پانی کی ملکہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”چلیں بھائی جان، کھانا کھا لیجیے، سب لوگ انتظار کر رہے ہیں۔“ خالہ جان نے کمرے میں داخل ہو کر سلمان صاحب سے کہا، جو بیٹھے ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔
”او ہو، معاف کیجیے گا، میں یہ کتاب پڑھنے میں ایسا مگن ہوا کہ خیال ہی نہیں رہا، آپ نے پہلے بھی کھانے کے لیے بلایا تھا۔“ سلمان صاحب نے کتاب بند کر کے رکھ دی اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ دوسرے کمرے میں پہنچے، جہاں دستر خوان لگا ہوا تھا۔ خالو جان، ان کا بیٹا ناصر، بیٹی فاطمہ اور ماہ رخ بیٹھے سلمان صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ ماہ رخ نے کہا:
”ماموں جان، آئیے، بڑی بھوک لگ رہی ہے، خالہ جان نے ہمیں روک دیا تھا کہ ماموں جان آجائیں تو سب ایک ساتھ کھائیں گے، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مل کر کھانے میں برکت ہوتی ہے۔“
”بالکل درست کہا۔ چلو آؤ کھانا کھائیں، ذرا میں ہاتھ دھولوں۔“
ماموں جان ہاتھ دھو کر آئے تو کہنے لگے:
”واہ، آج تو مچھلی تلی گئی ہے۔“
”جی ہاں بھائی صاحب، یہ ماہ رخ اور فاطمہ دونوں نے مل کر تلی ہے۔مجھے تو ان دونوں بچیوں نے ہاتھ بھی لگانے نہیں دیا۔ ماشاء اللہ سارا کام دونوں مل کر سمیٹ لیتی ہیں۔“
”ما شاء اللہ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔“ماموں جان نے بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دیا اور بولے: ”بھئی واہ، مچھلی تو بہت مزے کی ہے۔“
”ماموں جان، آج مجھے مچھلی کے بارے میں بتائیے گا۔“ ماہ رخ نے مچھلی کا ایک ٹکڑا اپنی پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو اس لیے مچھلی تلی گئی تھی۔!“ ماموں جان بھی مسکر ا پڑے۔
کھانے سے فارغ ہوئے اور برتن وغیرہ دھونے کے بعد ماہ رخ اور فاطمہ ماموں جان کے پاس آ گئیں۔ ماہ رخ نے جان بوجھ کر کھنکارتے ہوئے کہا:
”ہم آگئے ہیں؟“
ماموں جان کتاب پڑھتے ہوئے مسکرائے، پھر کتاب بند کر کے رکھتے ہوئے بولے:
”اچھا تو آج کا موضوع مچھلی ہے!“
”جی ہاں!“
”اچھا، تو سنو۔۔۔ اللہ نے اس دنیا میں بے شمار مخلوقات پیدا فرمائی ہیں۔ خشکی پر جتنے جان دار نظر آتے ہیں، پانی میں شاید اس سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ماہرین تو کہتے ہیں کہ دنیا میں ریڑھ کی ہڈی والے جتنے جانور پائے جاتے ہیں، ان میں سے آدمی تو مچھلیاں ہی ہیں۔ ان کی بائیس ہزار (22000) قسمیں دریافت ہو چکی ہیں اور مزید نئی قسمیں دریافت ہو رہی ہیں۔“
”ماموں جان، مچھلیاں کتنی بڑی ہوتی ہیں؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”بحر ہند میں ایک مچھلی پائی جاتی ہے، گوبی! اس کی لمبائی صرف آدھا انچ ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں شارک وہیل مچھلی کوئی پچاس فٹ لمبی ہوتی ہے۔ اس کا وزن اڑسٹھ ہزار کلو گرام ہوتا ہے یعنی ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ!“
”اتنی بڑی؟“فاطمہ نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں، یہ اللہ کی قدرت ہے۔ آپ کو معلوم ہے، اللہ کے ایک پیغمبر کو، اللہ کے حکم سے مچھلی نے نگل لیا تھا۔“
”ہاں ماموں جان، میں نے قرآن مجید میں پڑھا تھا، وہ حضرت یونس علیہ السلام تھے۔“ ماہ رخ جلدی سے بولی۔
”شاباش۔ بالکل درست۔ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرتی تھی، حضرت یونس علیہ السلام نے ان کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کے لیے کہا مگر ان کی قوم نے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت یونس علیہ السلام نے قوم کو خبر دار کیا کہ تیسرے دن ان پر عذاب آ جائے گا لیکن وہ عذاب آنے سے پہلے ہی اور اللہ کا حکم ملے بغیر ہی، اس علاقے سے نکل گئے اور ایک کشتی میں سوار ہو گئے، جو بہت بھری ہوئی تھی۔ سفر کے دوران میں، لوگوں نے محسوس کیا کہ کشتی میں بوجھ زیادہ ہے۔ اس لیے قرعہ اندازی ہوئی تاکہ جس کا نام نکلے اس کو پانی میں پھینک دیا جائے۔ نام حضرت یونس علیہ السلام کا نکلا، ان کو پانی میں پھینک دیا گیا اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔“
”پھر کیا ہوا؟“
”حضرت یونس علیہ السلام نے محسوس کر لیا کہ ان سے غلطی ہو گئی ہے۔ انھوں نے دعا پڑھنی شروع کردی: لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحٰنَکَ إِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ یعنی نہیں ہے کوئی معبود تیرے سوا، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں ظالموں میں سے تھا۔ پھر اللہ کے حکم سے مچھلی نے حضرت یونس علیہ السلام کو ساحل پر اگل دیا۔“
”یعنی اللہ نے ان کو معاف فرما دیا۔“ فاطمہ نے کہا۔
”ہاں، اور پھر دوبارہ ان کی قوم کی طرف اللہ کا پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا۔“
”مچھلیاں، کئی شکل کی ہوتی ہیں نا؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”ہاں بیٹے، کچھ لمبی ہوتی ہیں، کچھ گول، گیند کی شکل کی ہوتی ہیں، کچھ چپٹی ہوتی ہیں۔ اللہ نے بہت عجیب عجیب مچھلیاں پیدا کی ہیں۔ اکثر مچھلیاں اپنے گلپھڑوں کے ذریعے سے سانس لیتی ہیں لیکن ایک مچھلی ’لنگ فش‘ میں با قاعدہ پھیپھڑا ہوتا ہے۔ اچھا، آپ نے دیکھا ہوگا کہ مچھلیوں کے جسموں پر چھلکے سے ہوتے ہیں۔ ان چھلکوں کی بناوٹ اور خصوصیات کی بنیاد پر مچھلیوں کو کئی قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بعض مچھلیوں کے جسموں پر چھلکے تو کیا، پر بھی نہیں ہوتے۔“
”ماموں جان، مچھلی کتنے رنگوں میں ملتی ہے؟“ فاطمہ نے سوال کیا۔
”بے شمار رنگوں میں۔ ایک مچھلی تو رنگ برنگی ہوتی ہے، یہ ’بٹر فلائی فش‘ کہلاتی ہے۔ کئی مچھلیاں دشمن سے بچنے کے لیے اپنا رنگ ماحول کے مطابق بدل لیتی ہیں۔ وہ اپنے جسم پر نظر آنے والے رنگین دھبوں کو چھوٹا یا بڑا بھی کرسکتی ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ مچھلیاں اپنے رنگ، اپنے احساسات کے مطابق بھی بدل لیتی ہیں، مثلاً خوف کے عالم میں ان کے رنگ پھیکے پڑ جاتے ہیں۔“
”ماموں جان، اگر انسان پانی میں جائے تو اسے تو پیرا کی کر کے خود کوسنبھالنا پڑتا ہے، مچھلیاں بھی پیرا کی جانتی ہیں؟‘‘فاطمہ پوچھ رہی تھی۔
”انہیں پیرا کی جاننے کی ضرورت نہیں۔“ ماموں جان مسکرائے۔”دراصل اللہ نے زیادہ تر مچھلیوں کو ایک عضو دے دیا ہے۔ یہ ’گیس بلیڈر‘ کہلاتا ہے۔ اس کا کام مختلف گہرائیوں میں پانی کے دباؤ کے مطابق مچھلی کو متوازن رکھنا ہے، اس لیے مچھلی کو پانی میں خود کو قائم رکھنے کے لیے خاص طور پر کوشش نہیں کرنی پڑتی۔“
”ماموں جان، مچھلی سنتی کس طرح ہے، اس کے کان تو نہیں ہوتے۔“ماہ رخ نے سوال کیا۔
”کان تو نہیں ہوتے لیکن آواز یں اس کی کھوپڑی کی ہڈیوں کے ذریعے سے ایک اندرونی کان تک پہنچ جاتی ہیں، اس لیے وہ بیرونی کان کے بغیر بھی سن لیتی ہے۔ پھر اللہ نے مچھلی کو ایک اور منفرد عضو دیا ہے، یہ ہے ’لیٹرل لائنز‘۔ یہ ایک لمبی نالی ہوتی ہے جو سر اور جسم کے اطراف گزرتی ہے اور باہر کی دنیا سے چھوٹے چھوٹے سوراخوں کے ذریعے سے منسلک ہوتی ہے۔ اس کا کام یہ ہے کہ بہت ہلکے ارتعاش کو بھی محسوس کر لیتی ہے۔“
”ماموں جان، ارتعاش کیا ہوتا ہے؟“
”آواز کی لہروں کی تھر تھراہٹ کو کہتے ہیں۔“
”ماموں جان، مشہور ہے کہ بڑی مچھلیاں، چھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہیں، تو پھر چھوٹی مچھلیاں کیا کھاتی ہیں؟“ فاطمہ نے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
ماموں جان یہ سُن کر بولے:”اچھا سوال کیا ہے۔ ماشاء اللہ بہت ذہین ہو تم۔ مچھلیاں صرف دوسری مچھلیوں کو ہی نہیں کھاتیں، سمندری نباتات، دیگر بحری مخلوقات، آبی کیڑے بھی ان کی خوراک میں شامل ہوتے ہیں۔“
”مچھلی کے تیرنے کی رفتار کتنی ہوتی ہے؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”مختلف مچھلیاں، مختلف رفتار سے تیرتی ہیں، مثلاً پاکستان کے شمالی علاقوں میں ایک مچھلی پائی جاتی ہے ’ٹراؤٹ‘۔۔۔ چھوٹی ٹراؤٹ مچھلی چار میل فی گھنٹے کے حساب سے تیرتی ہے اور بڑی ٹراؤٹ ایک گھنٹے میں ساڑھے چھے میل دور جا سکتی ہے۔ گرم علاقوں میں پائی جانے والی چار فٹ لمبی’براکودا مچھلی‘تو ستائیس میل فی گھنٹے کی رفتار سے تیرتی ہے۔ ایک مچھلی ’سیل فش‘ کی رفتار کا اندازہ لگایا گیا تو وہ کوئی اڑسٹھ میل فی گھنٹے کی رفتار سے حرکت کرتی ہے۔ کچھ مچھلیاں تو اپنے پروں کی مدد سے حرکت کرتی ہیں۔ کچھ مچھلیاں مثلاً ایل وغیرہ سانپ کی طرح بل کھاتی گزر جاتی ہیں۔“
”ماموں جان، مچھلی اُڑ سکتی ہے؟ میں نے کہیں پڑھا تھا۔“ فاطمہ نے سوال کیا۔
”پرندوں کی طرح تو نہیں اُڑ سکتی، یہ ضرور ہے کہ گرم علاقوں کی بعض مچھلیاں، پانی سے ایک دم چھلانگ لگاتی ہیں اور فضا میں کئی سوفٹ اونچا جا کر پھر پانی میں ڈبکی لگا لیتی ہیں۔ کبھی کبھی تو اکٹھے بیس تیس مچھلیاں اچھل کر پانی سے باہرآتی ہیں۔“
”ماموں جان، مچھلی خطرناک جانور تو نہیں ہے نا؟“ فاطمہ نے پوچھا۔
”عام طور پر تو نہیں، لیکن کچھ مچھلیاں زہریلی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ ’الیکٹرک ایل مچھلی‘ کے جسم سے بجلی خارج ہوتی ہے جو دوسرے جانداروں کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔“
”مچھلی بولتی بھی ہے؟“
”ہاں، وہ کچھ آوازیں نکالتی ہے۔ آوازوں سے ایک دوسرے کو پہچانتی ہے۔ اچھا مچھلیوں کی باتیں بہت ہو گئیں، اب میں ذرا آرام کرلوں۔
”بے حد شکریہ، ماموں جان، آپ نے بہت کام کی باتیں بتائیں۔“ دونوں ماہ رخ اور فاطمہ شکر یہ ادا کر کے کمرے سے باہر نکل گئیں۔