skip to Main Content

حضرت امام شافعیؒ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

سینکڑوں برس پرانی بات ہے۔ ایک نوجوان یمن سے ”علم فراست“ کی تعمیل کر کے اپنے وطن واپس آ رہا تھا۔ اس زمانے میں آج کی طرح نہ تو تیز رفتار ہوائی جہاز تھے، نہ ہوا سے باتیں کرتی ٹرینیں۔ زیادہ تر سفر بار برداری کے جانوروں کے ذریعہ طے ہوتا تھا۔ نوجوان ابھی اپنی منزل سے دور تھا کہ رات نے ڈیرے ڈال دیے۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ نوجوان نے سوچا،رات یہیں بسر کی جائے۔ ایک مکان کے سامنے ایک شخص ٹہلتا ہوا نظر آیا۔ اس شخص کی پیشانی ابھری ہوئی تھی اور آنکھیں نیلی، نوجوان نے اپنے علم فراست سے کام لیتے ہوئے اس شخص کے بارے میں غور کیا۔ نوجوان کا وجدان کہتا تھا کہ یہ شخص اچھا نہیں ہے، بہر حال نوجوان نے اس شخص سے رات بھر قیام کی بات کی اور وہ شخص راضی ہو گیا۔
میزبان بہت خوش اخلاق ثابت ہوا۔ اس نے نوجوان کو رات بسر کرنے کے لئے کمرہ دیا، اچھا بستر مہیا کیا، پر تکلف کھانا کھلایا۔ گھوڑے کے لئے گھاس کا انتظام کیا، نوجوان شش و پنج میں تھا۔ اس نے سوچا یا تو علم فراست ہی غلط ہے یا پھر یہ شخص جلد ہی کوئی حرکت کرے گا۔
صبح ہوئی، نوجوان نے اٹھ کر تیاری کی، رخت سفر باندھا،میزبان سے ملاقات کی، اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا:
”آپ مکہ مکرمہ تشریف لائیں تو محمد بن ادریس کا مکان دریافت کر لیجئے، میرے ہاں قیام فرمائیے گا۔“
ابھری پیشانی اور نیلی آنکھوں والے میزبان نے پوچھا:”یہ تو بتائیے کہ آپ کی کوئی امانت میرے پاس تھی یا آپ نے میرے اوپر کبھی احسان کیا تھا؟“
نوجوان نے کہا:”نہیں!“
اس پر میزبان نے سوال کیا:”میں نے آپ کا اتنا خیال رکھا اتنا آرام پہنچایا اس کا معاوضہ کہاں ہے؟“
نوجوان نے معاوضہ دریافت کیا۔ ”خوش اخلاق“ میزبان نے ہر چیز کا معاوضہ بتادیا۔ نوجوان نے تمام رقم ادا کر دی اور پوچھا۔”اور کچھ؟“
اس شخص نے کہا:”اب صرف مکان کا کرایہ باقی ہے۔“
نوجوان نے شب بسری کا کرایہ بھی ادا کیا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا، اب وہ مطمئن تھا کہ واقعی فراست کا علم، علم ہے۔
یہ نوجوان تھے حضرت محمد بن ادریس جو امام شافعی کے نام سے مشہور ہیں۔ آپ کو علم فراست ہی نہیں بلکہ فن لغت، فن تاریخ، علم الانساب، فن نحو، عروض، تیراندازی اور حکمت میں بھی کمال حاصل تھا، لیکن آپ کی اصل وجہ مقبولیت علم فقہ میں آپ کا بے حد بلند مقام ہے۔
آپ کا نام محمد، کنیت ابو عبداللہ اور لقب ”ناصر الحدیث“ ہے۔ آپ کو شافعی آپ کے جد اعلیٰ حضرت شافع کی نسبت سے کہا جاتا ہے، جو صحابی تھے۔ ساتویں پشت پر آپ کا سلسلہ نسب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ آپ کی والدہ محترمہ فاطمہ بنت عبید اللہ یمن کے ممتاز قبیلے ”ا زو“ سے تعلق رکھتی ہیں۔
امت مسلمہ کے اس محسن کی پیدائش بیت المقدس سے دو منزل کے فاصلے پر واقع مقام غزہ میں رجب 150ھ / اگست 767ء میں ہوئی (یہ عجب اتفاق ہے کہ اسی سال، امام اعظم حضرت امام ابو حنیفہ کا انتقال ہوا) مدت رضاعت کے دو سال بعد والدہ آپ کو یمن کے نواح میں آباد۔ اپنے قبیلے ”ازو“ لے گئیں۔ ماموں کے پاس آٹھ سال گزارے۔ قدرت نے آپ کو ذہانت، فہم و فراست اور حافظہ کی غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال کیا تھا۔ صرف سات سال کی عمر میں آپ قرآن پاک حفظ کر چکے تھے اور دس سال کے ہوئے تو موطا امام مالک آپ کو یاد ہو چکی تھی۔ آپ بچپن ہی میں والد کے سائے سے محروم ہو گئے۔ ابتدائی زندگی بڑی تنگی ترشی سے گزری، لیکن علم حاصل کرنے کی جستجو کبھی ماند نہ پڑی۔
بیٹے کی غیر معمولی ذہانت کو دیکھتے ہوئے والدہ نے انہیں چچا کے پاس مکہ مکرمہ بھیج دیا تاکہ علم الانساب حاصل کریں۔ اس زمانے میں نسب دانی باقاعدہ ایک علم کی حیثیت رکھتی تھی اور اس کا سیکھنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ محمد بن ادریس مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔ ایک ماہر انساب کے پاس گئے اس نے مشورہ دیا کہ کوئی ذریعہ معاش پیدا کرو پھر علم سیکھنا۔ اس وقت آپ دس سال کے تھے، خالق حقیقی نے بچے کو مسلمانوں کا امام بنانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ آپ کے حصول علم کے شوق کا یہ عالم تھا کہ کسی عالم سے کوئی حدیث یا مسئلہ سنتے،اسے سنتے ہی یاد کر لیا کرتے اور ہڈیوں پر لکھ لیا کرتے۔ امام شافعی خود فرماتے ہیں۔”میں اتنا غریب تھا کہ کاغذ تک خریدنے پر قادر نہ تھا، اس لئے ہڈیوں پر لکھا کرتا اور ان ہڈیوں کو مٹکے میں احتیاط سے محفوظ کر لیتا۔“
آپ کے چچا کی مالی حالت کمزور تھی اس لئے آپ کے شوق کو دیکھنے کے باوجود وہ آپ کی مدد سے قاصر تھے۔ آپ نے عرب قبائل میں خاصا عرصہ گزارا، اس لئے آپ کو عربی زبان میں بڑی مہارت حاصل ہو گئی تھی۔ اصمعی جیسے عربی ادب کے ماہر آپ کے شاگردوں میں سے ہیں۔
ایک دن آپ کو علم ہوا کہ مکہ مکرمہ میں حضرت مسلم بن خالد زنجی فقہ و حدیث کے امام اور مفتی ہیں۔ آپ ان کے پاس پہنچ گئے۔ مفتی مسلم بن خالد اس نو عمر لڑکے کی ذہانت، ذکاوت اور حافظہ سے بے حد متاثر ہوئے اور اپنے حلقہ درس میں شامل کر لیا۔ تین سال تک فقہ و حدیث کی تعلیم دی۔ مفتی صاحب کی مجلس میں اکثر امام مالک کا تذکرہ رہتا تھا جو مدینہ منورہ میں درس دیا کرتے تھے، چنانچہ مفتی مسلم بن خالد کے نوجوان شاگرد نے امام مالک سے ملنے کی خواہش ظاہر کی، مفتی صاحب نے امام مالک کے نام ایک خط لکھ کر حوالے کیا۔
مفتی مسلم بن خالد نے امام مالک کو مخاطب کر کے لکھا تھا۔”میں جس نوجوان کو آپ کی خدمت اقدس میں بھیج رہا ہوں وہ آپ کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا واقعی مستحق ہے۔ اس میں غیر معمولی صلاحیتیں ہیں۔“
امام مالک کے نام خط تو مل گیا، لیکن اب سفر کے اخراجات کیوں کر پورے ہوں۔ نہ تو محمد بن ادریس (امام شافعی) کے پاس اتنی رقم تھی نہ آپ کے چچا کے پاس اتنا سرمایہ تھا، لیکن علم حاصل کرنے کا شوق آپ کو کشاں کشاں حضرت مصعب بن الزبیر کے پاس لے گیا۔ عرض مدعا کی تو حضرت مصعب نے کسی سے سفارش کر کے سو دینار دلوا دیے۔ رقم ملتے ہی آپ نے سفر کے انتظامات کئے اور مدینہ منورہ جا پہنچے۔
مدینہ منورہ میں حضرت امام مالک کے مکان پر پہنچ کر دستک دی۔ خادمہ آئی، نام پوچھ گئی، پھر امام مالک تشریف لائے۔ آپ نے مفتی مسلم بن خالد کا خط پیش کیا۔ امام مالک نے خط پڑھا اور پھاڑ کر پھینک دیا، فرمایا:”سبحان اللہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا علم اب اس قابل رہ گیا ہے کہ وہ سفارشوں سے حاصل کیا جائے؟“
امام مالک کی برہمی دیکھ کر محمد بن ادریس (امام شافعی) آگے بڑھے اور کہنے لگے:
”میں عبدالمطلب کے خاندان کا فرد ہوں۔“ پھر اپنا حال اور قصہ بیان کیا۔
امام مالک بے پناہ فراست کے مالک تھے۔ انہوں نے اس نوجوان کی طرف کچھ دیر دیکھا،پھر فرمایا:”نام کیا ہے؟“
جواب ملا۔”محمد بن ادریس!“

امام مالک نے فرمایا:”محمد اللہ سے ڈرو،گناہوں سے بچو، بے شک تمہاری شان بہت بلند ہو گی۔“ پھر فرمایا۔”کل آنا اور اپنے ساتھ ایک شخص لیتے آنا جو تمہارے لئے قرات کرے۔“
امام شافعی خود بیان کرتے ہیں، دوسرے دن میں امام مالک کے پاس پہنچا۔ کتاب (موطا) میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے خود ہی قرات شروع کر دی۔ امام مالک کی ہیبت سے مرعوب ہو کر جب ارادہ کرتا کہ اب قرات روک دوں تو امام مالک پسندیدگی سے فرماتے:
”صاحبزادے! اور……اور!!“
محمد بن ادریس (امام شافعی) تین سال تک امام مالک سے علم حاصل کرتے رہے۔ دیگر81 شیوخ سے بھی سند حاصل کی، پھر آپ مکہ مکرمہ واپس چلے آئے۔ اس کے بعد یمن میں قیام فرمایا، اس دوران میں آپ نے قبیلہ ہزیل میں تیراندازی، فن لغت، فن تاریخ، علم الانساب، فن نحو، عروض اور علم فراست میں کمال پیدا کیا۔ آپ بہترین طبیب بھی تھے، جالینوس، ارسطو، بقراط اور دیگر حکمائے روم و یونان کی کتب پر آپ کی گہری نظر تھی۔ آپ کی غیر معمولی فراست کا ایک واقعہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ آپ کے استاد امام حمیدی فرماتے ہیں:”ایک بار میں اور امام شافعی مکہ سے باہر چلے، راستے میں ایک شخص ملا۔ میں نے امام شافعی سے پوچھا:فراست سے کام لے کر بتائیے کہ اس شخص کا ذریعہ معاش کیا ہے؟“
امام شافعی نے فرمایا:”یہ شخص بڑھئی یا درزی معلوم ہوتا ہے۔“
اس شخص سے پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا: ”میں پہلے بڑھئی کا کام کرتا تھا، آج کل درزی ہوں۔“
آپ کو تیراندازی میں کمال حاصل تھا۔ خود فرماتے ہیں۔ ”مجھے دو چیزوں کا بڑاشوق ہے۔ ایک تیراندازی،دوسرے علم۔ تیر اندازی میں تو واقعی میں نے کمال حاصل کر لیا باقی رہا علم۔“ اتنا کہ کر خاموش ہو گئے۔ حاضرین میں سے بعض نے کہا۔”خدا کی قسم، آپ کا علم تیراندازی کے فن سے بھی زیادہ کامل ہے۔“
آپ با کمال افراد کی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ ایک شخص تیراندازی کی مشق کر رہا تھا۔ تیر نشانے پر بیٹھا۔ جیب سے تین دینار نکال کر دیئے اور افسوس ظاہر کیا کہ مزیدرقم نہیں ہے، اگر پاس اور دینار ہوتے تو وہ بھی دے دیتا۔
امام مالک کے انتقال کے بعد آپ نے تحصیل علم کے لئے متعدد سفر کئے۔ بغداد جا کر حضرت امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے تین سال تک علم حاصل کیا۔ امام محمد سے تین سال تک حصول علم کے بعد امام شافعی مکہ مکرمہ واپس تشریف لے آئے اور درس و افتاء کا سلسلہ شروع کیا۔ نو سال تک آپ حرم پاک میں درس دیتے رہے۔ اسی زمانے میں حضرت امام احمد بن حنبل سے ملاقات ہوئی۔ اسی دوران آپ نے اجتہاد، استنباط اور فقہ کے اصول تیار کئے جو فی الواقع آپ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ امام شافعی نے فقہی اجتہاد اور حدیث دونوں کو اختیار فرمایا۔ انہوں نے نہ صرف پہلے سے موجودہ فقہی سرمائے کو ذہن نشین کیا بلکہ اپنی کتاب ”الرسالہ“ میں اصول اور فقہی استدلال کے طریقے کی تحقیق کی۔ انہیں اصول فقہ کا بانی سمجھا جاتا ہے۔
خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں یمن کے گورنر مکہ مکرمہ آئے ہوئے تھے۔ قریش کے سرداروں نے ان سے سفارش کی کہ امام شافعی بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں،ان سے سرکاری خدمت لی جانی چاہیے۔ گورنر نے آپ کو نجران کا عامل بنا دیا۔ جس شخص نے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا، اس پر بھلا رشوت یا خوشامد اثر انداز ہو سکتی تھی؟ آپ مقدمات کے فیصلے نہایت عدل و انصاف کے ساتھ فرماتے رہے۔ آپ نے پنچایت کے طور پر سات قابل اعتماد افراد کی ایک کمیٹی بنادی تھی۔ معمولی جھگڑوں کا تصفیہ کمیٹی ہی میں ہو جاتا۔
بہت سے مفاد پرستوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ انہوں نے امام شافعی کے خلاف خلیفہ ہارون الرشید کے کان بھرے کہ امام شافعی سادات میں سے ہیں اور شاید خلیفہ کے خلاف تحریک چلانے والے ہیں۔ ہارون نے امام صاحب کو فی الفور بغداد بھیجنے کاحکم صادر کر دیا۔
جب امام صاحب کو ہارون الرشید کے دربار میں پیش کیا گیا تو چمڑے کے فرش پر بٹھا دیا گیا اور آپ کو شہید کر دینے کے لئے تلوار لائی گئی۔ اس وقت اس مرد جری نے ایسی پر درد تقریر کی کہ ہارون الرشید کانپ اٹھے۔ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے شاگرد امام محمد سے پوچھا: ”کیا ان کے خلاف شکایت درست ہے؟“ امام محمد نے فرمایا:”ان کے بارے میں جو شکایت کی گئی ہے وہ ان کی شان سے بعید ہے، علم میں ان کا مرتبہ بہت بلند ہے۔“
ہارون نے امام شافعی کے قتل کا حکم منسوخ کر کے آپ کو نظربند کر دیا۔ چند دنوں بعد کسی نے اہم شافعی کے ایک علمی مباحثہ کی تفصیل ہارون کے سامنے بیان کی۔ ہارون الرشید لیٹے ہوئے تھے۔ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔”ذرا پھر سے سناؤ۔“ سنانے والے نے علم و مباحثہ کی تفصیل دہرائی۔ ہارون الرشید نے فوراً امام شافعی کی رہائی کے احکامات جاری کر دیے۔
ایک بار ہارون الرشید نے امام صاحب کو بلوایا اور کہنے لگے کہ آج جب میرے دربار میں سب لوگ جمع ہوں تو آپ درس دیں۔ آپ نے نہایت موثر درس دیا۔ہارون کا حال یہ تھا کہ بھرے دربار میں چیخ چیخ کر رونے لگے۔ جب ذرا سنبھلے تو آپ کی خدمت میں پچاس ہزار درہم پیش کئے۔ آپ نے اسی وقت چالیس ہزار درہم نادار علماء، یتیموں، بیواؤں اور مساکین میں تقسیم کر دیے۔ کتنی ہی بار لوگوں نے آپ کی خدمت میں رقوم پیش کیں لیکن آپ نے ہمیشہ ان رقوم کا بڑا حصہ غریبوں میں تقسیم کر دیا۔ ہر بار غریبوں میں رقم بانٹنے کے بعد آپ اللہ سے دعا فرماتے: ”الٰہی! مجھے حرص دنیا سے ہمیشہ محفوظ رکھنا۔“
ایک بار عید کے دن گھر میں کھانے پینے کا مناسب سامان نہ تھا۔ اہلیہ نے آپ سے کہا:”آپ اپنی قوم کے ساتھ تو بڑی صلہ رحمی کرتے رہتے ہیں، آج عید ہے گھر میں سامان نہیں۔ کسی سے قرض ہی منگوا لیں۔“ آپ نے ایک شخص سے ستر دینار قرض منگوائے،راستے میں مساکین نے گھیر لیا۔ پچاس دینار ان میں بانٹ دیے،بیس دینار لے کر گھر پہنچے۔ ابھی اہلیہ کو رقم دینے نہ پائے تھے کہ کسی نے باہر سے آواز دی۔ آپ باہر تشریف لے گئے۔ ایک شخص منتظر تھا۔ اس نے رو رو کر اپنا حال سنایا اور مدد مانگی۔ امام صاحب نے بچے ہوئے بیس دینار اس کے سامنے رکھ دیے کہ جس قدر چاہے اٹھا لے۔ اس نے تمام دینار اٹھا لیے اور بولا۔ ”مجھے تو ابھی اور ضرورت ہے۔“
آپ گھر میں پہنچے، اہلیہ کو قصہ سنایا۔ اہلیہ نے ناراضگی سے کہا:”آپ یہی کرتے رہتے ہیں۔“ امام صاحب خاموشی کے ساتھ سو گئے۔ صبح ہوئی تو خلیفہ ہارون الرشید کے وزیر جعفر بن یحییٰ برمکی کا قاصد آیا اور بلا لے گیا۔ جعفر نے آپ کو بے حد تعظیم سے بٹھایا اور کہنے لگا:”آج رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا، وہ واقعہ آپ ہی سنا دیجئے۔“
امام صاحب نے واقعہ سنایا۔ جعفر نے بہت اصرار کر کے ایک ہزار دینار آپ کو پیش کئے۔
امام شافعی رات کا ایک تہائی حصہ نوافل، ذکر الٰہی اور توبہ استغفار میں صرف کرتے تھے۔ قرات اس قدر پر اثر تھی کہ جب آپ قرات فرماتے تو سننے والے روپڑتے۔
رات کی تاریکی میں چراغ بجھا کر غور و فکر کیا کرتے۔ آپ کا خیال تھا کہ چراغ کی روشنی میں خیالات یکسو نہیں رہتے۔ تصنیف و تالیف کا زیادہ تر کام مسجد میں کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر دوسروں کی کتابوں سے بھی مدد لیتے اور ان کے مواد کوپرکھتے۔
امام شافعی نے مختصر مدت اور خصوصاً آخری عمر میں کثرت سے لکھا اور املا بھی کروایا۔ حافظ ابن حجر کے مطابق امام صاحب نے مصر میں چار سال قیام کیا اور اس دوران میں ڈیڑھ ہزار اوراق (تین ہزار صفحات) املا کروائے۔ امام صاحب اپنی کتابوں پر نظرثانی بھی کرتے تھے۔ بعد کے دور میں آپ نے اپنی کئی کتب پر نظر ثانی کر کے ان میں ترامیم اور اضافے کئے۔
امام البیہقی کے مطابق امام شافعی کی تصانیف میں تین خوبیاں ہیں:
حسن ترتیب، مسائل کی تشریح میں دلائل، ایجاز اور اختصار۔
آپ اپنے شاگردوں کو املا کرواتے رہتے تھے۔ اس طرح کئی کتب تیار ہو گئیں جنہیں آپ کی ایک کتاب ”کتاب الام“ میں شامل کر دیا گیا۔ یہ کتاب چار ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کی سات جلدیں ہیں اور اسے قاہرہ سے 1325ھ / 1907ء میں شائع کیا گیا۔ آپ کی ایک اور کتاب ”الرسالہ“ بہت مشہور ہے۔ اس میں اصول فقہ بیان کئے گئے ہیں۔ امام شافعی کی تصانیف کی تعداد ایک سو تیرہ ہے۔
امام شافعی البتہ امام حنیفہ کے شاگرد امام محمد بن الحسن الشیبانی (م189ھ /805ء) سے بہت متاثر تھے، ان کی کتابیں امام شافعی نے اپنے لئے نقل کی تھیں۔ اس موقع پر امام شافعی نے اپنے لئے فقہ کے شعبہ کا انتخاب کیا۔ وہ 188ھ/804ء میں حران اور شام سے ہوتے ہوئے مکہ مکرمہ چلے گئے۔ بیت اللہ میں درس دینا شروع کیا۔195ھ /۸۸۱ء میں وہ بغداد چلے آئے۔ یہاں حلقہ درس قائم کیا۔
امام صاحب نے اہل حدیث اور اہل الرائے (یعنی اہل فقہ) کے درمیان اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح ان میں ذہنی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ آپ کے شاگردوں میں المزنی (م 264ھ) البویطی (م 231ھ) امام احمد بن حنبل (م 241ھ) اور کئی دیگر نامور فقہاء بھی شامل ہیں۔
198ھ /831ء میں امام صاحب مصر تشریف لے گئے۔ فسطاط میں 30 رجب 204ھ /20 جنوری820 ء کو عصر کے وقت آپ کی طبیعت بگڑ گئی عشاء کی نماز ادا کی اور گڑ گڑا کر دعا مانگی۔ دعا سے فارغ ہو کر لیٹے ہی تھے کہ اللہ نے اپنے پیارے بندے کو اپنے پاس بلا لیا۔
آپ کو قاہرہ کے باہر قرافتہ الصغریٰ کے قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ آپ کا مزار آج بھی قائم ہے۔ بعد میں مرقد امام کے مقابل، صلاح الدین ایوبی نے بہت بڑا مدرسہ تعمیر کروایا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top