skip to Main Content

وادیٔ کلر کہار

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

بچوں کی باتیں ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھیں۔
سعید اور نوید کراچی کی باتیں کر رہے تھے۔ ”کراچی کی سڑکیں، کراچی کے فلائی اوور، کراچی کی بلند بالا عمارتیں، کراچی کا سمندر، کراچی کی نہاری، کراچی کی۔۔۔۔۔“
سلمان اور عثمان راولپنڈی، اسلام آباد اور شمالی علاقوں کے تفریحی مقامات کا ذکر کر رہے تھے۔ ”راول ڈیم، دامن کوہ، شکر پڑیاں، مری، نتھیا گلی، پتریاٹہ، بحرین، کالام، کاغان۔۔۔۔“

٭……٭……٭

سعید اور نوید، سلمان اور عثمان کے تایا کے لڑکے تھے۔ وہ چھٹیاں گزارنے کے لیے کراچی سے راولپنڈی آئے ہوئے تھے۔ بچے بہت دنوں بعدآپس میں ملے تھے۔ اس لیے جی بھر کر باتیں کر رہے تھے۔ کراچی اور راولپنڈی اسلام آباد کی باتوں کے دوران میں، اچانک سلمان نے سعید سے پوچھ لیا:
”تم نے کبھی مور دیکھے ہیں؟“
”ہاں! کیوں نہیں؟ کراچی کے چڑیا گھر میں کئی مور ہیں۔“ سعید نے فخر سے کہا۔
”اوں ہوں! پنجرے میں بند نہیں، آزاد گھومتے ہوئے۔“ سلمان نے کہا اور سعید کا جوش ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے آہستہ سے کہا:
”نہیں، آزاد گھومتے ہوئے تو نہیں دیکھا۔“
”کوئی بات نہیں، میں ابو جان سے کہوں گا، وہ ہم سب کو کلر کہار لے چلیں گے۔“
”کلر کہار؟“
”ہاں، یہ اچھی تفریح گاہ ہے۔ وہاں ہم موروں کو آزادی سے گھومتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔“ عثمان نے بتایا۔
”پھر تو چچا جان سے آج ہی بات کرو۔“ نو ید خوش ہو کر بولا۔
سلمان اور عثمان نے اپنے ابو جان سے بات کی اور آج وہ سب کلر کہارجا رہے تھے۔
راولپنڈی سے وہ سب بذریعہ کار روانہ ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ کلر کہار پہنچ گئے۔ سلمان اور عثمان کے ابو، سلیمان صاحب نے بتایا کہ کلر کہار،راولپنڈی سے تقریباً سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، اور یہ وادی چکوال سے سرگودھا جانے والی شاہراہ پر واقع ہے۔ سلیمان صاحب نے ایک مناسب جگہ گاڑی کھڑی کر دی۔ وہ سب گاڑی سے اتر آئے۔ یہ ایک سرسبز مقام تھا۔ سڑک پر کئی ویگنیں گزر رہی تھیں۔ قریب ہی کلر کہار کا بازار تھا۔ وہ سب ایک طرف جانے والی سڑک پر چل دیے جس کی دونوں جانب ہرے بھرے درخت تھے۔ سلیمان صاحب نے بچوں کو بتایا کہ ان میں زیادہ تر لوکاٹ، آڑو اور خوبانی کے درخت ہیں۔ ذرا دیر بعد وہ ایک خوبصورت باغ میں پہنچ گئے۔
”یہ باغ صفا ہے۔“ سلیمان صاحب نے بتایا۔
”باغ صفا؟“ سعید نے دہرایا۔
”ہاں، یہ باغ مغل حکمران ظہیر الدین بابر نے تیار کروایا تھا۔ یہاں انار، کیلے، آلوچے، شہتوت، آڑو، لوکاٹ اور خوبانی کے درخت ہیں۔ گلاب کے بہت سے پودے ہیں۔“
”اور مور کہاں ہیں؟“ سعید نے بے تابی سے پوچھا۔
اس وقت ایک مور کے بولنے کی آواز آئی۔”می آ۔۔۔“
”بچو ذرا سنبھل کر۔ راستہ اونچا نیچا ہے۔ گر نہ پڑنا۔“ سلیمان صاحب نے خبر دار کیا لیکن بچے دوڑتے چلے گئے۔ ذرا آگے چل کر اونچائی پر انہیں کئی مور نظر آئے جو اپنی خوب صورت اور رنگین دموں کو شان سے اٹھائے، آزادی کے ساتھ گھوم رہے تھے۔ موروں کو آزاد حالت میں گھومتے دیکھ کر سعید اور نوید بہت خوش ہوئے۔
وہ سب کچھ دور آگے گئے۔ ایک کچا راستہ اوپر کی سمت جا رہا تھا۔ وہ سب اوپر چڑھنے لگے۔ سلیمان صاحب نے بتایا کہ یہاں بابر کی فوج نے ایک بڑی پہاڑی چٹان کو تراش کر ایک بڑے تخت کی شکل دی تھی۔ یہ تخت بابری کہلاتا ہے۔ تخت پر چڑھنے کے لیے سیڑھیاں تھیں۔ تخت پر چڑھنے کے بعد دور دور کا حسین منظر دکھائی دیتا ہے۔
کچھ دیر بعد وہ سب واپس سڑک پر آ گئے اور جھیل کی سمت بڑھنے لگے۔ جھیل تک جانے والا راستہ بہت خوبصورت تھا۔ جھیل میں کئی کشتیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ ان میں پیروں سے چلنے والی کشتیاں بھی تھیں اور چپوؤں کی مدد سے بہنے والی کشتیاں بھی۔ بچوں نے پیڈل والی یعنی پیروں کی مدد سے چلنے والی کشتی پسند کی۔ وہ سب ٹکٹ لے کر کشتیوں میں سوار ہو گئے اور جھیل کی سیر کا لطف اٹھاتے رہے۔
جھیل کی سیر کے بعد سب پھر باغ صفا کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے ساتھ لائے ہوئے پھل اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کھا ئیں اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ سلیمان صاحب نے بتایا کہ جھیل کے ساتھ ہی سیاحت کی کارپوریشن کی اقامت گاہ (موٹل) ہے جہاں سیاحوں کے ٹھہرنے کا انتظام ہے۔ اوپر پہاڑی پر آبی سلائیڈ ہے۔ وہ بھی ایک دلچسپ تفریح ہے۔ ایک جانب سرسبز پارک ہے۔ سیر کرتے ہوئے دو پہر ہو گئی تھی۔ نماز ظہر کا وقت قریب تھا۔ سب نے واپس نیچے آکر قریب بنی ہوئی مسجد میں نماز ظہر ادا کی۔
نماز ظہر کے بعد سلیمان صاحب نے کہا کہ اب ہمیں واپس چلنا چاہیے کیونکہ چار بجے سہ پہر میں کچھ مہمان ملنے کے لیے آنے والے ہیں۔
بچے ابھی کچھ دیر اور وادی کلر کہار میں گھومنا پھرنا چاہتے تھے لیکن سلیمان صاحب نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا، اس لیے فرمانبردار بچے واپس آکر گاڑی میں بیٹھ گئے۔
”ہم آپ لوگوں کو پھر کسی دن ان شاء اللہ کلر کہار کی دوبارہ سیر کروا دیں گے۔“
سلیمان صاحب نے تسلی دی اور کار کا انجمن جاگ اٹھا۔ چند لمحوں بعد وہ سب راولپنڈی واپس جارہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top