skip to Main Content

جھیل کنارے

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

گاڑی نے موڑ کاٹا اور قومی شاہراہ کو چھوڑ کر بائیں جانب مُڑ گئی۔ اب اس کی رفتار دھیمی ہو چکی تھی۔ سلیمان صاحب نے اپنے بیٹوں سلمان اور عثمان کی طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے:
”کینجھرجھیل اب بہت قریب ہے۔“
دونوں بچوں کے چہرے کھل اُٹھے۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر خالہ جان بیٹھی تھیں۔ وہ سر ہلا کر بولیں:
”اب یہ دونوں پانی سے نکلنے کا نام نہیں لیں گے۔“
خالو جان کا ر چلا رہے تھے۔ وہ بھی یہ سُن کر مُسکرانے لگے۔ سلمان اور عثمان، اسکول کی چھٹیوں میں کراچی آئے ہوئے تھے جہاں ان کی نانی کا گھر ہے۔ ان کے والدین چند دن کے لیے کراچی آئے تو کینجھر جھیل کی سیر کا پروگرام بن گیا۔ خالو جان تیار ہو گئے کہ وہ اپنی کار میں سب کو لے جائیں گے۔ خالہ جان اور ان کی بیٹی عائشہ باجی بھی ساتھ چلنے پر راضی ہو گئیں۔ خالو کے بیٹوں انور سعید اور اظہر سعید کو کوئی کام تھا۔ انہوں نے معذرت کر لی۔ ویسے بھی کار میں زیادہ افراد کی گنجائش نہ تھی۔
ذراسی دیر بعد جھیل نظر آنے لگی۔ سلمان اور عثمان نے خوشی سے نعرہ لگایا:
”وہ رہی جھیل۔“
تیز دھوپ میں جھیل کا پانی جھلملا رہا تھا۔ جھیل کے کنارے بہت سے نوجوان اور بچے نظر آ رہے تھے۔ جگہ جگہ خیمے لگے ہوئے تھے۔ اینٹوں کے چولہوں پر دیگیں چڑھی ہوئی تھیں۔ بہت سی بسیں، منی بسیں اور دیگر گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔
خالو جان نے ایک مناسب جگہ دیکھ کر گاڑی کھڑی کر دی۔ ایک چھوٹا سا خیمہ نکالا گیا۔ سلمان اور عثمان نے اپنے ابو جان کی مدد سے اس خیمے کو زمین پر کھڑا کر دیا۔ گاڑی سے کھانے پینے کا سامان نکال کر خیمے میں رکھ دیا گیا۔ خواتین سستانے کے لیے خیمے میں بیٹھ گئیں اور سلمان اور عثمان نے لباس تبدیل کرتے ہی جھیل کی طرف دوڑ لگا دی۔
موسم بہت خوش گوار تھا۔ گو کہ آسمان پر بادل نہیں تھے اور تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی لیکن گرمی نہیں لگ رہی تھی۔ بہت سے نوجوان اور بچے جھیل کے پانی میں تفریح کر رہے تھے۔ کچھ نوجوانوں کو تیرنا آتا تھا،وہ اپنی پیرا کی کے کمالات دکھا رہے تھے۔ کئی نوجوانوں اور بچوں کے پاس ہوا بھری ہوئی ٹیو بیں تھیں، وہ ان کی مدد سے تیر رہے تھے۔ سلمان اور عثمان نے بسم اللہ پڑھ کر پانی میں قدم رکھا۔ دونوں کو ایسا لگا جیسے انہوں نے کسی بڑے سے جھولے میں قدم رکھ دیا ہو۔ پانی کی لہریں چاروں طرف سے انہیں تھپکیاں دے رہی تھیں۔ دونوں بچوں نے جلدی سے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ کنارے سے ابو جان نے آواز لگائی:
”بچو!زیادہ گہرے پانی میں مت جانا۔“
”بھائی صاحب فکر نہ کریں۔ کینجھر جھیل کا یہ حصہ بہت محفوظ ہے، پانی خاصی دور تک کم گہرا ہے۔ کنارے کے قریب رہ کر آرام سے نہا سکتے ہیں۔“ خالو جان نے تسلی دی، پھر وہ بولے:”آئیے بھائی صاحب ہم اور آپ بھی جھیل میں نہالیں۔“
دونوں بچے جی بھر کر نہائے۔ پانی میں جب اپنا جسم ڈولتا ہوا محسوس ہوتا ہے تو بڑا لطف آتا ہے۔ ابو جان اور خالو جان بھی کچھ دیر پانی میں نہائے۔ سب نے جھیل میں کشتی کی سیر بھی کی۔
دو پہر ہوئی تو ابو جان نے بچوں کو واپس بلا لیا۔ بچوں نے لباس تبدیل کیا۔ سب نے ظہر کی نماز ادا کی۔ سفر میں ہونے کی وجہ سے نماز قصر، دو رکعت فرض ادا کی گئی۔
نماز کے بعد گھر سے لایا ہوا کھانا نکالا گیا۔ سب نے مزے لے کر کھایااور اللہ کا شکر ادا کیا۔ سلمان نے پوچھا:
”ابو جان، کینجھر جھیل، کراچی سے کتنے فاصلے پر ہے؟“
”کراچی سے اس کا فاصلہ سو کلومیٹر ہے بیٹے۔“ ابو جان کی بجائے خالوجان نے جواب دیا۔
”یہ جھیل انجینئروں نے بنائی ہوگی۔“ عائشہ باجی بولیں۔
”نہیں بھئی، یہ ایک قدرتی جھیل ہے۔“ خالو جان بولے۔ ”دراصل یہ دو جھیلیں تھیں۔ کلری اور کینجھر۔ 1930ء میں یہ دونوں جھیلیں آپس میں مل گئیں۔اب اسے کینجھر کہتے ہیں۔“
”جھیل کتنی بڑی ہے؟“ عثمان نے پوچھا۔
”بیٹے، اس جھیل کی لمبائی چوبیس کلو میٹر اور چوڑائی زیادہ سے زیادہ چھے کلو میٹر ہے۔ یہ جھیل زیادہ سے زیادہ تیس فٹ گہری ہے۔“
”اس میں مچھلیاں بھی ہوتی ہیں؟“ خالہ جان نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔
”ہاں، ہاں، بلکہ یہ جھیل تو ماہی گیری کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ جھیل ہزاروں خوش رنگ پرندوں کی گزرگاہ بھی ہے۔“
”کہاں ہیں، کہاں ہیں پرندے؟“ سلمان نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”اس وقت نظر نہیں آئیں گے۔ وہ سرد موسم میں آتے ہیں۔ کہتے ہیں کینجھر جھیل پر دو لاکھ سے زیادہ پرندے آتے ہیں۔“خالو جان نے بتایا۔
”یہ پرندے کہاں سے آتے ہیں؟“ عثمان نے سوال کیا۔
”سرد علاقوں سے آتے ہیں مثلاً سائبیریا۔“
”صوبہ سندھ میں اور جھیلیں بھی ہیں؟“ سلمان کے ابو جان نے پوچھا۔
”جی ہاں بھائی جان، کراچی سے اٹھاسی کلو میٹر کے فاصلے پر ہالیجی جھیل ہے۔ وہاں بھی ہر سال سردیوں کے موسم میں ہزاروں رنگا رنگ پرندے آتے ہیں۔ یہ پرندے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے یہاں پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی سمجھ دی ہے کہ وہ اتنا طویل راستہ یا د ر کھتے ہیں۔ ستمبر سے مارچ کے شروع تک یہ پرندے یہیں رہتے ہیں۔ ان پرندوں میں مرغابیاں، بگلے، کونج، پیلی کن اور دیگر پرندے شامل ہیں۔“
”اس کا مطلب ہے کہ یہاں سردیوں میں آنا چاہیے۔“ سلمان نے کہا۔
”ہاں، آسکتے ہیں۔ ہالیجی جھیل میں تین جزیرے بھی ہیں۔ ان میں سے ایک ’کرو کو ڈائل آئی لینڈ‘ کہلاتا ہے۔ وہاں مگر مچھ پائے جاتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے ضلع دادو میں ایک اہم جھیل، منچھر جھیل ہے مگر اب اس کا پانی سنا ہے زہریلا ہو گیا ہے۔“
”خالو جان، پاکستان میں اور بھی کئی خوب صورت جھیلیں ہیں نا؟“عثمان نے پوچھا تو خالو جان کی بجائے ابو جان بولے:
”ہاں بیٹے، اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو چھوٹی بڑی سینکڑوں جھیلیں عطا فرمائی ہیں۔ صرف سندھ میں ان کی تعداد سو کے قریب ہے۔ صوبہ سرحد میں ناران سے آٹھ کلو میٹر دور جھیل سیف الملوک ہے۔ یہ نہایت حسین جھیل ہے۔ بلند پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ موسم گرما میں یہ پہاڑ سبزے کی چادر اوڑھ لیتے ہیں اور موسم سرما میں برف کا سفید لباس پہن لیتے ہیں۔ دونوں موسموں میں پہاڑوں کا عکس جھیل کے پانی میں بہت بھلا محسوس ہوتا ہے۔“
”ایک جھیل لولوسر بھی تو ہے؟“ خالو جان بولے۔
”ہاں میں وہاں جا چکا ہوں۔“ سلیمان صاحب کہنے لگے۔ ”وہ ناران سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دیودار، چیڑ، پڑتل کے وسیع جنگلات وہاں پر ہیں۔ اخروٹ، سیب اور ناشپاتی کے باغات بھی ہیں۔ جھیل بس آدھا میل چوڑی ہوگی۔
”اسکردو کے قریب جھیل کچورا اور صد پارہ بھی بڑی خوب صورت ہیں۔“خالو جان نے کہا۔
”چلیں بھئی اب واپسی کی تیاری کریں۔“خالہ جان نے توجہ دلائی۔
تھوڑی دیر بعد سب لوگ گاڑی میں بیٹھے واپس کراچی کی طرف جارہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top