دور نہیں رہ سکتا
کاوش صدیقی
’’کرلے گا نامیر ابیٹا؟‘‘ بابا نے مجھ سے پوچھا۔
’’ جی میں کرلوں گا!‘‘ میں نے جواب دیا۔
بابا پھلوں کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ دن بھر میں اچھے خاصے پھل بک جاتے تھے۔ بڑی سڑک کے ایک تکونے حصے میں ہم لوگ کافی عرصے سے پھلوں کا ٹھیلا لگاتے تھے۔ بڑی سڑک کے اس تکونے حصے کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ یہاں پر لوگ گاڑی روک کے آرام سے پھل خرید سکتے تھے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے دائیں جانب بڑے بڑے گھروں اور بنگلوں کی آبادی تھی، جو عموماً روز ہی پھل خریدتے تھے، پھر چلتے پھرتے بہت سے لوگ بھی خریداری کرتے رہتے تھے۔ اس وجہ سے ہمارا کام بہت اچھا چل رہا تھا۔
بابا نے مجھ سے کہا تھا کہ اسٹیکر لگا دو۔ یہ اسٹیکر ہمیں پھل والے منڈی میں دے دیتے تھے جو ہم استعمال کرتے تھے۔
اکثر آپ نے سیب ،تر بوز، خربوزے، آم وغیرہ پر ایک چھوٹا سارنگین کاغذ چپکا ہوا د یکھا ہوگا۔ جس پر پھل کے بڑے بیو پاری اپنا نام چھاپ دیتے ہیں۔ اکثر لوگ یہ اسٹیکر نہ تو پڑھتے ہیں اور نہ ہی دیکھتے ہیں اور یہ اسٹیکر پھل کو دھونے یا کاٹنے میں ضائع ہو جاتاہے ، مگر یہ اسٹیکر بہت کام کا ہوتا ہے۔جن سیبوں، آم یا خربوزوںوغیرہ میں کوئی داغ، دھبا یا سوراخ ہو، یہ اسٹیکراس کے اوپر لگا یا جاتا ہے، جس سے اس کا داغ چھپ جاتا ہے۔ اصل میں زیادہ تر یہ اسٹیکر اسی کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
اب آپ ذرا سوچیں…
چمکتا ہوا لال لال سیب جسے دیکھتے ہی کھانے کو دل للچائے اور آپ کو اچانک اس میں سوراخ یا داغ نظر آئے تو کیا آپ خرید یں گے اور کھا ئیں گے؟
نہیں ، ہر گز نہیں!
مگر اس داغ یا سوراخ پر ایک چمکتا دمکتا اسٹیکر لگا ہوتو پھر تو آپ کویہ داغ اور سوراخ نظر نہیں آئے گا اور آپ فوراًخرید لیں گے۔ ہے نا!
اور مجھے انہی داغوں اور سوراخوں پر اسٹیکر لگانے تھے۔
میں اسٹیکر لگا ہی رہا تھا کہ ایک بڑی سی کار آکر رکی۔ اس کا شیشہ نیچے ہوا اور اس میں سے ایک صاحب نے آواز دی:
’’چاچا جی!یہ سیب کیا حساب ہیں؟‘‘
’’ایک سو نوے روپے کلو۔ دیکھیں، کیسے لال لال ہیں!‘‘ بابا نے فوراً آگے بڑھ کر کہا۔
وہ بولے:’’ تین کلوسیب دے دو اور وہ کینو؟‘‘
’’کینو اسی روپے در جن ہیں، آپ کو مزہ آ جائے گا۔‘‘ بابا نے فوراً کہا۔’’لے جائیں چار پانچ در جن۔ بچوں کے گھر میں تو پتا ہی نہیں چلتا۔‘‘
’’ہاں، یہ تو ہے!‘‘ کاروالے صاحب بولے۔ ’’چاردرجن دے دیں!‘‘
بابا نے جلدی سے سیب تو لے اور مجھے ایک شا پر پکڑا یا اور کہا:’’ اس میںگن کر اڑتالیس کینو ڈال دو۔‘‘
میں نے گن کر اڑتالیس کینو شاپر میں ڈالے۔ بابانے میرے ہاتھ سے شاپرلیا اور بولے:’’ صاحب !یہ دو کینو مزید ڈال رہا ہوں اپنی طرف سے بچوں کے لیے۔‘‘
’’اچھا شکر یہ!‘‘ وہ صاحب ہنسے اور بٹن دبا کر کار کی ڈگی کھول دی۔ میں نے دونوں شاپر ڈگی میں رکھ کر ڈگی بند کر دی۔ ان صاحب نے پیسے دیے اور گاڑی آگے بڑ ھادی۔
میں نے پوچھا: ’’با با آپ نے دو کینوز یاد ہ دے دیے، کیا آپ کے خیال میں ،میں نے گنتی صحیح نہیں کی تھی؟‘‘
بابا نے کہا: ’’نہیں، گنتی تو تم ٹھیک کرتے ہو، لیکن جب گاہک ہماری مرضی کے پیسے دے رہاہو اور نرخ پر بحث نہ کرے اور ہمیں اچھی بچت بھی ہورہی ہو تو دو ایک دانے زیادہ دینے سے گاہک خوش ہو جاتے ہیں اور پھردوسری مرتبہ بھی ہمارے پاس ہی آتے ہیں۔‘‘ بابا نے مجھے سمجھایا۔
’’جی۔‘‘ میں نے کہا اور اسٹیکرلگانے لگا۔
کچھ دنوں میں آم کا موسم آ گیا اور ہم آم سجانے لگے۔پیلے پیلے سلیقے سے لگے ہوئے آم دور ہی سے گاہک کو کہتے:’’ آئو،آئو، ہمیں لے جاؤ۔‘‘
اور لوگ مزے سے خرید تے۔
ہم لوگ پھلوں کو کپڑے سے صاف کرتے جس پر ہلکا سا سرسوں کا تیل لگاہوتا۔ اس سے پھل اوپر سے صاف اور چمک دار ہو جاتے اور دور ہی سے گا ہکوںکو کہتے:’’آئیے،ہمیں کھائیے۔‘‘
آموں کے ساتھ ساتھ ہی تربوزوں کا موسم آ گیا۔ ہم ایک ٹرک تربوز آرام سے ہفتے بھر میں بیچ لیتے تھے۔
تربوز کے بارے میں بھی لوگ بابا پر بھروسا کرتے تھے۔
لوگ پوچھتے: ’’ چاچا جی!یہ میٹھا ہے نا؟‘‘
’’میٹھا!‘‘ بابا سوچتے، پھر ایک تربوز اٹھاتے،تھپتھپاتے اور رکھ دیتے، پھر دوسرا تیسرا اٹھاتے، تھپتھپاتے اور کہتے:’’ نہیں، بھئی نہیں۔‘‘ پھر پانچواں تربوز اٹھاتے ، تھپتھپاتے اور کہتے:’’ ہاں یہ لیں، مل گیا۔‘‘
یہ تربوز وزن میںچار کلو سے کم نہ ہوتا۔
گاہک خوشی خوشی لے جاتا۔
بعض گاہک کہتے:’’ میٹھا ہوگا، پکی بات ہے نا!‘‘
بابا کہتے:’’ ابھی چیک کرواتا ہوں !‘‘وہ چھری سے فوراً ایک چھوٹا سا چوکورٹکڑا کاٹ کرگاہک کو دیتے۔’’یہ لیں، چیک کر لیں۔ُُ
’’واقعی! یہ تومیٹھا ہے۔‘‘ گاہک فوراً چکھتے ہوئے سر ہلاتا۔’’ یہ تول دیں۔‘‘
اب آپ کو راز کی بات بتاؤں، بابا جس پانی میں چھری صاف کرتے وہ پانی سکرین ملا ہو تا، جو چھری میں لگ کر تر بوز کو میٹھا کر دیتا۔
ہاں تو ہمارا کام بہت اچھا چل رہاتھا۔
کئی بار ہمارے رشتے داروں نے کہا :’’ٹھیلے سے اتنا کمارہے ہو۔ گرمی سردی ہوتی ہے، دکان لے لو۔‘‘
بابا کہتے :’’نا بھائی نا! میں دکان نہیں لوں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ میں نے پو چھا۔’’ بابا آپ دکان لینا کیوں نہیں چاہتے؟‘‘
’’یار! کون دکان کھو لے، کر ایہ دے ،ٹیکس دے۔ بس ٹھیلا ہی صحیح ہے، نہ ٹیکس کا چکر، نہ گاہک کی توتو میں میں!
’’کیا مطلب؟‘‘ میں نے حیرت سے پو چھا۔’’ کیا دکان سے کاہک ناراض ہو جائیں گے؟‘‘
’’نہیں یار!‘‘ بابا نے مجھے سمجھایا۔’’ٹھیلے والے کو لوگ محنتی سمجھتے ہیں کہ دیکھو بے چارہ گرمی سردی، بارش میں ٹھیلا لے کر کھڑا ہے۔ چلو پھل بھی خریدلیں گے اور مدد بھی ہو جائے گی۔‘‘ بابا نے بتایا۔’’ جب کہ لوگ دکان دار کو مزے سے بیٹھ کر منافع کمانے والا سمجھتے ہیں۔‘‘
مجھے بہت خیر نہ ہوئی مگر میں چپ رہا۔ میر ے بابا بہت سمجھ دار تھے۔
جمعے کے دن ہماری بکری بہت ہوتی تھی، کیوں کہ جامع مسجد ہم سے تھوڑی ہی دور تھی اور لوگ جب نماز کے بعد باہر نکلتے تو پھل ضرور خریدتے۔
بابا خود تو نمازنہیں پڑھتے تھے مگر مجھے نماز کے لیے ضرور بھیجتے تھے۔
مسجد کے مولانا صاحب بہت میٹھے انداز میں دین کی باتیں بتاتے تھے۔ ان کی باتیں بہت آسان ہوتی تھیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ بہت عام سی باتیں بتاتے تھے جنھیں سن کر حیرت ہوتی تھی کہ اچھا !اس طرح سے ہمیں اپنے پیارے نبیﷺ کی سنت کے مطابق چلنا چاہیے!
مثلاً ایک مرتبہ انھوں نے کہا:’’ دیکھیے بھا ئیو! مسلمان کا ہرعمل عبادت بن سکتا ہے ایک ذرا سی تو جہ سے!‘‘
ان کی یہ بات سن کر مجھ سمیت بہت سے لوگ انھیں حیرت سے دیکھنے لگے۔
انھوں نے کہا:’’ کھانا کون نہیں کھا تا۔ ہم سب کھاتے ہیں! کیوں کہ کھائے بغیر ہم رہ نہیں سکتے۔‘‘
’’ جی ہاں ، جی ہاں!‘‘ سب نے تائید کی۔
مولا نا صاحب بولے: ’’ہاں تو عبادت شروع، کیسے؟ میں سمجھا تا ہوں۔ کھانا آیا، گرما گرم، بھاپ اڑاتا ہوا۔ سالن ہے، چاول ہیں، روٹی ہے، سلاد ہے، ٹھنڈا پانی ہے اور لوجی، ہم نے بسم اللہ پڑھی اور کھاناشروع کر دیا۔
مگرا بھی یہ عبادت نہیں، صرف کھانا ہے۔‘‘
مولا نا صاحب ذرا ر کے۔ لوگوں کی طرف دیکھا، سب ان کی طرف ہی متوجہ تھے۔ وہ دوبارہ بولے:
’’ہاں تو بسم اللہ پڑھی، نوالہ اٹھایا،مگر ٹھہریے۔ ہمیں صرف کھانا نہیں کھانا،عبادت کرنی ہے، لہٰذا اب ہم یہ نیت کر یں: یا اللہ پاک! مہر بان! عطا کرنے والے !یہ لذیذ مزے دار کھانا جوتو نے ہمیں عطا کیا ،ہم اس کھانے کو اس نیت سے کھا رہے ہیں کہ یہ ہضم ہو کر ہمیں طاقت اور قوت عطا کرے اور ہم اس طاقت سے پنج وقتہ نماز پڑھیں، تلاوت قرآن کر یں، خرید وفروخت کر یں اور دوسرے بھلائی کے کام کریں۔ لو جی، اب یہ کھانا، اس کا لقمہ لقمہ،ذرہ ذرہ، دانہ دانہ،سب با برکت بھی ہو گیا اور عبادت بھی ہو گیا۔‘‘
’’ماشاء اللہ! سبحان اللہ!‘‘
میں حیران رہ گیا۔ واقعی یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ کیا عبادت ایسے بھی ہوسکتی ہے؟
جمعے کے دن مسجد خوب بھری ہوئی ہوتی ہے۔ میں بھی جلدی سے وضو کر کے مسجد میں پہنچ گیا۔ مولا نا صاحب کہہ ر ہے تھے:
’’دوستو! آج ہم تجارت کے متعلق بات کریں گے۔ اپنے مال کو ایمان داری سے ، پورا وزن کرکے فروخت کرنا، مال کے عیب بتا کر دینا، یہ سنت ہے۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ تجارت کرتے تھے اور اپنے مال کی حالت سے گاہک کو آ گاہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺکی سچائی اور ایمان داری کے باعث لوگ ہمیشہ آپ ﷺ سے خریداری کرتے تھے۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، جامع ترمذی میں ہے کہ’’ سچا اور امانت دار تاجر، قیامت میں انبیا ،صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوگا۔‘‘
مولانا صاحب کے یہ جملے میرے دماغ میں بیٹھ گئے۔ میں نماز کے بعد واپس آیا تو گا ہکوں کی ایک بھیڑ ٹھیلے کے گرد جمع تھی اور بابا کافی پھرتی سے پھل تول تول کر گا ہکوں کو تھمار ہے تھے۔
مجھے دیکھ کر بابا خوش ہو گئے۔ انھوں نے کہا :’’آجاؤ بیٹا! جلدی سے شاپرمیں آم ڈال دو۔‘‘
میں آم نکالنے لگا۔
آدھا پونا گھنٹہ اسی میں نکل گیا۔ گا ہک چلے گئے اور رش ختم ہو گیا۔
بابا نے کہا:’’ اب ذرا جلدی سے اسٹیکر لگا دو۔ ‘‘
’’اچھا۔‘‘ میں اسٹیکر لے کر سوچ میں پڑ گیا۔
بابا نے مجھے دیکھا تو بولے: ’’کیا بات ہے؟خیر تو ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کچھ توہے۔‘‘بابانے مسکرا کر پو چھا اور کرتے کے دامن سے ہاتھ پونچھتے ہوئے میرے پا س آگئے۔
میں نے پوچھا:’’ با باہمارے نبی ﷺ نے ہمیشہ سچ کہا ہے نا؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ بابا نے جلدی سے کہا۔ ’’اس میں تو کوئی شک ہی نہیں۔ کافر بھی آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دیتے تھے۔‘‘
’’تو پھر؟‘‘ میں نے انھیں دیکھا۔
’’تو پھر کیا؟‘‘ بابا نے مجھے دیکھا اور پوچھا۔’’ بات کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا:’’ آج مولوی صاحب نے بتایا ہے کہ سچا اور امانت دار تاجرانبیا ،صدیقین اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا۔‘‘
’’ہاں، مولانا صاحب بھی جھوٹ نہیں بولتے۔ـ ‘‘ بابا نے کہا۔
’’ تو پھر بابا! قیامت کے دن جب ہمارے پیارے نبیﷺ کھڑے ہوں گے۔ ان کے ساتھ ان کے خلفاء اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کھڑے ہوں گے۔ شہیدان جنگ بدر اور احد بھی ہوں گے، دوسرے شہدا اور ایمان دار تا جر بھی کھڑے ہوں گے تو کیا ہم بھی ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟‘‘
بابا نے مجھے حیرت سے دیکھا :’’کیا مطلب !تم کہنا کیا چاہ ر ہے ہو؟‘‘
میں نے کہا :’’بابا! ہمیں تو ان کے پاس نہیں جانے دیا جائے گا۔‘‘
’’ کیوں نہیں جانے دیا جائے گا؟‘‘بابا نے غصے سے کہا۔’’ کیا ہم سارادن خرید وفروخت نہیں کرتے ،دھوپ میں کھڑے نہیں ہوتے!‘‘
’’ہاں بابا!‘‘ میں نے کہا۔’’ مگر…!‘‘
’’مگر کیا؟‘‘ بابا نے تیزی سے پوچھا۔
’’بابا ہم تجارت کرتے ہیں مگر سچے اور ایمان دارنہیں ہیں۔ ہم اسٹیکر لگا کر سوراخ اور دھبے چھپا دیتے ہیں۔ رنگ والی لیچیاں بیچتے ہیں۔ سکر ین والے خربوزے بیچتے ہیں۔ ہم اپنے نبی ﷺ کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے ۔ہمیں ہمارے نبی سے علیحدہ کر دیا جائے گا۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسوآگئے۔
بابا نے مجھے غور سے دیکھا، پھر آہستہ سے بولے۔’’ ہاں یار، یہ تو صحیح ہے۔ مجھے تو ان کے سامنے اتنی شرم آئے گی کہ میں تو مر جاؤں گا!‘‘
’’مگر بابا! وہاں تو موت ہوگی ہی نہیں۔بس شرمندگی ہی شرمندگی ہوگی۔‘‘
اچانک بابا اٹھے۔ انھوں نے اسٹیکر کا ڈبا اٹھا کر کچرے میں ڈال دیا۔سکرین والا پانی زمین پر گرا یا اور کہنے لگے:
’’میں اپنے نبی ﷺ سے دور نہیں رہ سکتا!‘‘
انھوں نے مجھے گلے سے لگا لیا اور رونے لگے۔
ہم نے اسٹیکر لگانابند کرد یے، سکرین استعمال کرنا بند کر دی، مگر عجیب بات ہوئی۔ ہمارے پھل پہلے سے زیادہ بکنے لگے۔
پیارے دوستو! آپ بھی سنتوں پر عمل کر کے دیکھیں، سب کچھ بدل جائے گا اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہمیشہ ساتھ مل جائے گا۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے