skip to Main Content

نمک کی کانیں

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

گھر کے تمام افراد کھانا کھانے کے لیے بیٹھ چکے تھے۔
سلمان اور عثمان کے ابو نے بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ، بِسمِ اللہ وَ عَلٰی بَرَکَتِ اللہ پڑھ کر کھانے کا نوالہ منہ میں رکھا۔ گھر کے باقی افراد نے بھی بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دیا۔ عثمان نے پہلا نوالہ لیتے ہی شکایت کی:
”امی جان، سالن میں نمک بالکل نہیں ہے، مزہ ہی نہیں آ رہا، اتنابدمزہ کھانا!“
”بیٹے! اگر کھانا پسند نہ آئے تو اس طرح شکایت نہیں کرتے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کھانے کی شکایت نہیں فرماتے تھے۔ پسند نہ آئے تو خاموشی سے چھوڑ دیتے تھے۔ آپ کو اگر سالن میں نمک کم محسوس ہو رہا ہے تو خاموشی سے اٹھتے اور ضرورت کے مطابق نمک، سالن میں چھڑک لیتے۔“ ابو نے سمجھایا۔
”معاف کیجیے، ابو، مجھ سے غلطی ہوئی، امی جان آپ سے بھی معذرت!“عثمان نے شرمندہ ہو کر کہا۔
”چلو کوئی بات نہیں، اب اٹھ کر نمک دان لے آؤ۔“ ابو نے شفقت سے کہا۔ امی جان یہ دیکھ کر مسکرا رہی تھیں۔
”ابو یہ نمک کہاں سے آتا ہے؟“ عثمان نے پوچھا۔
”بیٹے ایک قسم کا نمک تو سمندر سے حاصل ہوتا ہے، دوسری قسم کا نمک کانوں سے حاصل کیا جاتا ہے، وہاں نمک کی چٹانیں ہوتی ہیں۔“ ابو نے بتایا۔
”چٹانیں؟“
”ہاں بیٹے۔ نمک بالکل پتھروں کی شکل میں ہوتا ہے اس کے لاکھوں ٹن کے ذخیرے پائے جاتے ہیں۔ وہاں سے نمک نکال کر پیسا جاتا ہے اور ہم تک پہنچایا جاتا ہے۔“ امی جان نے کہا۔
”کیا ہم نمک کے پہاڑ دیکھ سکتے ہیں؟“ سلمان نے اشتیاق سے پوچھا۔
”ہاں کیوں نہیں، دنیا بھر میں نمک کا سب سے بڑا قدرتی ذخیرہ ہمارے ملک پاکستان ہی میں پایا جاتا ہے۔ یہاں پہاڑوں کا طویل سلسلہ موجود ہے۔ یہ پہاڑ اندر سے مکمل طور پر نمک ہیں۔“
”یہ پہاڑ کہاں پائے جاتے ہیں؟“عثمان نے پوچھا۔
”بیٹے، نمک کے پہاڑوں کا یہ سلسلہ جو کوہستان نمک، کہلاتا ہے۔ جہلم سے لے کر کالا باغ، میانوالی اور کو ہاٹ تک پھیلا ہوا ہے۔ ان پہاڑوں میں چھے مقامات پر نمک نکالا جا رہا ہے۔ کھیوڑہ، سرگودھا کے پاس وار چھا، کالا باغ، جٹا، بہادر خیل اور کوہاٹ میں کرک کے مقام پر نمک کی کانیں ہیں۔ ان میں سب سے بڑا ذخیرہ کھیوڑہ میں ہے۔ اگر تم دونوں چاہو تو آنے والی چھٹیوں میں تمہیں کھیوڑہ میں نمک کی کانوں کی سیر کروا دیں گے۔“
”یہ تو بہت اچھی بات ہوگی۔“ سلمان نے خوش ہو کر کہا۔
اسکول کی چھٹیاں ہوئیں تو سلمان اور عثمان کے ابو نے اپنے دفتر سے چند دن کی چھٹی لی۔ سفر کی تیاری کی۔ ابو نے روانگی کے لیے جمعرات کا دن منتخب کیا تھا، کیونکہ پیارے نبیؐ، سفر پر روانہ ہونے کے لیے جمعرات کا دن پسند فرماتے تھے۔ ابو، سلمان اور عثمان کو لے کر نماز فجر کے بعد روانہ ہو گئے۔ آپ بھی سفر پر صبح سویرے روانہ ہو جاتے تھے۔ اڈے پر بس تیار کھڑی تھی۔
ابو، دونوں بچوں کو لے کر بیٹھ گئے۔ سب نے سواری کی دعا پڑھی۔ جلد ہی، بس روانہ ہو گئی۔ عثمان نے پوچھا:
”ابو کھیوڑہ، راولپنڈی سے کتنی دور ہے؟“
”بیٹے، کھیوڑہ یہاں سے تقریباً ایک سو پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ان شاء اللہ ہم تین گھنٹے میں وہاں پہنچ جائیں گے۔“ ابو نے بتایا۔
کھیوڑہ میں نمک کی کانوں کے ایک اعلیٰ افسر سعید صاحب، بچوں کے ابو کے دوست تھے۔ ابو نے انھیں اپنی آمد کی اطلاع پہلے ہی دے دی تھی۔ سعید صاحب اپنی گاڑی لے کر بس اڈے پر موجود تھے۔ وہ بڑی محبت سے ملے۔ بچوں نے انہیں سلام کیا۔ انہوں نے سب کو باری باری گلے لگایا، پھر اپنی گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گئے، جو کھیوڑہ شہر میں ہے۔ سعید چچا کے گھر والے بھی مہمانوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
اگلے دن نماز فجر اور ناشتے کے بعد سعید چچا، مہمانوں کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر نمک کی کانوں کی طرف لے گئے۔
راستے میں چچانے بتایا کہ ارضیات کے ماہرین نے تحقیق کے بعد معلوم کیا ہے کہ پاکستان میں نمک کے یہ پہاڑ ساڑھے تین ارب سے پانچ ارب سال پرانے ہیں۔ جس جگہ نمک کے یہ پہاڑ ہیں یہاں اربوں سال پہلے سمندر تھا۔ آہستہ آہستہ سمندر کا پانی بخارات بن کر اڑ گیا، پانی میں موجود نمک باقی رہ گیا جو چٹانوں کی شکل میں سخت ہو گیا۔ سمندر تو ختم ہو گیا لیکن نمک کا بہت بڑا ذخیرہ پہاڑوں کے اندر اور زمین کی گہرائیوں میں محفوظ ہو گیا۔ یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔“
کچھ دیر میں یہ لوگ اس جگہ پہنچ گئے جہاں سے نمک کی کان کے اندرداخل ہوتے ہیں۔ یہاں ایک دروازہ بنایا گیا ہے۔ بچوں نے دیکھا کہ اس دروازے کے اندر ریل گاڑی کی پٹری جارہی ہے۔
”یہاں ریل گاڑی چلتی ہے سعید چچا؟“ عثمان نے حیران ہو کر پوچھا۔
”بیٹے، ریل گاڑی ہی کہ سکتے ہیں۔ ریل کی عام پٹریوں کے مقابلے میں ان پٹریوں کا درمیانی فاصلہ کم ہے۔ ان پر چھوٹی ٹرین چلتی ہے۔ ان میں نمک بھر کر کانوں سے باہر لایا جاتا تھا، اب نمک ٹریکٹر ٹرالیوں کے ذریعے سے کان سے باہر لے جاتے ہیں۔ اس کے لیے الگ دروازے ہیں۔“سعید چچا نے بتایا۔
”ریل کی یہ پٹری کب بچھائی گئی تھی؟“ سلمان نے پوچھا۔
”پرانی بات ہے۔ اٹھارہ سو بہتر (1872ء) عیسوی میں بچھائی گئی تھی۔اس زمانے میں ٹرالیوں کو گھوڑے کھینچتے تھے، پھر انیس سو پچیس (1925ء) میں بجلی سے چلنے والے انجن استعمال ہونے لگے۔ اللہ کی مہربانی سے انسان نے بجلی حاصل کر لی تو بہت سے کام آسان ہو گئے۔ نمک کی کھدائی اور کٹائی پہلے اوزاروں کی مدد سے ہوتی تھی جو ہاتھ سے چلائے جاتے تھے، پھر بجلی کی مشینیں استعمال ہونے لگیں۔ اب دھما کہ کر کے نمک نکالا جاتا ہے۔“
اتنے میں ایک بڑی عمر کے صاحب آگئے۔ سعید چچا نے انہیں سلام کیااور بولے:
”لو بھئی بچو، ہارون صاحب، آپ کے رہنما ہیں، یہ آپ کو نمک کی کان کے اندر لے جا کر سیر کروائیں گے۔ آپ سیر کر لیں تو یہ آپ کو میرے دفتر لے آئیں گے، اس وقت تک میں کچھ اور کام کرلوں گا۔“
سلمان، عثمان اور ان کے ابو نے، رہنما ہارون صاحب کو سلام کیا۔ ہارون صاحب نے چھوٹی ٹرین منگوائی جس میں چھوٹی بوگیاں تھیں اور آمنے سامنے نشستیں لگی ہوئی تھیں۔ سامنے ایک بہت پرانا سا انجمن تھا۔ ان کے کہنے پر سب لوگ ٹرین میں سوار ہو گئے۔ ٹرین انھیں لے کر کان کے دروازے سے اندر داخل ہو گئی۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹیوب لائٹیں روشن تھیں۔ ٹرین آگے بڑھ رہی تھی، دونوں طرف سخت پتھر کی دیواریں تھیں۔
”بچو، کان کے مرکزی دروازے سے اندر ڈھائی ہزار فٹ تک جپسم کی چٹانیں ہیں۔ جپسم معدنیات میں سے ایک ہے۔ اس سے آگے نمک کی چٹانیں شروع ہوتی ہیں۔ ”ہارون صاحب نے بتایا۔
تھوڑی دیر بعد سب لوگ ایک کشادہ جگہ پہنچ گئے جو کسی چوک کی طرح لگ رہی تھی۔ وہاں سے مختلف سمتوں میں راستے نکلتے ہیں۔
”بچو، ہم نے کان کے اندر مختلف راستوں اور مقامات کو مختلف نام دے دیے ہیں مثلاً چاندنی چوک، موٹروے، شیش محل۔ اس وقت آپ لوگ مال روڈ پرچل رہے ہیں۔“ ہارون صاحب بولے۔
پھر سب ذرا آگے بڑھے تو وہاں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد تھی۔ ہارون صاحب کہنے لگے: ”یہ دنیا کی واحد مسجد ہے جو نمک سے تعمیر کی گئی ہے۔“ ان کے ہاتھ میں ٹارچ تھی جسے وہ روشن کر کے ایک طرف اشارہ کر رہے تھے۔
”نمک کی مسجد؟“ عثمان نے حیرت سے کہا۔
”ہاں بیٹے، آپ کے چاروں طرف اس وقت نمک ہی نمک ہے۔ اللہ نے اس علاقے میں اتنا زیادہ نمک پیدا فرما دیا ہے کہ یہ ذخیرے سینکڑوں سال استعمال ہوتے رہیں تو پھر بھی شاید ختم نہیں ہوں گے۔ یہ دیکھیے یہ نمک کی مسجد ہے۔ اس کا فرش تو نمک کا ہے ہی، اس کی دیواریں بھی نمک کی اینٹوں سے تعمیر کی گئی ہیں۔ ان کو خوبصورت بنانے کے لیے ان اینٹوں کو اندر سے کھوکھلا کر کے ان کے اندر بتیاں لگا دی گئی ہیں۔ جب یہ بتیاں روشن ہوتی ہیں تو اینٹوں میں مختلف رنگ جھلکنے لگتے ہیں۔“
ہارون صاحب نے سوئچ دبا کر بتیاں روشن کر دیں۔ مسجد کی دیواروں سے روشنیاں پھوٹنے لگیں۔ یہ ایک بہت حسین منظر تھا۔ بچے بہت خوش ہوئے۔
پھر ہارون صاحب نے اپنی کلائی کی گھڑی پر ٹارچ سے روشنی ڈالی اور بولے:
”اب بچو، واپس چلتے ہیں۔ آپ کے ابو کے دوست سعید صاحب انتظار کررہے ہوں گے۔“
”جزاک اللہ، ہارون چچا، آپ نے بہت دلچسپ نمکین سیر کروائی۔“سلمان نے کہا۔
”نمکین سیر؟ اچھا اچھا، بھئی بڑے شریر ہو۔“ ہارون صاحب مسکرانے لگے۔ پھر وہ سب اس ٹرین کی طرف بڑھ گئے جو انہیں کان سے باہر لے جانے کے لیے کھڑی تھی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top