم شوخی سے کہنے لگے۔”میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ ابھی جاتا ہوں، جب فرصت ہو گی تب جاؤں گا۔“ امام صاحب نے ابو عاصم کی بات پر فوراً گرفت کی اور فرمایا۔ ”عام بول چال میں ان احتمالات کا موقع نہیں، ان لفظوں کے معنی وہی لئے جائیں گے جو عوام کی غرض ہوتی ہے۔“
امام صاحب میانہ قد، خوش رو اور موزوں اندام تھے۔ گفتگو بلند اور صاف لہجے میں کرتے تھے۔ مزاج میں تکلف تھا۔ اچھا لباس پہنتے تھے۔ وظیفہ خوری کے مخالف تھے اس لئے آپ کو حق گوئی میں کبھی باک نہ ہوا۔
لاکھوں کی تجارت کرتے تھے، اکثر شہروں میں آپ کے نمائندے مقرر تھے۔ ایک بار حفص بن عبد الرحمن کے پاس کپڑے کے تھان بھیجے، ساتھ ہی پیغام دیا کہ فلاں فلاں تھان میں خرابی خریدار کو بتا دینا۔ حفص کو یاد نہ رہا اور خریدار کو بتائے بغیر ہی تھان فروخت کر دیئے۔ امام صاحب کو معلوم ہوا تو نہایت رنج ہوا۔ آپ نے تمام تھانوں کی قیمت بیس ہزار درہم خیرات کر دی، آپ نے یہ گوارا نہ کیا کہ اس رقم میں ے ایک درہم بھی اپنے پاس رکھیں۔
ایک بار کسی بیمار کی عیادت کے لئے جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شخص ملا،اس نے چاہا کہ کترا کر نکل جائے۔ اسے امام صاحب نے بلا لیا اور پوچھا کہ راستہ کاٹ کر کیوں نکل رہے تھے؟ اس نے کہا۔”امام صاحب میں آپ کا دس ہزار کا مقروض ہوں، اسی شرم سے آنکھ نہیں ملا سکتا۔“ امام صاحب اس شخص کی غیرت پر حیران ہوئے۔ فرمایا۔”جاؤ میں نے سب معاف کر دیا۔“
قاضی ابو یوسف ؒ فرماتے ہیں۔ امام ابو حنیفہ لوگوں کو پچاس پچاس اشرفیاں یا اس سے بھی زائد رقم دے دیتے لیکن جب کبھی کوئی شخص لوگوں کے سامنے شکریہ ادا کرتاتو آپ کو اس سے تکلیف ہوتی، فرماتے:
”میاں! اللہ نے یہ روزی تم تک پہنچائی ہے، میں تو صرف خزانچی ہوں، جہاں حکم دیا جاتا ہے وہاں رکھ دیتا ہوں۔“
ایک بار کسی حاجی نے آپ کی خدمت میں جوتوں کے ایک ہزار جوڑے تحفہ کے طور پر پیش کئے۔ ایک دو دن کے بعد آپ اپنے بیٹے کے لئے بازار میں جوتا خرید تے دکھائی دیئے۔ آپ کے شاگرد حضرت یوسف بن خالد نے دریافت کیا کہ ابھی تو آپ کے پاس ہزار جوڑے جوتے آئے تھے۔ آپ نے فرمایا۔”میرا قاعدہ یہی ہے کہ تحائف اپنے شاگردوں میں تقسیم کر دیتا ہوں۔“

موصول ہونے والے تحائف تو آپ دوسروں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور خود آپ کا حال یہ تھا کہ دوسروں کو زیادہ سے زیادہ تحفے دیا کرتے تھے۔ حضرت سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ میرے پاس امام ابو حنیفہ کی طرف سے اس قدر تحفوں کی بھرمار ہوئی کہ میں گھبرا اٹھا۔ ایک شخص نے امام ابو حنیفہ کو تین درہم کی چیز تحفے کے طور پر پیش کی۔ آپ نے اس کو پچاس درہم مالیت کا خز (کپڑے) کا ٹکڑا جوابی تحفہ کے طور پر بھیجا۔
آپ اپنے طلبہ کے لئے جمعہ کے روز طرح طرح کے کھانے پکواتے لیکن کھانے میں خود شریک نہ ہوتے، پوچھنے پر فرماتے۔”اس طرح تم لوگوں کی بے تکلفی جاتی رہے گی۔“ اس سے امام صاحب کے علم اور حکمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہ جانتے تھے کہ نوجوانوں کو کسی بزرگ کی موجودگی میں سنجیدہ ہو کر بیٹھنا پڑے گا اور وہ آپس میں ہنسی مذاق نہ کر سکیں گے۔
کوفہ کے گورنر ابن ہبیرہ نے جب امام صاحب کو میر مفتی مقرر کرنا چاہا تو آپ نے انکار کر دیا۔ اس پر اس نے امام صاحب کو درے لگوائے جس کا امام صاحب کی والدہ کو بڑا صدمہ ہوا۔ امام صاحب فرماتے ہیں۔”مجھے اپنی تکلیف کا چنداں خیال نہ تھا البتہ یہ رنج تھا کہ میری تکلیف کی وجہ سے والدہ کے دل کو صدمہ پہنچا۔“
امام صاحب کی دیانت کا اندازہ اس واقعہ سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس زمانہ میں گورنر کی طرف سے آپ کے فتویٰ دینے پر پابندی تھی، ایک دن گھر میں بیٹھے تھے کہ آپ کی لڑکی نے آکر مسئلہ پوچھا۔”میرا روزہ ہے، دانتوں سے خون بہہ نکلا اور تھوک کے ساتھ گلے سے اتر گیا۔ روزہ ہے یا جاتا رہا؟“ امام صاحب چاہتے تو جواب دے سکتے تھے، گھر کے اندر گورنر کے کارندے تو جانچ پڑتال کے لئے نہیں آئے تھے،لیکن آپ نے کہا۔ ”جان پدر! اپنے بھائی حماد سے پوچھ لو، مجھے فتویٰ دینے سے روک دیا گیا ہے۔“ مورخ ابن خلکان کہتے ہیں کہ چند روز بعد گورنر کو بعض فقہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ اس نے امام ابو حنیفہ سے رجوع کیا۔ اس طرح امام صاحب کو پھر فتویٰ دینے کی اجازت مل گئی۔
خلیفہ منصور نے ایک بار امام صاحب کے پاس کچھ رقم بھیجی۔ آپ نے لینے سے انکار کر دیا۔ لوگوں نے کہا۔”لے کر خیرات ہی کر دیجئے۔“ آپ نے پوچھا۔”کیا ان لوگوں کے پاس حلال بھی کچھ ہے؟ کیا ان کے پاس حلال بھی کچھ ہے۔؟“
امام صاحب کا کوفہ میں ایک قسم کے کپڑے”خر“ کا بڑا کارخانہ تھا۔ شہر میں ایک بڑی دکان بھی تھی۔ آپ کے صاحبزادے اور شاگرد دکان پر کام کرتے تھے۔ آپ نے دکان پر مختلف قسم کے کپڑوں کی قیمتیں متعین کر دی تھیں۔ ایک دن امام صاحب دکان پر موجود نہ تھے۔ ایک شاگرد نے کسی گاہک کو مقررہ دام سے زیادہ قیمت پر کپڑا دے دیا۔ امام صاحب نے بعد میں حسابات کی جانچ پڑتال کی تو اس بات کا علم ہوا کہ شاگرد نے کپڑے کے زیادہ دام وصول کر لئے ہیں۔ آپ نے اپنے طالب علم کو برہمی سے دیکھا اور فرمایا۔ ”تم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو؟“ خریدار مدینہ منورہ کا باشندہ تھا۔ آپ مدینہ تشریف لے گئے اور اس معاملے کی تلافی کی۔
امام ابو حنیفہ کی ذہانت، حاضر جوابی اور معاملہ فہمی مشہور ہے۔ کوفہ کے گورنر ابن ہبیرہ نے ایک بار امام صاحب سے اپنے پاس آنے کی درخواست کی۔ آپ پہنچے، دیکھا کہ ایک نگینہ اس کے سامنے پڑا ہے اور وہ کچھ سوچ رہا ہے، آپ نے دریافت کیا کہ کس سوچ میں گم ہو؟ کہنے لگے۔”یہ نگینہ مجھے پسند آگیا ہے، میں چاہتا ہوں اسے استعمال کروں لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس پر دوسرے آدمی کا نام کھدا ہوا ہے۔“ امام صاحب نے نگینہ لے کر دیکھا تو اس پر نقش تھا”عطا بن عبد اللہ۔“
امام صاحب نے سامنے بیٹھے ایک شخص کو نگینہ دیا اور اسے ہدایت کی،اس نگینہ پر کھدے ہوئے الفاظ ”عطا بن عبداللہ“ میں صرف اتنی تبدیلی کروا دو کہ”بن“ کو ”من“ اور”عبد اللہ“ کی ”ب“ کا نقطہ مٹاکر ”عبد“ کے اندر نون کا لفظ لگوا دو۔ وہ شخص گیا اور تھوڑی دیر میں نگینہ لے کر لوٹ آیا۔ آپ نے نگینہ ابن ہبیرہ کے حوالے کیا اور فرمایا۔”اب آپ اسے پہن سکتے ہیں۔“
ابن ہبیرہ نے تعجب سے پوچھا۔ ”کیا ہوا؟“ امام صاحب نے کہا۔”اب پڑھیے“ ابن ہبیرہ نے پڑھا تو نگینہ پر کھدے الفاظ میں معمولی سی تبدیلی کے بعد اب جو الفاظ پڑھے جا رہے تھے وہ تھے ”عطا من عند اللہ“ یعنی اللہ کی طرف سے دی ہوئی چیز۔ امام صاحب کی ذہانت پر ابن ہبیرہ اچھل پڑا۔ فوراً سنار کے پاس نگینہ بھیجا کہ انگوٹھی میں جڑ کر واپس کرے۔
قاضی ابو یوسف فرماتے ہیں۔”ایک بار میں خلیفہ کی ڈیوڑھی میں تھا، سامنے سے ایک آدمی گزرا، لوگ آپس میں کہنے لگے، یہ بڑا حساب دان ہے، مجھے ایک حسابی مسئلے میں دشواری پیش آرہی تھی۔ میں اس شخص کے پاس پہنچا اور مسئلہ پیش کیا۔ اس نے ایک طریقہ بتایا لیکن اس طریقے سے مسئلہ حل کرنے پر جواب درست نہیں آیا۔ تب اس شخص نے کہا،اب بس ایک طریقہ رہ گیا ہے جو مجھے امام ابوحنیفہ نے بتایا تھا۔قاضی ابو یوسف کہتے ہیں کہ اس طریقے سے مسئلہ حل کیا تو بالکل صحیح جواب آگیا۔“
ایک بار ایک شخص امام صاحب کے پاس آیا، اس نے کہا۔ ”میں نے اپنی رقم ایک جگہ احتیاط سے رکھ دی تھی۔ اب یاد نہیں آتا کہ کہاں رکھی ہے۔ مجھے رقم کی سخت ضرورت ہے۔ کوئی تدبیر بتائیے۔“ امام صاحب نے کہا۔ ”بھائی یہ کوئی فقہی مسئلہ نہیں ہے، مجھ سے کیا پوچھتے ہو۔“ وہ شخص منت سماجت کرنے لگا۔ آپ نے فرمایا۔ ”جاؤ آج ساری رات نماز پڑھو۔“
وہ شخص گیا، اس نے جا کر نماز شروع کی، تھوڑی دیر میں اسے یاد آگیا کہ رقم فلاں جگہ رکھی تھی۔ دوڑا ہوا امام صاحب کے پاس آیا کہنے لگا۔ ”آپ کی تدبیر درست ثابت ہوئی۔“ امام صاحب نے فرمایا۔ ”ہاں شیطان کب گوارا کرتا کہ تم رات بھر نماز پڑھتے رہو۔ اس نے جلد یاد دلا دیا۔ تاہم مناسب یہ تھا کہ اللہ کا شکر ادا کرنے کے لئے رات بھر نماز پڑھتے۔“
امام صاحب کی تصنیف کردہ کتب میں فقہ اکبر، العالم والمتعلم اور مسند شامل ہیں۔
امام ابو حنیفہ نے جس قدر مسائل مدون کئے،ان کی تعداد بارہ لاکھ 90 ہزار سے کچھ زیادہ ہے۔ امام صاحب نے جس طریقے سے فقہ کی تدوین کا ارادہ کیا تھا، وہ بہت وسیع اور دشوار تھا۔ انہوں نے اتنے مشکل کام کو تن تنہا انجام دینا مناسب نہ سمجھا اور اپنے شاگردوں میں سے چالیس ماہر افراد کا انتخاب کیا، ان کی ایک مجلس بنائی۔ ان میں امام ابویوسف اور امام زفر بھی شامل تھے۔ اس طرح فقہ کے اعلیٰ درجے کے ایک ادارے کی بنیاد پڑی۔ اس ادارے نے امام ابو حنیفہ کی سربراہی میں تیس برس تک کام کی۔ امام ابو حنیفہ کی زندگی ہی میں اس مجلس کے فتاویٰ تیار ہو کر ملک بھر میں پھیلنے لگے تھے۔
امام ابو حنیفہ نے اپنا اصول تحقیق کچھ یوں بیان کیا۔ ”میں کتاب اللہ سے اخذ کرتا ہوں۔ اگر کوئی مسئلہ مجھے وہاں نہ ملتا تو سنت رسول اللہ سے لیتا ہوں اور جب وہاں بھی نہ ملے تو صحابہ کرام میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور جب معاملہ ابراہیم،شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ مجتہد تھے، اس وقت میں بھی انہی لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔“ (تہذیب التہذیب)
امام ابو حنیفہ دینی مسائل میں غور و فکر کے بعد اپنے شاگردوں سے بحث کرتے تھے اور پھر حاصل بحث کو لکھوا دیا کرتے تھے۔ آپ کی اولاد میں سے آپ کے بیٹے حماد اور پوتے اسماعیل نے فقہ اسلامی میں بڑا نام پیدا کیا۔ آپ کے اہم شاگردوں میں حضرت داؤد الطائی، امام ابو یوسف، اسد بن عمرو، امام محمد، امام زفر اور حضرت عبد اللہ بن مبارک جیسے جلیل القدر بزرگ شامل ہیں۔ عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں امام ابو حنیفہ کے فتاویٰ کو پورے ملک میں قانون کا درجہ حاصل تھا۔ آپ کے شاگردوں کی تعداد730 اور ایک دوسری روایت کے مطابق 880 ہے۔
امام ابو یوسف کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا کوئی ہنر سیکھے لیکن امام ابو یوسف، امام ابو حنیفہ سے علم حاصل کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ایک دن حضرت ابو حنیفہ کے درس میں شریک تھے کہ والد آئے اور امام ابو یوسف کو زبر دستی اٹھا کر لے گئے۔ گھر آکر سمجھایا۔ ”بیٹا ابو حنیفہ کو رزق کی طرف سے اطمینان ہے،تم ان کی برابری کیوں کرتے ہو؟“ امام ابو حنیفہ نے دو چار دن بعد پوچھا۔ ”یعقوب (امام ابو یوسف) اب نہیں آتے؟“ لوگوں نے بتایا کہ ان کے والد نے منع کر دیا ہے۔ امام صاحب چپکے سے امام ابو یوسف کے پاس پہنچے، سو درہم کی تھیلی ان کے حوالے کی اور کہہ گئے کہ جب یہ رقم خرچ ہو جائے تو مجھ سے اور لے لینا،اسی طرح ان کی مدد کرتے رہے، یہاں تک کہ امام ابو یوسف فقہ کے عالم بن گئے۔
جب 132ھ / 749ء میں سلطنت عباسیہ قائم ہوئی تو خلیفہ منصور نے بغداد کو دار الخلافہ بنایا۔ 146ھ / 763ء میں آپ کو خلیفہ نے بلایا اور قاضی کا عہدہ پیش کیا۔ آپ نے انکار کر دیا اور فرمایا۔ ”مجھ میں اس کی قابلیت نہیں ہے۔“ منصور نے کہا۔”آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔“ آپ نے جواب دیا۔ ”اگر میں جھوٹا ہوں تو آپ ایک جھوٹے کو قاضی مقرر نہیں کر سکتے۔“ خلیفہ لاجواب ہو گئے۔ پھر آپ نے انہیں سمجھایا کہ میں عربی النسل نہیں ہوں، اس لئے اہل عرب کو میری تقرری ناگوار گزرے گی۔ لیکن منصور نے قسم کھا کر کہا کہ آپ کو عہدہ قبول کرنا ہو گا۔ آپ نے بھی قسم کھا کرکہا کہ ہرگز قبول نہ کروں گا۔ خلیفہ نے آپ کو قید کر دینے کا حکم دے دیا۔
قید کے دوران میں بھی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ امام محمد نے جیل ہی میں آپ سے تعلیم پائی۔ بالآخر لوگوں کے بے حد زور دینے پر محض خلیفہ کی قسم پوری کرنے کے لئے آپ نے فرمایا کہ دجلہ کے پار ایک چھوٹی سی آبادی ”رصافہ“ کے قاضی کا عہدہ قبول کر لیتا ہوں۔ خلیفہ اسی پر راضی ہو گئے۔
رصافہ میں آپ نے پانچ دن گزارے پھر آپ بیمار پڑ گئے اور چھ دن تک بیماررہے اور اسی بیماری کے عالم میں اپنے رب سے جاملے۔ 150ھ /767ء میں علم کا یہ چمکتا ہوا آفتاب غروب ہو گیا۔

امام صاحب کی وفات کی خبر کیا پھیلی سارا بغداد امڈ آیا۔ پہلی بار پچاس ہزار افراد نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی، پھر مزید پانچ مرتبہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ یہاں تک کہ عصر کے قریب تدفین ہوئی۔ مورخ خطیب کے مطابق وفات کے بیس دن بعد تک بھی لوگ آ آکر نماز جنازہ پڑھتے رہے۔ امام صاحب کو آپ کی وصیت کے مطابق خیزراں کے مقبرہ کے مشرق میں دفن کیا گیا۔ جس محلہ میں آپ کا مقبرہ واقع ہے،وہ اب بھی امام اعظم کے نام سے اعظمیہ کہلاتا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top