اللہ کا گھر
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
سعید نے بسم اللہ پڑھ کر پہلے دایاں پاؤں مسجد میں رکھا اور دعا پڑھنے لگا۔منیر نے پہلے بایاں پاؤں مسجد میں رکھا اور اندر داخل ہو گیا۔ سعید نے اسے روکا:”سنت یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں مسجد میں رکھتے ہیں،پھر درود شریف پڑھ کر یہ دعا پڑھتے ہیں:
اللّٰہُمَّ افْتَحْ لِیْ ابْوَابَ رَحْمَتِکَ
یعنی، اے اللہ میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
”اچھا بھائی جان، ابھی پڑھتا ہوں، میں بھول گیا تھا۔“ منیر نے شرمندہ ہو کر کہا۔
دونوں بھائی مسجد کے اندر پہنچے۔ بہت سے بچے وہاں موجود تھے۔ سعید اور منیر نے انہیں دیکھ کر سلام کیا۔ بچوں نے مل کر سلام کا جواب دیا۔ آج سب بچے درس سننے آئے ہوئے تھے۔ ابھی مولانا صاحب نہیں آئے تھے۔ درس شروع ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ کئی بچے شور مچا رہے تھے۔ کچھ ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے تھے، کچھ ہنس رہے تھے۔
”دوستو! ہمیں مسجد کا بہت زیادہ احترام کرنا چاہیے۔“ سعید نے کہا۔ یہ سُن کر سب بچے چُپ ہو گئے۔
”مسجد میں سکون، عاجزی اور سنجیدگی سے بیٹھنا چاہیے۔ مسجد میں شور مچانا، ہنسی مذاق کرنا، دنیا کی باتیں کرنا، سب مسجد کے آداب کے خلاف ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔“
سب بچے صفوں پر بے ترتیب انداز سے بیٹھ گئے۔ اسی وقت مولانا صاحب تشریف لے آئے۔ انھوں نے بچوں کو سلام کیا۔ بچوں نے بلند آواز سے سلام کا جواب دیا۔ مولانا نے مسکرا کر کہا:
”بچو!پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جب تم کسی مجلس میں پہنچو، یعنی جہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہوں، تم سلام کرنے میں پہل کرو۔“ پھر مولانا نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا:
”ابھی درس شروع ہونے میں پندرہ منٹ باقی ہیں۔ میں دو رکعت نفل تحیۃ المسجد ادا کر لوں، آپ لوگوں کو تو معلوم ہوگا، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی مسجد میں جائے تو جب تک دو رکعت نماز نہ پڑھ لے، نہ بیٹھے۔“
”مگر ہر وقت تو یہ نماز ادا نہیں کر سکتے؟“ ذرا بڑی عمر کے ایک بچے نے کہا۔
”ہاں بیٹے، آپ ٹھیک کہتے ہیں، تین اوقات ایسے ہیں جن میں نماز پڑھنا منع ہے۔ صرف عصر کی نماز کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اگر تاخیر ہوگئی ہے یعنی مغرب کا وقت قریب ہے، تب بھی عصر کی نماز پڑھ لینی چاہیے۔ اسی طرح ان ممنوع اوقات میں نماز جنازہ بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ یہ ممنوع اوقات یہ ہیں: ایک یہ کہ جب سورج نکلنے لگے، اس وقت سے جب تک اس کی زردی اچھی طرح ختم نہ ہوجائے۔ دوسرے، ٹھیک دوپہر کا وقت، جب تک سورج ڈھل نہ جائے اور تیسرے، سورج میں سرخی آجانے کے بعد سے سورج غروب ہونے تک۔ یہ وہ اوقات ہیں جن میں سجدہئ تلاوت بھی ممنوع ہے۔ اس کے علاوہ بچو، کچھ اوقات ایسے ہیں، جن میں صرف نفل نماز مکروہ ہے یعنی اس سے بچنا چاہیے۔“
”وہ کون سے اوقات ہیں جناب؟“منیر نے پوچھا۔
”بیٹے، میرا خیال تھا کہ میں یہ باتیں درس میں بتاؤں گا، لیکن آپ نے پوچھ لیا ہے، اس لیے ابھی بتا دیتا ہوں۔ پہلے آپ لوگ ٹھیک طرح دائرہ بنا کر بیٹھ جائیں۔“
سب بچے ٹھیک طرح بیٹھ گئے تو مولانا صاحب کہنے لگے:
”جب امام خطبہ دینے کے لیے کھڑا ہو جائے، چاہے، جمعہ کا ہو یا عید کا یا حج کا، تو نفل نماز پڑھنا مکروہ ہے۔ اسی طرح کچھ اور صورتیں ہیں۔ فجر کی نماز کے بعد سے سورج نکل آنے اور روشنی پھیل جانے تک، نماز عصر کے بعد سورج غروب ہو جانے تک، جب فرض نماز کے لیے تکبیر کہی جارہی ہو، عید کی نماز سے پہلے، چاہے گھر میں یا عید گاہ میں، اور عید کی نماز کے بعد عیدگاہ میں نفل نماز پڑھنامکروہ ہے۔۔۔۔ اچھا بچو، میں ذرا دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کرلوں۔“
”مولانا صاحب، ہم بھی دو رکعت پڑھ لیں؟“ ایک بچے نے پوچھا۔
”پڑھ لیجیے، آپ بھی پڑھ لیجیے۔“
مولانا اور بہت سے بچے نماز پڑھنے لگے۔ چند بچے بیٹھے رہے، پھر اٹھ کر دوڑنے لگے، ان میں سے ایک چھوٹے بچے نے اپنے بھائی کو جونماز پڑھ رہا تھا، ہلانا شروع کر دیا۔ اس نے نماز جلدی سے ختم کی تو بچہ بولا:
”بھائی گھر جانا ہے۔“
دراصل چھوٹے بچے کو بھوک لگ گئی تھی۔ اس کا بھائی اسے گھر چھوڑ نے چلا گیا۔
مولانا صاحب نے بچوں سے کہا: ”اتنے چھوٹے بچوں کو مسجد میں نہیں لانا چاہیے، جو بتا بھی نہ سکیں کہ انھیں بھوک یا پیاس ہے۔“
اتنے میں ایک آدمی مسجد کے سامنے والے دروازے سے اندر داخل ہوا اور مسجد کے پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ اس نے شاید پچھلی گلی میں جانے کے لیے چھوٹا راستہ اختیار کیا تھا۔ مولانا صاحب نے کہا:
”مسجد کو آنے جانے کا راستہ نہیں بنا لینا چاہیے۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسجد کا یہ حق ہے کہ انسان اس میں نماز پڑھے یا بیٹھ کر ذکر و تلاوت کرے۔“
اسی وقت ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور مولانا صاحب کے پاس آکر سلام کرنے کے بعد کہنے لگا:
”مولوی جی! میرا بکرا کھو گیا ہے، سفید اور کالے رنگ کا ہے۔۔۔ بڑا پیارا بکرا ہے جی، آپ لاؤڈ سپیکر سے اعلان کر دیں۔“
مولانا بولے: ”مجھے تمہارا بکرا کھو جانے کا افسوس ہوا، لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں کوئی اس طرح اعلان کرتا تو آپ ناراض ہوتے تھے اور فرماتے تھے: اللہ تجھ کو تیری گم شدہ چیز نہ دلوائے۔“ یہ بخاری شریف کی حدیث ہے۔
”اچھا جی؟ ہم تو جی بڑی غلطی پر تھے، معافی چاہتا ہوں جناب۔ رب نے چاہا تو میرا بکرا خود ہی مل جائے گا۔“ وہ شخص شرمندہ ہوکر چلا گیا۔
”مولانا صاحب، ہم لوگ وضو کر لیں؟“ ایک چھوٹے سے بچے نے پوچھا۔
”ارے، آپ گھر سے وضو کر کے نہیں آئے؟ بیٹے وضو گھر سے کر کے آیا کریں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جو شخص گھر سے وضو کر کے مسجد میں نماز پڑھنے جاتا ہے تو اس کے مسجد پہنچنے پر اللہ ایسا خوش ہوتا ہے، جیسے کسی مسافر کی سفر سے واپسی پر اس کے گھر والے خوش ہوتے ہیں۔“
(صحیح بخاری)
”ہم لوگ وضو کر کے آتے ہیں۔ چند بچے اٹھ کھڑے ہوئے۔“
”بیٹھیں“مولانا نے اشارہ کیا۔”یہ حدیث بھی سن لیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جس شخص نے اچھی طرح وضو کیا اور گھر سے نماز کے لیے نکلا، اُس کے ہر دائیں قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے اور بائیں قدم پر ایک گناہ مٹ جاتا ہے۔ پھر مسجد میں پہنچنے پر اگر پوری نماز جماعت سے ادا کی تو پورا اجر و ثواب ملے گا، اگر کچھ نماز ہو جانے کے بعد جماعت میں شریک ہوا اور سلام پھیرنے کے بعد اپنی نماز پوری کی تب بھی پورا اجر و ثواب ملے گا اور اگر مسجد پہنچتے پہنچتے جماعت ختم ہو گئی اور اس نے اپنی نماز اکیلے مسجد میں ادا کی، تب بھی پورا اجر و ثواب ملے گا۔“(سنن ابو داؤد)
مولانا نے بات ختم کی تو کچھ بچے اجازت لے کر وضو کرنے چلے گئے۔ دو بچوں نے اٹھ کر صفیں درست کرنا شروع کر دیں جو بچوں کے بھاگنے دوڑنے کی وجہ سے ٹیڑھی ہوگئی تھیں۔ چند بچے کپڑا لے کر وہ جگہیں صاف کرنے لگے جہاں چھوٹے بچوں نے پانی گرا دیا تھا۔ مولا نا خوش ہو کر بولے:
”شاباش بچو، مسجد کو پاک صاف رکھنا، کوڑا کرکٹ ہٹا دینا، مسجد میں خوشبو کا انتظام کرنا، یہ سب کام جنت میں لے جانے والے ہیں۔ یہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔“
اتنے میں بچے وضو کر کے آ گئے اور مولانا نے درس کا آغاز کر دیا۔