skip to Main Content

جادو ۔ کاوش صدیقی

کاوش صدیقی

’’نوکری نہیں ملی تو پھر بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘ ابو نے امی سے کہا۔
’’پریشان نہ ہوں، اللہ بہتر کرے گا۔‘‘ امی نے ابوکوتسلی دیتے ہوئے جواب دیا۔
’’ ہاں، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ اب تک اللہ نے ہی کرم کیا ہے، آگے بھی کر دے گا۔‘‘ابو بولے۔
’’بس بندہ ہوں نا، پریشان ہو جا تا ہوں۔ پھر جنید کی فیس، نادیہ کا یونیفارم، بجلی کابل…‘‘
’’سب ہو جائے گا، اللہ کریم ہے۔‘‘ امی ہمیشہ کی طرح ہر حال میں مطمئن رہتی تھیں،ابوخاموش رہے۔
میں اندر لیٹا ہوا تمام باتیں سن رہا تھا، میں نویں جماعت میں تھا اور ناد یہ ساتویں جماعت میں… ابو ایک فیکٹری میں کلرک تھے اور ڈیوٹی کے علاوہ اوور ٹائم بھی کرتے تھے۔ مگر آج کل کے لاک ڈائون کی وجہ سے فیکٹری میں کام بہت ہی کم تھا، اس لیے ابو کی پریشانی بڑھتی ہی جارہی تھی۔
رات کے 10 بج رہے تھے۔ ٹیچر نے کہا تھا کہ کل فیس لازمی لانا، میں ابو کے انتظار میں جاگ رہا تھا کہ ان سے فیس کی بات کروں گا مگر ابو اور امی کی باتیں سن کر میں نے ابو سے بات کرنے کا خیال ملتوی کر دیا۔
’’جب کوئی معاملہ حل نہ ہورہا ہوتو پھر بے کار پریشان ہونے سے فائدہ؟ کل جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔‘‘ میں نے سوچا اور کروٹ بدل لی۔

۔۔۔

دوسرے دن ٹیچر نہیں آئے،اسکول میں محکمہ تعلیم کی طرف سے معائنے کے لیے کوئی ٹیم آرہی تھی اس لیے سب اسی میں مگن تھے۔ چھٹی کے وقت میں نے اسد سے کہا:
’’تم چل ر ہے ہو یا اپنی وین کا انتظار کرو گے؟‘‘
’’چلو! تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ اسد نے کہا اور اچک کے میرے پیچھے سائیکل پر بیٹھ گیا۔ ابھی ہم نے اسکول کی سڑک سے دائیں جانب موڑ لیا ہی تھا کہ اچا نک اسد نے زور سے کہا:
’’ار ے وہ دیکھو!‘‘
’’ کیا ہے؟‘‘ میں نے پیڈل مارتے ہوئے پوچھا۔
’’ارے یار… وہ بلڈنگ دیکھو، سامنے سے ہی کتابیں دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘
میں نے چونک کے سائیکل روک لی،اسد جھٹکے سے نیچے اتر گیا۔
’’ار ے یار… آرام سے روکنا تھانا…‘‘
مگر میں اس بلڈنگ کو دیکھ رہا تھا جس کا آج پہلی بار گیٹ کھلا دکھائی دے ر ہا تھا اور اندر کا منظر واضح دکھائی دے ر ہا تھا۔
یہ ایک پرانی وضع کی سیاہی مائل پتھروں کی بلڈنگ تھی جس کا اندرونی دروازہ سیاہ رنگ کی مضبوط لکڑی کا بنا ہوا تھا، آ گے سیڑھی بنی تھی جو لکڑی کی ہی معلوم ہوتی تھی…اور سب سے عجیب چیز دروازے سے اندر دکھائی دینے والی الماریاں تھیں جن میں اوپر سے نیچے تک کتابیں ہی کتا بیں بھری ہوئی تھیں ۔ کیا یہ ایک پرانی لائبریری تھی؟
’’یار! یہ تولائبریری ہے۔ اب مزہ آئے گا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’ تو کیا ہوا؟ کتا بیں ہی تو ہیں …کوئی کھانے کی چیز یں تو نہیں جو مزہ آئے گا۔‘‘ اسدنے حیرت سے پوچھا۔
’’یار! تمہیں کتابیں پڑھنے کی عادت جو نہیں، اس لیے تم کیا جانو؟‘‘ میں نے ہنس کے کہا اور ذرا آگے بڑھا۔ میں نے دیکھا، وہاں ایک کتبے پر لکھا ہوا تھا:
’’چوکی دار کی ضرورت ہے ،معقول تنخواہ اور رہائش کی سہولت…‘‘
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔
اسد نے پوچھا: ’’کیا تلاش کر رہے ہو؟‘‘
’’ تم ذراٹھہرو، میں ابھی آتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا اور سائیکل اسد کوتھما کر بلڈنگ کے اندرونی حصے میں داخل ہو گیا۔
لائبریری کے دروازے کے پاس جا کے میں نے دیکھا، وہاں دروازے کے ساتھ دائیں بائیں طاقچے سے بنے ہوئے تھے جن میں شمع دان رکھے تھے، شاید رات میں بجلی نہیں ہوتی تھی یا پھر پرانے وقتوں میں اس میں لیمپ جلائے جاتے تھے۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ اچانک کسی نے مجھے مخاطب کیا۔
میں نے دیکھا، ایک ساٹھ پینسٹھ سال کا بوڑھا سا آدمی پینٹ شرٹ پہنے مجھے دیکھ ر ہاتھا۔
’’وہ…‘‘میں نے کاغذ کے گتے کی جانب اشارہ کیا۔’’وہاں چوکی دار کے لیے لکھا ہے…‘‘
’’ ہاں تو پھر… تم چو کی داری کرو گے؟‘‘
’’نہیں… میرے ابو۔ مگر کیا تنخواہ ملے گی؟‘‘ میں نے فوراً ہی پوچھا۔
بوڑھے نے مجھے غور سے دیکھا اور پھر بولا:
’’تیس ہزار روپے اور ہائش فری۔ پیچھے کوارٹر ہے، وہاں رہنا ہوگا۔‘‘
’’تیس ہزار…!‘‘ میں نے زیرلب د ہرایا۔ ابوکو تو تنخواہ چودہ ہزار ملتی اور چار چھ ہزارروپے کا اور ٹائم،اور یہاں چوکی دار کی تنخواہ تیس ہزار!
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ بوڑھے نے مجھے مخاطب کیا۔
’’کیا میں اپنے ابوکو لے آؤں؟‘‘ میں نے سوال کیا۔
’’ہاں لے آؤ، ہمیں چوکی دار کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اور…‘‘ میں نے کہا اور رک گیا۔
’’اور کیا…؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا اور مجھے گھورنے لگا۔
’’یہ…یہ…لائبریری ہے؟‘‘
’’ہاں تو پھر…؟‘‘
’’یہ کس کی ہے؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ بوڑھے نے کہا۔’’میرا گھر ہے، میری لائبریری ہے۔ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ یہ عام لائبریری نہیں ہے۔ بہت قیمتی کتا بیں ہیں۔‘‘
’’میں تو بس یہ کہہ رہا تھا کہ اگر ابو کو یہاں نوکری مل جائے تو کیا میں کتابیں پڑھ سکتا ہوں؟‘‘
’’تم…‘‘اچانک بوڑھے کی آنکھوں میں دلچسپی کی چمک پیدا ہوئی۔ ’’ کیا تمہیں کتابیں پڑ ھنے کا شوق ہے؟‘‘
’’بہت مگر…‘‘میں کہتے کہتے چپ ہو گیا۔
’’مگر کیا؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا۔
’’یہاں کوئی لائبر یری نہیں اور اسکول والے کتا بیں دیتے ہی نہیں، بس الماری میں لاک کیے رکھتے ہیں۔‘‘
’اچھا!‘‘ بوڑ ھا سر ہلا کے بولا۔ کتابیں پڑھنا تو اچھی بات ہے مگر اس کے لیے ایک شرط ہے۔‘‘
’’وہ کیا؟ ‘‘میں نے بے تابی سے پو چھا۔’’تمہیں لائبریری کی صفائی ستھرائی کرنا ہوگی۔ اور جو بھی پڑھنا ہو گا، وہ لائبریری میں
بیٹھ کر ہی پڑھنا ہوگا۔
’’منظور!‘‘ میں نے اس کی بات سنتے ہی زور سے سر ہلایا اور کہا:’’ میں جاتا ہوں اور اپنے ابو کو لے کر آتا ہوں۔‘‘
بوڑھے نے سر کے اشارے سے ’’ہاں‘‘ کہا اور اندرونی دروازہ سے کی طرف بڑھ گیا۔ میں تیزی سے چلتا ہوا باہر اسد کے پاس آ گیا۔
’’اتنی دیر لگادی۔‘‘ اسد نے شکوہ کیا۔
’’کوئی بات نہیں، کام بن گیا۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا اور سائیکل چلانے لگا۔
اسد راستے میں اتر گیا اور میں گھر پہنچ گیا۔
ابو گھر میں ہی تھے۔ آج کل وہ ایک دن چھوڑ کے ایک دن جاتے تھے۔ میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی بلند آواز میں سب کو سلام کیا اور سیدھا ابو کے پاس جا کے بیٹھ گیا۔ ابو نے میرے چہرے کی طرف دیکھا اور بولے:
’’خیر تو ہے، کوئی خبر ہے کیا؟‘‘
’’ ہاں جی… ‘‘میں نے کہا۔
’’ آپ کوز بر دست خوش خبری سناتا ہوں۔‘‘
’’پہلے منہ ہاتھ دھولو، کھانا کھا لو۔‘‘ امی نے مخاطب کیا۔
’’پہلے سن تو لیں۔‘‘ میں نے کہا اور تیزی سے بولنا شروع کر دیا، اور چند ہی لمحوں میںساری بات بتادی۔
’’تیس ہزار !‘‘ ابواورامی کو تنخواہ کی بات عجیب لگی۔
’’ کیا یہ بہت زیاد نہیں؟‘‘ امی کے انداز میں تعجب تھا۔
’’چوکی داری کا مطلب ہے 24 گھنٹے، جبھی تو رہائش دے رہے ہیں تا کہ رات اور دن کے چوکی دارالگ الگ نہ رکھنا پڑ یں۔‘‘ ابو نے فوراً ہی حساب لگا لیا۔
’’دیکھنے اور ملنے میں کیا حرج ہے؟ اللہ تعالیٰ ہی راستے لگاتے ہیں۔‘‘ ابو نے کہا۔
’’اور کیا…‘‘ میں نے تیزی سے کہا۔آپ ہی تو رات میں کہہ ر ہے تھے کہ اللہ کرم کرے گا، یہ اللہ کا کرم ہی تو ہے۔‘‘
’’ ٹھیک تو کہہ رہاہے جنید۔ ‘‘ابو نے کہا اور میری طرف دیکھ کے بولے: ’’کھانا کھالو، پھر دیکھنے چلتے ہیں۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ میں نے کہا اور کھانا کھانے کے لیے ہاتھ منہ دھونے چلا گیا۔
’’ا گر رہائش بھی ساتھ ہے تو پھر گھر کا کرایہ بھی بچ جائے گا اور بجلی کابل بھی۔‘‘ امی نے کہا۔
’’ دیکھتے ہیں، اللہ بہتری کرنے والا ہے۔‘‘ابو نے جواب دیا۔

۔۔۔

جس بوڑھے سے میں مل کے گیا تھا، ان کا نام ڈاکٹر مجیب تھا اور یہ گھر ان ہی کا تھا جو انگر یزوں کے دور کی حویلی تھی۔ وہ پہلے انگلینڈ چلے گئے تھے مگر اب واپس آ گئے تھے۔ ڈاکٹر مجیب نے ابو سے چندر سمی باتیں پوچھیں اور کہا:
’’آپ آج ہی یہاں اپنا سامان لے آئیں اور پچھلا کوارٹربھی دیکھ لیں۔ اگر وہاں کسی چیز کی ضرورت ہے تو بتادیں۔‘‘
ہم نے حویلی کی پچھلی جانب دیکھا۔ کوارٹر کیا تھا، اچھا خاصا تین کمروں کا گھر تھاجس میں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ بس آئو اور رہنا شروع کر دو۔ ابو کو کوارٹر بہت ہی پسند آیا۔
ہم لوگ دو تین دن میں وہاں شفٹ ہو گئے۔ امی اور نادیہ کو بھی گھر بہت اچھا لگا۔ حویلی میں پچھلی طرف اچھا خاصا باغ تھا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔
امی نے حسب معمول صبح اٹھتے ہی فجر کی نماز کے بعد تلاوت کی، پھر آیات شریفہ کا پانی دم کر کے ہم سب کو پلایا، پھر ناشتے کی تیاری میں لگ گئیں۔

۔۔۔

ابو اطمینان سے بڑے گیٹ کے پاس کرسی ڈالے بیٹھے رہتے۔ دن بڑے مزے سے گزرنے لگے۔ ڈاکٹر مجیب بھی باتیں کرنے اکثر چلے آتے۔
’’ ہاں بھئی، جنید! تم اپنا وعدہ بھول گئے۔‘‘ ڈاکٹر مجیب نے کہا۔
’’ کون ساوعدہ؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’لائبریری کی صفائی…‘‘
’’اور کتابیں پڑھنے کی اجازت بھی تو…؟‘‘ میں نے فوراً کہا۔
ڈاکٹر مجیب ہنسنے لگے اور مجھے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔
میں ان کے پیچھے پیچھے لائبریری میں چلا آیا۔ گول سا کمرہ جس میں نیچے سے اوپر تک الماریوں کے ریک بنے ہوئے تھے اور ان میں کتابیں ہی کتا بیں تھیں۔
’’یہ ساری کتابیں آپ نے خریدی ہیں؟‘‘ میں نے ایک ریک کو صاف کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ساری تو نہیں، ان میں کچھ میرے والد اور دادا نے خریدی تھیں۔ ہمارے ہاں سب کوکتابیں پڑھنے کا شوق ہے۔‘‘
’’ہاں جی۔۔۔ کتا بیں تو بڑی اچھی دوست ہوتی ہیں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ بھئی تم تو مزے کی باتیں کر تے ہو!‘‘ ڈاکٹر مجیب نے کہا۔
’’ تم ذرا صفائی کرو۔ یہ کئی دنوں کا کام ہے، اس لیے جلد بازی کی ضرورت نہیں۔ میں ذرااندر جار ہا ہوں۔‘‘
ڈاکٹر مجیب اندر کی طرف چلے گئے اور میں کتابیں دیکھنے لگا۔
اچانک مجھے ایک سیاہ جلد والی کتاب دکھائی دی،اس کی جلد میں عجیب سی چمک تھی اور او پر لکھا تھا:
’’طلسم عجائب۔‘‘
’’ہیں، یہ کیا؟‘‘ میں نے کتاب اٹھالی اور ورق گردانی کر نے لگا۔
کتاب کی عبارت بڑی پرانی اردو میں لکھی تھی، میں ایک صوفے پر بیٹھ کے غور سے دیکھنے لگا۔
مجھے کتابیں پڑھنے کی عادت تھی جس کی وجہ سے میری اردو بہت اچھی تھی۔ کتاب کی عبارت ذرا مشکل تھی۔ پھر اچانک مجھے کتاب میں ایک نوٹ ملا ،میں نے پڑھا۔۔۔ اس میں لکھا تھا:
’’صفحہ دو سو سینتالیس، عمل برائے حاضری و دولت۔‘‘
’’دولت ۔۔۔‘‘میرادل دھڑکنے لگا۔
اسی وقت مجھے آہٹ سنائی دی، میں نے جلدی سے کتاب بند کی اور اسے سائیڈ میں رکھ دیا۔ ڈاکٹر مجیب نے اندر والے کمرے سے جھانک کے پوچھا:
’’ کیا چل رہا ہے؟ اگر بھوک لگ رہی ہے تو جا کے کھانا کھالو۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ میں نے کہا اور اٹھ کھڑ اہوئے۔
میں نے گھر آ کے کھانا کھایا اور دو بار ہ لائبریری چل دیا۔ میں نے اندر جھانکا، ڈاکٹر مجیب کے کمرے کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ بے خبر سور ہے تھے۔ شاید انہیں دو پہر میں سونے کی عادت تھی۔ میں نے اطمینان سے صوفے پر بیٹھ کر وہی کتاب نکالی اور نوٹ پڑ ھنے لگا، لکھا تھا:
’’یہ عمل میں نے کیا تھا مگر مکمل نہ کر سکا۔ لیکن اس کے جواثرات میں نے پائے، وہ بہت عجیب وغریب تھے۔ میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ عمل بالکل سچا اور پکاہے، اور ایک رات میں ہی نتیجہ آ جا تا ہے۔۔۔ بشر ط یہ کہ انسان حوصلہ رکھے۔ پھر جو چاہے اور جتنی
چا ہے، دولت طلب کرے۔‘‘
میرادل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
دولت کا عمل، اپنی غربت کے خاتمے کا عمل۔۔۔ تو بہت آسان ہے۔ میں نے کتاب کا صفحہ دو سوسینتالیس کھولا، وہاں عمل موجود تھا جس کو رات میں 140 مرتبہ پڑھنا تھا اور پھر جو سامنے آئے،اس سے دولت کا تقاضا کرنا تھا۔ میں نے وہ عمل پڑھا، خاصی مشکل سی عبارت تھی۔۔۔ میں نے اٹک اٹک کے پڑھ ہی لی۔
’’یہ تو میں آج ہی کرلوں گا۔‘‘ میں نے خود سے کہا اور کتاب ایک طرف رکھ دی، پھرکتابوں کی جھاڑ پونچھ میں لگ گیا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر مجیب بھی آگئے اور مجھے کام میںلگا دیکھ کے بہت خوش ہوئے۔
’’واہ نو جوان !تم تو وعدے کے پکے ہو۔‘‘ انہوں نے میرے کام کی تعریف کی۔
’’ میری عادت ہے کہ میں جو کام شروع کروں تو پھر میں اس وقت تک چین سے نہیںبیٹھتا جب تک اسے ختم نہ کرلوں۔‘‘
’’یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔‘‘
’’اگر آپ اجازت دیں تو میں ایک بات کہوں۔‘‘ میں نے دھڑ کتے دل سے کہا۔
’’ کہو! کیا بات ہے؟‘‘ ڈاکٹر مجیب ایک کتاب کی ورق گردانی کر تے ہوئے بولے۔
’’اگر آپ اجازت دیں تو کیا میں یہاں رات دیر تک صفائی کر لوں۔ صبح اسکول کی چھٹی ہے، اس لیے اطمینان سے اٹھ جاؤں گا۔‘‘
’’کوئی مسئلہ نہیں، اپنے ابو سے اجازت لے لو۔‘‘ ڈاکٹر مجیب نے لا پروائی سے کہا۔
’’ میں پو چھ لوں گا۔‘‘ میر ادل بلیوں اچھلنے لگا، مجھے ہر طرف نوٹ ہی نوٹ ناچتے دکھائی دینے لگے۔
’’ کیا بات ہے۔۔۔ بڑے خوش ہو؟‘‘ ڈاکٹر مجیب نے پوچھا۔
’’جب لائبریری چمک جائے گی تو پھر مجھے انعام بھی تو ملے گا۔‘‘ میں نے جلدی سے بات بنائی۔
’’ ہاں… ہاں، بالکل۔‘‘ ڈاکٹر مجیب نے مسکرا کے کہا اور کتاب پر جھک گئے۔ میں جھاڑ پونچھ کر نے لگا۔‘‘
عشاء کے بعد کھانا کھا کے میں واپس لائبریری میں چلا آیا۔ کیوں کہ اب گھر کے ہی ایک حصے میں کام کر نا تھا اس لیے امی ابو نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔
میں تھوڑی دیر کام کرتا رہا، پھر ڈاکٹر مجیب اپنے کمرے میں چلے گئے اور دروازہ بند کر لیا۔ میں کام میں لگا رہا اور بار بار گھڑی میں دیکھتا رہا۔
ساڑ ھے دس بجے میں نے جا کر ڈاکٹر مجیب کے کمرے کے دروازے سے کان لگائے۔ اندر سے خراٹوں کی آواز آرہی تھی۔ یقینی طور پر ڈاکٹر مجیب سو چکے تھے۔
میں نے جلدی سے آ کے کمرے کے وسط میں خالی جگہ پر ایک کپڑا بچھایا اور کتاب کھول گر صفہ نمبر دو سو سینتالیس پڑھنے لگا۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھا، ٹھیک بارہ بجے عمل شروع کرنا تھا۔ میں نے گھڑی کی سوئیوں پر نظر یں جمائے رکھیں۔ جوں ہی دونوں سوئیاں بارہ پر اکٹھا ہوئیں، میں نے عبارت پڑ ھنا شروع کر دی۔
پڑھنے پڑھنے پتانہیں کتنی دیر ہوئی تھی کہ اچانک کتاب کے حروف چمکنے لگے اور عبارت سے جیسے روشنی سی نکلنے لگی۔ پہلے تو میں ڈر گیا مگر پھر ہمت کر کے پڑھتارہا، پھر اچانک جیسے چاروں طرف روشنی سی پھیل گئی۔
کمرے میں رکھی ہوئی لالٹین جیسے خود بہ خود جل اٹھی۔ لائبریری کا درواز ہ جو میں نے تازہ ہوا کے لیے کھلا چھوڑا تھا، اس کے دونوں اطراف میں بنے طاقچوں میں شمع دان جلنے لگے، پھرا چانک کتاب میں سے دھواں نکلنے گیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک گڑ گڑاہٹ سی ہوئی اور پھر ایک زور دار چیخ کی آواز…
پھر اچانک گھپ اندھیرا چھا گیا، شاید لائٹ چلی گئی تھی۔
اچانک کوئی ہاتھ میرے پیچھے سے نمودار ہوا، اس نے میرے ہاتھوں سے کتاب چھینی اوردروازے سے باہر پھینک دی۔ میں نے دیکھا، کتاب جاکے گری اور وہی صفحات کھل گئے جہاں سے میں پڑھ رہا تھا۔
میں نے پلٹ کے دیکھا تو ڈاکٹر مجیب ہاتھ میں لالٹین پکڑے مجھے گھور رہے تھے اور باہر کی طرف بھی دیکھتے جا رہے تھے۔ اچانک کتاب کے کونے سے دو آگ کے شعلے نکلنے لگے۔ میں تیزی سے اٹھا، ڈاکٹر مجیب نے مجھے پکڑ لیا:
’’خبر دار! آگے مت جانا۔‘‘
’’کتاب میں آگ لگ گئی ہے۔‘‘ میں نے چیخ کے کہا۔
اسی وقت مجھے ابو اور امی نظر آئے۔ ابو کے ہاتھ میں پانی کی بوتل تھی،انہوں نے کتاب کی آگ بجھانے کے لیے پانی کی بوتل اس پر الٹ دی مگر پانی پڑتے ہی کتاب جیسے شعلہ بن گئی۔ اچانک اس میں سے ایک شعلہ اٹھا اور کتاب بھڑک کے جلنے لگی۔ اسی وقت لائٹ آگئی ۔
’’کیا ہوا؟‘‘ ابو نے پوچھا۔
’’ تمہیں کس نے کہا تھا یہ کتاب پڑھنے کو ؟پتا ہے، یہ جادو کی کتاب ہے۔‘‘ ڈاکٹر مجیب نے سخت لہجے میں کہا۔
’’جادو کی کتاب!‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں!‘‘ ڈاکٹر مجیب نے جواب دیا۔’’ کئی بار اسے ضائع کر نے کی کوشش کر چکا ہوں مگر یہ ضائع نہ ہوسکی ،مگر آج اس میں آگ لگ گئی اور یہ جل کر سیاہ ہوگئی۔ مگر کیسے؟‘‘ ڈاکٹر مجیب نے حیرت سے کہا۔
’’میں نے تو بس اس پر پانی ڈالا تھا اور جیسے وہ پانی نہیں بلکہ پٹرول تھا کہ ایک دم کتاب جل کر خاک ہو گئی۔ ابونے کہا۔
’’و ہ صرف پانی نہیں، پٹرول سے بھی زیادہ خطر ناک تھا۔‘‘ امی نے کہا تو ہم سب امی کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’کیا۔۔۔؟؟‘‘
’’اس بوتل میں آب زم زم تھا۔ میں اپنا وظیفہ اور آیت الکرسی پڑھ کے اس پر دم کرکے رکھتی ہوں جو فجر کی نماز کے بعد آپ سب کو حفاظت اور خیر و برکت کے لیے پلاتی ہوں ۔ واقعی یہ جادو کی کتاب تھی جب ہی آیات قرآنی کی تاثیر سے جل کے خاک ہو گئی۔‘‘
’’ چلو !گھر چلو۔‘‘ ابو نے کہا۔’’بہت رات ہوگئی ہے۔‘‘
میں شرمند ہ شرمند ہ ساچل پڑا۔
’’ذراسننا۔‘‘ ڈاکٹر مجیب نے مجھے مخاطب کیا۔
’’جی سر۔‘‘ میں رک گیا اور ان کی طرف دیکھنے گیا۔
ڈاکٹر مجیب نے آہستگی سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولے:
’’میاں! خوش قسمت ہو کہ بچ گئے۔ جادو کی یہ کتاب اب تک کئی افراد کی جان لے چکی ہے۔ جنہوں نے بھی دولت کے لالچ میں اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی،وہ سب مارے گئے۔‘‘
’’جی۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں۔‘‘
’’ کوئی بات نہیں!‘‘ ڈاکٹر مجیب نے شفقت سے کہا۔ ’’جو جادو تمہارے بس میں ہے اسے کام میں لاؤ۔‘‘
’’ کون سا جادو؟‘‘میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’محنت کا جادو!‘‘ ڈاکٹر مجیب نے ہنس کے کہا۔ ایسا جاؤدوجس کا کوئی نقصان نہیں،فائدہ ہی فائد ہ ہے۔‘‘
میں نے انہیں دیکھا ،وہ مسکرادیے۔ مجھے بھی ہنسی آگئی۔
واقعی محنت کے جادو کی طرف تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا تھا، وہ جاد و جو آپ کے پاس بھی ہے۔ کیا آپ اس جادو کو کام میں لانے کا سوچتے ہیں؟

۔۔۔۔۔

کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے

کاوش صدیقی کے مداحو ! تیار ہو جاؤ ایک زبردست مقابلے کیلئے۔
کتاب دوست لے کر آرہا ہے ایک اور زبردست خبر ! کاوش صدیقی صاحب نے روشنائی ڈوٹ کوم پر اگست کے پورے مہینے کہانیاں لکھنے کی زبردست خبر سنائی تو کتاب دوست نے اس کا مزہ دوبالا کرنے کیلئے آپ لوگوں کے لئے ایک زبردست مقابلے کا آغاز کرنے کا سوچا۔
☆ تو لیجئے کتاب دوست کی جانب سے ایک اور اعلان ہو رہاہے۔ وزٹ کیجئے روشنائی ڈوٹ کوم roshnai.com  پر اور پڑھئے کاوش صدیقی کی روزانہ ایک کہانی۔ اس پر اپنا بھرپور تبصرہ کیجئے اور جیتیے مندرجہ ذیل کیش انعامات مع کتاب دوست کی اعزازی سند کے۔
★ پہلا انعام : 1500 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ دوسرا انعام : 1000 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
★ تیسرا انعام : 700 روپے + کتاب دوست اعزازی سند
نوٹ: 31 اگست یعنی آخری کہانی تک کا وقت مقررہ ہے۔ یعنی آخری دن۔
جتنے زیادہ تبصرے ہوں گے اتنے جیتنے کے مواقع زیادہ ہوں گے۔
☆ ایک قاری کی طرف سے ایک کہانی پر ایک تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔
☆ تبصرہ ہر کہانی کے آخر میں کمنٹس باکس میں کرنا ہے اور اسے یہاں اس پوسٹ میں بھی کمنٹ کرنا ہے۔
☆ تبصرہ کم ازکم 300 الفاظ ہوں اس سے کم الفاظ کو صرف کمنٹ تصور کیا جائے گا۔ مقابلے میں شامل نہیں ہوگا۔
☆ ججمنٹ کے فرائض Shahzad Bashir – Author انجام دیں گے اور نتائج کا اعلان 6 ستمبر بروز “یومِ دفاع” کیا جائے گا۔
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top