skip to Main Content

سونگھنے والا آلہ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

””سعدیہ! ذرا دیکھنا تو سہی، گیس کی بُو کہاں سے آ رہی ہے، شاید تم نے چولہا ٹھیک طرح بند نہیں کیا تھا۔“ امی نے کپڑوں پر تر پائی کرتے ہوئے چونک کر کہا۔
سعدیہ باجی نے ناک سکیڑ کر گہری گہری سانسیں لیں، پھر بولیں:
”ہاں، شاید، گیس ہی کی بُو ہے، میرا خیال ہے یہ باہر سے آ رہی ہے!“یہ کہہ کر وہ اپنے کالج سے ملنے والا کام کرنے لگیں۔ امی نے ناگواری سے کہا:
”تو بہ ہے، یہ آج کل کے بچے کس قدر کاہل ہو گئے ہیں۔ سعدیہ تم نے سنا نہیں؟“
”بیٹے، ماں باپ جو حکم دیں، فوراً ماننا چاہیے۔“ ابو نے اخبار پڑھتے ہوئے کہا۔ سعدیہ باجی شرمندہ ہو کر اٹھیں اور یہ کہتے ہوئے باورچی خانے میں چلی گئیں:
”معاف کیجیے گا امی، مجھ سے غلطی ہوگئی۔“
چند لمحوں بعد سعد یہ باجی باورچی خانے سے واپس آئیں تو امی نے پوچھا:
”کیا ہوا، کہاں سے گیس کی بُو آ رہی تھی؟ اب تو شاید نہیں آ رہی۔“
”آپ ٹھیک کہہ رہی تھیں امی، واقعی چولہا ٹھیک طرح بند نہیں ہوا تھا۔ اس کا شعلہ تو بجھ گیا تھا، میں نے خیال نہیں کیا اور گیس خارج ہوتی رہی۔“
”شکر ہے، جلد ہی پتا چل گیا، ور نہ رات بھر گیس ضائع ہوتی رہتی اورپھر اس سے آگ لگنے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔“ امی نے کہا۔
”یہ ناک بھی اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے، اگر امی گیس کی بُو نہ سونگھ لیتیں تو گیس ضائع ہونے کا پتا کس طرح چلتا۔“نوید نے بھی گفتگو میں حصہ لیا تو ڈاکٹر خورشید بولے:
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو نوید۔ ویسے ناک صرف سونگھنے ہی میں کام نہیں آتی بلکہ بہت سارے دیگر اہم فرائض بھی انجام دیتی ہے۔“
”جی ہاں، بھائی جان، میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں، لیکن ذرا مجھے تفصیل سے ناک کے بارے میں بتائیے۔“نو ید یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر ڈاکٹر خورشیدکے پاس بیٹھ گیا۔
”اس بچے کو علم حاصل کرنے کا بڑا شوق ہے، ماشاء اللہ“ امی نے تعریفی لہجے میں کہا تو نوید شرما گیا۔ ڈاکٹر خورشید مسکرائے اور کہنے لگے:
”اللہ تعالیٰ نے ہمیں محسوس کرنے والی جو پانچ صلاحیتیں دی ہیں، سونگھنے کی صلاحیت ان میں سے ایک ہے اور بڑی اہم صلاحیت ہے۔ اس صلاحیت سے کام لے کر ہم نہ صرف خوشبو اور بد بو کو پہچانتے ہیں بلکہ بے شمار اشیاء کو ان کی بُو سے شناخت کر لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی اشیاء میں رکھے رکھے کچھ کیمیائی تبدیلیاں ہو جاتی ہیں، ان کی بُو تبدیل ہو جاتی ہے، مثلاً دودھ، دہی وغیرہ۔اس تبدیلی کو بھی ہم اپنی ناک کے ذریعے سے محسوس کر لیتے ہیں، لیکن ناک محض سونگھنے کا عضو نہیں بلکہ ہماری زندگی کا دارومدار بھی ناک پر ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”وہ ایسے کہ ہم ناک ہی کے راستے سانس لیتے ہیں۔ سانس کے راستے سے ہوا، ہمارے پھیپھڑوں میں جاتی ہے، اس میں آکسیجن ہوتی ہے جو خون کے ذریعے سے پورے جسم کو بھیجی جاتی ہے، فوراً ہی ہم سانس باہر خارج کرتے ہیں اور جسم کے اندر سے آنے والی نقصان دہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو ناک کے راستے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ تمھیں معلوم ہے ہم ایک دن میں کتنی بار سانس لیتے ہیں؟“
”ہزاروں بار!“
”ٹھیک ہے، ایک بالغ اور صحت مند آدمی دن بھر میں اوسطاًپچیس ہزار مرتبہ سانس لیتا ہے۔ اس طرح ہمیں بھی ہزاروں بار اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔“
”بھائی جان، انسان منہ سے بھی سانس لے سکتا ہے۔“
”لے تو سکتا ہے مگر ایسا کرنا بڑی نادانی ہوگی۔“
”وہ کیوں بھائی جان؟“
”اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ناک اور اُس کے اندرونی راستوں میں ایسے عمدہ انتظامات کر رکھے ہیں کہ جب بیرونی ہوا ہماری ناک کے راستے اندر داخل ہوتی ہے تو وہ بہت ساری حفاظتی چوکیوں سے ہوتی ہوئی جاتی ہے۔ ان چوکیوں پر پہرے دار، آنے والی ہوا کی جانچ پڑتال کرتے ہیں اور دشمنوں کو وہیں گرفتار کر لیتے ہیں، اس طرح ہم بہت سے نقصانات سے محفوظ رہتے ہیں جبکہ منہ کے راستے میں ایسے کوئی انتظامات نہیں ہیں، اس لیے نقصانات ہو سکتے ہیں۔“
”میں سمجھا نہیں بھائی جان۔“
”میں سمجھاتا ہوں۔ یہ تو تمھیں معلوم ہے کہ ناک کے دونوں نتھنوں سے ہوا اندر جاتی ہے۔ ہماری ناک میں، اللہ تعالیٰ نے بال پیدا فرمائے ہیں جو باہر سے آنے والے گرد و غبار، گندگی، جراثیم اور بہت چھوٹے کیڑوں کو وہیں روک دیتے ہیں۔ ناک کے اندر جھلیاں بھی ہوتی ہیں جو ایک رطوبت خارج کرتی رہتی ہیں۔ یہ رطوبت بھی باہر سے آنے والی نا پسندیدہ چیزوں کو روک لیتی ہے۔ اب دیکھو کہ ناک کی پہلی چوکی سے جانچ پڑتال کے بعد، ہوا اندر پہنچتی ہے تو وہاں ایک خانہ ہوتا ہے، اس میں بھی جھلیاں ہوتی ہیں جو رطوبت خارج کرتی ہیں۔ یہاں جسم کے درجہ حرارت کے مطابق، ہوا گرم اور نم ہو جاتی ہے۔ ہمارے چہرے میں کئی خانے یا جوف ہوتے ہیں جو سائی نس کہلاتے ہیں۔ ان میں بھی رطوبت ہوتی ہے اور بہت باریک بال ہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر ہوا میں باقی ماندہ گندگی، گرد اور جراثیم وغیرہ کو گرفتار کر لیتے ہیں اور اسے حلق کے راستے معدے میں دھکیل دیتے ہیں، جہاں معدے کا تیزاب انھیں بے اثر بنا دیتا ہے۔ اب جو ہوا، ناک کے راستے پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے وہ گرم اور نم ہو چکی ہوتی ہے اس لیے اس سے پھیپھڑوں کی نرم سطح کو نقصان نہیں پہنچتا۔ اگر منہ کے راستے سانس لیں تو مضر اور سرد ہوا جا کر پھیپھڑوں میں خراشیں ڈال دے گی۔“
”یہ تو بڑی دلچسپ بات ہے۔“ نوید نے کہا۔
”انسان کے سونگھنے کی صلاحیت بہت اچھی نہیں ہے، پھر بھی وہ ہزاروں بوؤں میں فرق محسوس کر سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ ماں اپنے بچے کی اوربچہ اپنی ماں کی مخصوص بو کو پہچان سکتا ہے۔ ایک اور دلچسپ بات ہے۔“
”وہ کیا؟“
”سائنس دان کہتے ہیں کہ بُو کسی یادداشت کو بیدار کرنے کا بھی ذریعہ بن سکتی ہے۔ جب دماغ کسی خاص بو کو کسی واقعے سے وابستہ کر دیتا ہے تو وہ بومحسوس ہوتے ہی پورا واقعہ یاد آ جاتا ہے۔“
”سونگھنے کی صلاحیت کس جاندار میں زیادہ ہوتی ہے؟“
”سراغ رسانی کے کتے، سونگھنے کی بہت اچھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ناک میں بوقبول کرنے والے پچاس لاکھ خلیے پیدا کیے ہیں جبکہ، ایک خاص قسم کے شیفرڈ کتے کی ناک میں اس طرح کے بائیس کروڑ خلیے ہوتے ہیں۔ اسی لیے اس کتے کو سراغ رسانی میں اور مجرموں کی تلاش میں استعمال کیا جاتا ہے۔“
”بھائی جان، ناک کا تذکرہ خاصا حیرت ناک رہا۔“ نوید نے کہا۔
”لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ تم نے ابھی تک گرم دودھ نہیں پلایا۔“ڈاکٹر خورشید مُسکرا کر بولے۔
”دودھ؟ ابھی لیجیے۔“ نوید باورچی خانے کی طرف دوڑا، اور امی تاکیدکے لہجے میں بولیں:
”بیٹے دودھ گرم کر رہے ہو تو ایک گلاس اپنے ابو کو بھی دے دو اور ہاں،چولہا اچھی طرح بند کر دینا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top