skip to Main Content

ہارس پاور

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔
ہلکا ہلکا اجالا ہر طرف پھیلا ہوا تھا۔ صبح کی خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔ فاطمہ نماز فجر ادا کر چکی تھی اور اب کھڑکی کے پاس کھڑی باہر کے منظر سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اس کا کمرہ ایسے رخ پر تھا کہ کھڑکی سے دور تک ہرے بھرے کھیت دکھائی دیتے تھے۔ فاطمہ کو یہ منظر اتنا اچھا لگا کہ اس نے سبحان اللہ،سبحان اللہ کا ورد کرنا شروع کردیا۔
فاطمہ کل ہی اپنے شہر سے یہاں اپنے خالو جان کے ہاں پہنچی تھی۔ اس کی امی اور بھائی سلیمان بھی ساتھ تھے۔ مامون جان انہیں پہنچانے کے لیے ساتھ آئے تھے۔
”ٹپ، ٹپ، ٹپ“ فاطمہ اس آواز کوسن کر چونک گئی۔ وہ اس آواز سے اچھی طرح واقف تھی۔ یہ کسی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز تھی۔ چند لمحوں میں وہ گھوڑا بھی سامنے آ گیا۔ سفید رنگ کا بہت خوب صورت گھوڑا تھا، اس پر ایک نوجوان سوار تھا، وہ گھوڑے کو ہلکی رفتار سے چلاتا ہوا نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اسی وقت ماموں جان اور خالو جان گھر میں داخل ہوئے۔ وہ گاؤں کی مسجد میں نماز فجر ادا کر کے واپس آ رہے تھے۔ فاطمہ جلدی سے باورچی خانے میں چلی گئی تا کہ ناشتے کی تیاری میں خالہ جان کا ہاتھ بٹا سکے۔
ناشتا کرتے ہوئے فاطمہ نے ماموں جان سے اس گھوڑے کا ذکر کیا، جو صبح سویرے، گھر کے سامنے سے گزرا تھا۔ خالو جان بھی سن رہے تھے، وہ کہنے لگے: ”ہاں! وہ اقبال کا گھوڑا ہے، ماشاء اللہ بہت پیارا گھوڑا ہے۔ اقبال اس کا بہت خیال رکھتا ہے۔“
”ماموں جان، مجھے آج گھوڑوں کے بارے میں بتائیے۔“ فاطمہ نے فرمائش کی۔
”ارے، تم کیا جانوروں کے بارے میں کوئی کتاب لکھ رہی ہو؟ خیر، تمہیں معلومات حاصل کرنے کا اتنا شوق ہے، یہ اچھی بات ہے۔ چلو آج تمہیں گھوڑوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔“ ماموں جان ناشتا ختم کر کے الحمد للہ کہتے ہوئے اٹھے اور ہاتھ دھو کر واپس تخت پر آبیٹھے۔ انھوں نے کہنا شروع کیا:
”بیٹا، گھوڑا بہت وفادار اور محنتی جانور ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سواری کے لیے گھوڑا بہت پسند تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کی خود خدمت فرماتے، اس کی گردن کے بالوں کو اپنی مبارک انگلیوں سے سنوارتے اور فرماتے:بھلائی اس کی پیشانی سے، قیامت تک کے لیے وابستہ ہے۔“
”ماموں جان، غزوات میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے گھوڑے استعمال فرمائے تھے؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”ہاں بیٹے، آپ کو تو معلوم ہو گا، غزوہ بدر میں تین سو تیرہ جاں نثاروں نے حصہ لیا تھا۔ صرف دو صحابہ کرام کے پاس گھوڑے تھے۔“
”ماموں جان، گھوڑے دنیا میں کہاں کہاں پائے جاتے ہیں؟“ فاطمہ نے معلوم کیا۔
”گھوڑے تو دنیا کے تقریباً ہر حصے میں پائے جاتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ دنیا میں گھوڑوں کی کل تعداد چھے کروڑ سے زیادہ ہے۔“
”گھوڑے کی کتنی قسمیں ہیں؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”گھوڑے کی دوسو پچاس سے زیادہ نسلیں ہیں، ویسے انہیں ان کے سائز اور کچھ دوسری خصوصیات کے لحاظ سے مختلف قسموں میں تقسیم کیا گیا ہے، مثلاًگرم خون والے، سردخون والے اور وارم بلڈ۔۔۔“
”ماموں جان، کیا کچھ گھوڑوں کا خون گرم ہوتا ہے؟‘‘فاطمہ نے تعجب سے پوچھا۔
”نہیں نہیں، یہ بات نہیں، دراصل ان کا تعلق گرم ملکوں سے ہے۔ مثلاًعرب ممالک کے گھوڑے، گرم خون والے اس طرح سرد خون والے گھوڑوں کا تعلق شمال کے سرد علاقوں سے ہے۔ ان دونوں قسموں کو ملا کر نئی قسم کے گھوڑے پیدا کیے گئے جو وارم بلڈ یا ہاف بریڈ کہلائے۔“
”ماموں جان مجھے تو سفید رنگ کے گھوڑے پسند ہیں، ویسے گھوڑے توبہت سے رنگوں کے ہوتے ہیں نا!“ فاطمہ نے کہا۔
”ہاں، تقریباً ساٹھ رنگوں میں پائے جاتے ہیں۔“
”گھوڑے کی اونچائی کتنی ہوتی ہے؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”مختلف ہوتی ہے۔ سب سے اونچا گھوڑا انگلستان کا ’شائر‘ ہے۔ اس کی اونچائی کوئی اٹھتر انچ ہوتی ہے یعنی ساڑھے چھے فٹ اور سب سے چھوٹے قد کا گھوڑا ارجنٹائن کا ’فلبلا‘ ہے۔ یہ صرف بیس انچ بلند ہوتا ہے۔ اس کا وزن صرف بتیس کلو گرام ہوتا ہے، ویسے بیلجیم کے ایک گھوڑے کا وزن چودہ سو پچاس کلو گرام تھا، یعنی ڈیڑھ ہزار کلو گرام کے قریب۔“
”ماموں جان، گھوڑے کی صلاحیتوں کے بارے میں بتائیے، لیکن پہلے میں آپ کے لیے چائے لے آؤں۔“ فاطمہ اٹھی اور ماموں جان اور خالو جان کے لیے چائے لے آئی۔ خالو جان بڑی دیر سے بیٹھے ان دونوں کی گفتگو سن رہے تھے۔ اب وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گئے اور کہنے لگے:
”گھوڑے میں سننے کی اچھی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ ہلکی آوازیں بھی سن سکتا ہے۔ یہ اپنے کانوں سے کئی اشارے بھی دیتا ہے۔ اگر دونوں کان کھڑے ہوں اور پیچھے کی طرف جھکے ہوئے ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ گھوڑا غصے میں ہے یا خوف محسوس کر رہا ہے۔ دونوں کان آگے کی طرف ہوں تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ گھوڑا سامنے کی چیزوں مثلاً گھاس سے دلچسپی رکھتا ہے۔ کبھی گھوڑا اپنا ایک کان آگے اور ایک پیچھے جھکا لیتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے۔“
”بالکل ٹھیک، بھائی جان، آپ تو گاؤں کے ہیں، آپ تو گھوڑوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔“ ماموں جان نے کہا، پھر بولے۔”گھوڑے کی دیکھنے کی صلاحیت بھی بہت اچھی ہوتی ہے۔ زمین پر پائے جانے والے تمام جانوروں میں، شتر مرغ کو چھوڑ کر، گھوڑے کی آنکھیں سب سے بڑی ہوتی ہیں۔ اس کو اللہ نے ایسی آنکھیں دی ہیں کہ اپنی دونوں آنکھوں کو الگ الگ حرکت دے سکتا ہے اور ایک وقت میں ایک آنکھ سے آگے اور دوسری آنکھ سے پیچھے کی طرف دیکھ سکتا ہے۔“
”ماموں جان، گھوڑا بڑا محنتی جانور ہے نا؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”ہاں، اس کو اللہ نے بہت مضبوط پٹھوں والا جسم دیا ہے۔ اس کی ٹانگیں بہت طاقتور ہوتی ہے۔ پیروں میں ایک ایک سم ہوتا ہے۔ ان سموں کو اور زیادہ محفوظ بنانے کے لیے ان میں نعلیں ٹھونکی جاتی ہیں۔“
”ماموں جان، گھوڑے کے منہ میں کتنے دانت ہوتے ہیں؟“ فاطمہ نے پوچھا۔
”عام طور پر چالیس! ویسے گھوڑے کے منہ میں چھتیس دانت ہوتے ہیں۔ گھوڑے کے منہ میں پیچھے کے بارہ دانت ہمیشہ بڑھتے رہتے ہیں۔“
”گھوڑا گھاس کے علاوہ بھی کچھ کھاتا ہے؟“ سلیمان نے پوچھا تو خالوجان چائے کی چسکی لیتے ہوئے بولے:
”پتے اور چھال بھی کھا لیتا ہے، پالتو گھوڑوں کو اناج بھی دیتے ہیں،گندم کا چھلکا، جو، جوار، مکئی وغیرہ دیتے ہیں۔“
”ماموں جان، گھوڑے سوتے کس طرح ہیں؟‘‘فاطمہ نے سوال کیا۔
”مختلف طریقے سے سوتے ہیں۔ کھڑے کھڑے بھی سو جاتے ہیں۔ اس صورت میں وہ سر جھکا کر آنکھیں آدھی بند کر لیتے ہیں اور اکثر اپنا ایک پچھلا پیر اٹھا لیتے ہیں۔ کبھی وہ ٹانگیں پھلا کر لیٹ جاتے ہیں لیکن خطرہ محسوس کرتے ہی چھلانگ لگا کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔“
”ماموں جان، گھوڑے کے دوڑنے کی رفتار کتنی ہوتی ہے؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”مختلف ہوتی ہے۔ گھڑ دوڑ کا گھوڑا تقریباً چالیس میل فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑتا ہے۔ پچیس سے تیس فٹ لمبی چھلانگ بھی لگا سکتا ہے اور آٹھ نو فٹ اونچی چھلانگ لگانا بھی اس کے لیے مشکل نہیں ہے۔“
”گھوڑے سے بہت سے کام لیے جاتے ہیں نا؟“ فاطمہ نے کہا۔
”ہاں، اسے تقریباً چار ہزار سال پہلے سفر کے لیے استعمال کیا جانے گا۔اٹھارویں صدی میں انسان نے گھوڑوں کو کھیتوں میں ہل چلانے، بیج ڈالنے، فصل کاٹنے میں استعمال کیا۔ آٹا پیسنے، کپاس کاٹنے، بھٹی دہکانے، کنویں سے پانی نکالنے، بھاری مشینیں چلانے میں بھی گھوڑا بہت کام آیا۔ کانوں سے بھاری اشیاء باہر لانے کے لیے گاڑیاں گھوڑوں نے کھینچیں۔ طاقت کو ناپنے کے لیے ’ہارس پاور‘ کے الفاظ اب بھی استعمال ہوتے ہیں۔ گھوڑوں کو ڈاک لے جانے کے لیے بہت سے حکمرانوں نے استعمال کیا۔“
”ماموں جان، گھوڑوں کی مدد سے کھیل بھی کھیلے جاتے ہیں؟“ سلیمان نے پوچھا۔
”ہاں، خوب یاد دلایا۔ چین والوں نے مشہور کھیل پولو، ڈھائی ہزار سال پہلے ایجاد کیا۔ برصغیر کے مسلمان حکمران اس کھیل کو ’چوگان‘ کہتے تھے۔ پاکستان کے شمالی علاقوں مثلاً گلگت، چترال وغیرہ میں پولو کا کھیل بہت مقبول ہے۔ گھوڑوں کو قدیم اولمپک کھیلوں میں بھی شامل کیا گیا تھا۔ اب بھی اولمپکس میں گھوڑوں کی دوڑ ہوتی ہے۔ گھوڑوں کی دوڑ اچھی چیز ہے، البتہ اس پر رقم لگا کر کھیلنا حرام ہے۔ فرانس میں بھی گھوڑوں کی مدد سے ایک کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اسے ’ہارس بال‘ کہتے ہیں۔“
”ماموں جان، گھوڑا تو بہت کام کا جانور ہے۔“ فاطمہ متاثر ہوکر بولی۔
”ہاں، اس کی کھال سے خیمے، کپڑے اور زینیں بنتی ہیں۔ گھوڑا انسان کا بہترین دوست اور مددگار ہے۔ اچھا بھئی اب خاصی دیر ہو گئی۔ تمہارے خالو جان کہ رہے تھے کہ گاؤں میں کچھ پرانے دوستوں سے ملوانے لے جائیں گے۔“
”ہاں بھائی جان، اب ہمیں چلنا چاہیے۔“ خالو جان گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولے، پھر دونوں اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top