skip to Main Content

شاہی سواری

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”۔۔۔ل سے لٹو، م سے مرغا، ن سے نارنگی، وسے ورق، ہ سے۔۔۔“
”ہاتی۔!“ ننھے فرخ نے اچھل کر، ماہ رخ سے پہلے ہی جواب دے دیا۔ کمرے میں موجود امی جان، ماہ رخ، ماموں جان اور ممانی جان، سب ہی ہنس پڑے۔
”ہاتی نہیں ہا۔۔ تھی!“ ماہ رخ نے اصلاح کی۔
”ہا۔۔ تی“ فرخ نے اپنی توتلی زبان میں درست جواب دیا۔
ماہ رخ، اردو کا قاعدہ سنبھالے ننھے فرخ کو حروف تہجی کی پہچان کروا رہی تھی۔ فرخ کو بعض حروف کے بارے میں یاد نہ تھا کہ ان سے کون سا لفظ بنتا ہے۔لیکن جیسے ہی ماہ رخ”ہ“ پرپہنچی، فرخ نے اچھل کر کہا: ”ہاتی!“
”ماموں جان۔“ ماہ رخ نے سلمان صاحب کو مخاطب کیا۔
”اس وقت نہیں، رات میں عشاء کے بعد!“ سلمان صاحب نے اطمینان سے جواب دیا۔
”ارے!“ ماہ رخ حیران رہ گئی۔”آپ کو کیا معلوم، میں کون سی بات کرنے والی تھی۔“
”مجھے اچھی طرح معلوم ہے،تم ہاتھی کے بارے میں جاننا چاہتی ہو۔“
سلمان صاحب بولے:
”کمال ہے، ماموں جان، آپ تو میرے خیالات پڑھ لیتے ہیں۔ میں بالکل یہی فرمائش کرنے والی تھی۔“ماہ رخ مزید حیران ہو گئی۔
”دراصل ہم ہزاروں بچوں کو پڑھا چکے ہیں اس لیے خیالات پڑھنا بھی آ گیا ہے!“ سلمان صاحب نے جواب دیا: ”خیر، آج رات کو، ان شاء اللہ۔“
مغرب کی نماز کے بعد کھانا کھایا گیا، عشاء کی نماز کے بعد سلمان صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ماہ رخ نے انہیں یاد دلایا: ”ماموں جان!میں برتن دھو کر بس ابھی آئی۔“
چند منٹ بعد ماہ رخ ماموں جان کے کمرے میں موجود تھی۔ سلمان صاحب نے کہنا شروع کیا:
”بیٹے، ہاتھی بڑا قدیم جانور ہے۔ بڑے جسم اور خوب طاقت والاجانور۔ اس کی طاقت کو انسان نے مختلف کاموں میں استعمال کیا ہے۔ کئی جنگوں میں بھی ہاتھی کو شامل کیا گیا، لیکن انسان جب اس غلط فہمی کا شکار ہوا کہ اس کے پاس بہت سے ہاتھی ہیں اور اسے کوئی شکست نہیں دے سکتا تو اللہ نے اس کو عبرت کا نمونہ بنا دیا تم نے ہاتھی والوں کا قصہ تو پڑھا ہو گا، جو اللہ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔“
”جی ہاں، ماموں جان، سورۃ الفیل، میں نے پڑھی ہے۔ یمن کے بادشاہ ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا اور وہ ہاتھیوں کا لشکر لے کر آیا تھا، لیکن اللہ نے ابابیلوں کے لشکر بھیجے، انھوں نے ابرہہ کے لشکر پر کنکریاں برسائیں اور انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح بنا دیا۔“
”شاباش! تم نے بالکل درست جواب دیا۔ اچھا، اب ہاتھی کے متعلق چند دلچسپ باتیں سنو۔ ہاتھی بڑا پرانا جانور ہے۔ پاکستان میں موئن جودڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے کئی ایسی نشانیاں ملی ہیں، جن سے علم ہوا کہ اُس زمانے میں بھی لوگ ہاتھی کو اپنے کاموں میں استعمال کرتے تھے۔“
”ماموں جان، ہاتھیوں کی کتنی قسمیں ہیں؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”آج کل ہاتھیوں کی دو قسمیں ہیں۔ افریقی ہاتھی اور ایشیائی ہاتھی۔ افریقی ہاتھی زیادہ بڑا اور وزنی ہوتا ہے۔ اس کے جسم کی لمبائی انیس سے چوبیس فٹ تک ہوتی ہے جب کہ ایشیائی ہاتھی کے جسم کی لمبائی سترہ سے اکیس فٹ تک ہوتی ہے۔ افریقی ہاتھی کی اونچائی بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہ دس سے بارہ فٹ بلند ہوتا ہے جب کہ ایشیا کا ہاتھی ساڑھے سات سے نوفٹ تک اونچا ہوتا ہے۔“
”ماموں جان، ہاتھی کا وزن تو ٹنوں میں ہوتا ہو گا۔“ ماہ رخ نے سوال کیا۔
”ہاں! افریقی ہاتھی کا وزن ساڑھے سات ٹن تک ہوسکتا ہے جبکہ ایشیائی ہاتھی کا وزن چارٹن تک ہوتا ہے۔ ویسے ان دونوں قسموں کے ہاتھیوں میں کچھ اور فرق بھی ہوتے ہیں، مثلاً افریقی ہاتھی کے کان بہت بڑے ہوتے ہیں جب کہ ایشیائی ہاتھی کے کان اتنے بڑے نہیں ہوتے۔ افریقی ہاتھی، چاہے نر ہو یا مادہ، اس کے دانت بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ ایشیائی ہاتھی کے تو دانت ہوتے ہیں مگر ایشیائی ہتھنی کے دانت نہیں ہوتے۔“
”ماموں جان، ہاتھی کی یہ دونوں قسمیں کہاں کہاں پائی جاتی ہیں؟“
”ایشیائی ہاتھی تو سری لنکا، میانمار یعنی برما، سماٹرا، ملائشیا، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش، چین، انڈونیشیا، کمپوچیا، لاؤس، تھائی لینڈ اور ویت نام میں پائے جاتے ہیں۔ افریقی ہاتھی، جنوبی اور مشرقی افریقہ اور ایتھوپیا اور صومالیہ میں ملتا ہے۔ خیر ہاتھی تو دونوں ہیں، دونوں کی سونڈ بھی ہوتی ہے، جو بڑی کام کی چیز ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”سونڈ، ہاتھی کی ناک بھی ہے اور ہاتھ بھی! اللہ نے اس بھاری بھر کم جانور کو سونڈ کی شکل میں بہت کارآمد عضو عطا فرمایا ہے۔ سونڈ سے ہاتھی زمین پر پڑی ہوئی گھاس کی ایک پتی، مونگ پھلی یا سکہ بھی اٹھا سکتا ہے اور لکڑی کے بھاری بھاری لٹھے بھی اٹھا کر چل سکتا ہے۔ سونڈ سے ہاتھی، کسی بھی چیز کو چھو کر محسوس کرتا ہے۔ اس سے یہ سانس لیتا ہے۔ جب یہ تیرتا ہے یا پانی میں غوطہ لگاتا ہے تو سونڈ کو پانی سے باہر رکھ کر سانس لیتا رہتا ہے۔ ہاتھی اپنی سونڈ میں چار سے پانچ گیلن یعنی اٹھارہ سے بائیس لیٹر پانی بھر لیتا ہے۔ وہ اس پانی کو اپنے جسم پر فوارے کی طرح چھڑک کر نہاتا ہے۔ اگر پانی پینا چاہے تو اسی پانی کو اپنے منہ میں انڈیل لیتا ہے۔“
”پھر تو یہ سونڈ بہت کام آنے والی شے ہوئی۔“ ماہ رخ حیرانی سے بولی۔
”ابھی تو سونڈ کا ذکر جاری ہے۔ سونڈ سے ہاتھی زرافے کی طرح اونچائی پر موجود بو بھی سونگھ سکتا ہے اور کسی شکاری کتے کی طرح زمین کو سونگھتا ہوا بھی چل سکتا ہے۔ سونڈ، درختوں کی شاخیں تو ڑنے اور نرم زمین میں سوراخ کرنے میں کام آتی ہے۔ سونڈ سے ہاتھی جانوروں کو ہلاک بھی کر سکتا ہے۔ سونڈ ہی سے ہاتھی کئی آوازیں نکالتا ہے۔ سونڈ کی مدد سے ہاتھی، رسی بھی کھول لیتا ہے۔“
”ماموں جان، ہاتھی کے دانت بہت قیمتی ہوتے ہیں؟“
”ہاں مگر دکھانے کے دانت! مشہور ہے کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ محاورہ ایسے وقت بولا جاتا ہے جب کوئی فرد ظاہر میں کچھ ہو اور اندر کچھ اور ہو۔ ہاتھی کے جو دانت نظر آ رہے ہوتے ہیں، یہی ’ہاتھی دانت‘ کہلاتے ہیں۔ یہ واقعی قیمتی ہوتے ہیں اور انسان انہی دانتوں کو حاصل کرنے کی غرض سے، بہت سے ہاتھیوں کو مار چکا ہے۔ ہاتھی دانت، ہاتھی کی ساری عمر بڑھتے رہتے ہیں۔ یہ لڑائی میں بھی کام آتے ہیں اور بھاری چیزیں اٹھانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان کی مدد سے ہاتھی، درخت بھی اکھاڑ لیتا ہے۔“
”یہ ہاتھی دانت بہت بھاری ہوتے ہیں؟“
”عام طور پر ایک ہاتھی دانت کا وزن پینتالیس (45) کلوگرام ہوتا ہے۔ لیکن سن انیس سو (1900ء) میں مغربی افریقہ کے ایک ہاتھی کے دانت کا وزن ایک سوسترہ کلوگرام تھا۔ اچھا، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاتھی جیسی غذا کھاتا ہے، اس کے دانتوں کا رنگ اسی کے مطابق ہو جاتا ہے۔ مثلاً کانگو کے جنگل میں پائے جانے والے ہاتھیوں کے دانت کھتئی رنگ کے ہوتے ہیں۔ بانس کے جنگل میں ملنے والے ہاتھیوں کے دانت گلابی ہوتے ہیں۔“
”ایک ہاتھی کے دو ہی دانت ہوتے ہیں؟“
”دکھانے کے دانت عام طور پر دوہی ہوتے ہیں لیکن کبھی کبھی چار، پانچ اور سات دانتوں والے ہاتھی بھی دیکھے گئے ہیں۔“
”اور کھانے کے دانت کتنے ہوتے ہیں؟“
”صرف دو عدد! لیکن یہ آپ کے دانتوں کی طرح ننھے منے نہیں ہوتے۔ ہاتھی کا ہر دانت کسی اینٹ کی طرح ایک فٹ طویل ہوتا ہے۔ جب ایک دانت گھس جاتا ہے تو اس کے پیچھے سے دوسرا دانت بڑا ہو کر اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ اس طرح ہاتھی کے چھے مرتبہ دانت نکلتے ہیں، پھر ہاتھی کے دانت نہیں نکلتے۔“
”ہاتھی کھاتا کیا ہے؟“
”پودے، گھاس، ٹہنیاں، جنگی پھل، بانس کی کونپلیں وغیرہ۔ ہاتھی کو کھانا اتنا پسند ہے کہ دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے اٹھارہ گھنٹے وہ خوراک تلاش کرنے اور اسے کھانے میں لگا رہتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاتھی جتنی خوراک کھاتا ہے، اس میں سے آدھی، ہضم ہوئے بغیر فضلے کی شکل میں اس کے جسم سے باہر نکل آتی ہے۔ ہاتھی پانی بھی خوب پیتا ہے۔ ایک دن میں تیس گیلن یعنی سوا سو لیٹر سے زیادہ پانی پی جاتا ہے اور خوراک کی تلاش میں وہ ایک رات میں پچاس میل دور تک جا سکتا ہے۔“
”ماموں جان، ہاتھی تو اتنا بھاری بھر کم ہوتا ہے، یہ اتنا فاصلہ کیسے طے کرتاہو گا؟“
”بھاری بھر کم ہونے کے باوجود ہاتھی کی رفتار خاصی ہوتی ہے۔ ایشیائی ہاتھی سولہ میل اور افریقی ہاتھی چوبیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے چل سکتا ہے۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ہاتھی اپنی پیٹھ پر زیادہ سے زیادہ چھے سو پونڈ بوجھ اٹھا سکتاہے لیکن سونڈ کے ذریعے سے بڑے بڑے بھاری لکڑی کے لٹھے کھینچ کر لے جاتا ہے۔ ہاتھی چھلانگ نہیں لگا سکتا۔ گہرا گڑھا راستے میں آئے تو رک جاتا ہے۔“
”پھر تو ہاتھی کے راستے میں نہر آ جائے تو وہ آگے جاہی نہیں سکے گا۔“
”نہیں! ہاتھی بہت اچھا تیراک ہوتا ہے۔ وہ کئی گھنٹے تک تیرتا ہوا دریا بھی پار کرجاتا ہے۔“
”ہاتھی، انسان کے کس طرح کام آتا ہے؟“
”بہت سے کام ہیں۔ ہاتھیوں سے بوجھ اٹھانے، لکڑی لے جانے، اور ماضی میں جنگوں میں لڑنے کے کام لیے جاتے رہے ہیں۔ پرانے زمانے میں ہاتھی شاہی سواری کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ مغل بادشاہ جہاں گیر کے پاس چودہ ہزار ہاتھی تھے۔ کچھ بادشاہ ہاتھی کو شکار کھیلنے میں استعمال کرتے تھے۔ تھائی لینڈ میں ہاتھی کی مدد سے ایک کھیل کھیلا جاتا ہے۔ ہاتھی، پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتا ہے۔ دلدل اور گھنے جنگلوں میں بھی گھستا چلا جاتا ہے، اس لیے ایسی جگہوں پر بہت کام آتا ہے۔“
”ماموں جان، ہاتھی اکیلا رہنا پسند کرتا ہے یا اپنے بھائی بہنوں کے ساتھ؟“
”ہاتھی، خاندان بنا کر رہتے ہیں۔ ایک خاندان میں دس سے لے کر پچاس تک ہاتھی ہوتے ہیں۔ ان کی سربراہ، سب سے بوڑھی ہتھنی ہوتی ہے۔ ہاتھی ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ کوئی ہاتھی بیمار ہو جائے تو اس کے ساتھی ہاتھی وہیں رک جاتے ہیں اور اس کے تندرست ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔“
”ماموں جان ہاتھی سوتا کس طرح ہے؟“
”ہاتھی کا بچہ تو دن رات میں پانچ گھنٹے تک سوتا ہے اور سونے کے لیے لیٹ بھی جاتا ہے لیکن بڑا ہو کر وہ دن رات میں صرف تین گھنٹے تک کھڑے کھڑے سو لیتا ہے۔۔۔ اچھا بھئی ہاتھی تو کھڑے کھڑے سو جاتا ہے، لیکن میں بیٹھے بیٹھے بھی نہیں سوسکتا۔ اب ہاتھی کی باتیں ختم۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ اس لیے اللہ حافظ۔“
”ماموں جان، آپ نے اتنی اچھی باتیں بتائیں جو میں کئی کتابیں پڑھ کر بھی حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ بہت بہت شکریہ۔ اللہ حافظ۔“ ماہ رخ کمرے کی بتی بجھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top