skip to Main Content

خوبیوں والا دن

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

مغرب کی نماز کے بعد امام صاحب دعا مانگ کر فارغ ہوئے تو دو بچوں نے بڑھ کر انہیں ادب سے سلام کیا۔ امام صاحب نے پیار سے وعلیکم السلام کہا۔
ایک بچے نے کہا۔
”جناب، میرا نام سعید ہے، یہ میرا چھوٹا بھائی منیر ہے۔ آج ہم جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں دیر سے پہنچے۔ آپ کی تقریر ختم ہونے والی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں بھی وہ باتیں بتا دیں جو آپ نے تقریر میں کہی تھیں۔“
اتنی بات کہتے ہوئے وہ بچہ شرم اور گھبراہٹ سے پسینہ پسینہ ہو گیا۔
”علم کا طلب کرنا تو بہت مبارک عمل ہے۔ آپ میرے ساتھ میرے گھر چلیے۔“ امام صاحب دونوں بچوں کو لے کر اپنے گھر چلے گئے جو مسجد کے ساتھ ہی واقع تھا۔
مولانا صاحب نے گھر پہنچ کر دونوں بچوں کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی چار پائی پر بیٹھتے ہوئے بولے:
”بیٹے، آج میں نے جمعہ کے دن کی اہمیت اور اس کے آداب بیان کیے تھے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”افضل ترین دن جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن وہاں سے نکال کر زمین پر اتارے گئے، اور اسی دن قیامت آئے گی۔“ دونوں بچے بڑی توجہ سے سن رہے تھے۔ مولانا صاحب نے کہا:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، اس پر نماز جمعہ لازم ہے، پھر جو کسی کھیل تماشے یا کاروباری مصروفیت کی خاطر اس سے بے پروائی کرے گا تو اللہ اس سے بے نیاز ہو جائے گا اور وہ پاک اور بے نیاز ہے۔ آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے جمعہ کی اذان سنی اور پھر نماز کے لیے نہ آیا، اسی طرح مسلسل تین جمعہ تک کرتا رہا تو اس کے دل پرمہر لگا دی جاتی ہے اور اس کا دل منافق کا دل بنا دیا جاتا ہے۔“
اتنے میں کمرے کے اندرونی دروازے کا پردہ ہٹا کر ایک لڑکا اندر آ گیا۔ اس کے ہاتھوں میں ایک ٹرے تھی جس پرلسّی سے بھرے تین گلاس رکھے ہوئے تھے۔ اس نے سب کو سلام کیا۔ مولانا صاحب نے سلام کا جواب دے کر کہا:
”یہ میرا بیٹا ہے طلحہ، بیٹے، مہمانوں کو لسی پیش کرو۔“
”آپ نے تکلف فرمایا۔“ سعید نے جھجک کر کہا۔
”کوئی تکلف نہیں، آپ بھی میرے بیٹوں کی طرح ہیں۔ ہاں تو، ہم جمعہ کی اہمیت کی بات کر رہے تھے۔ اس دن صفائی کا، عبادت کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔ میں آپ کو جمعہ کے آداب مختصر طور پر بتاتا ہوں۔ آپ جمعہ کے روز غسل تو کرتے ہی ہیں؟“
”جی ہاں۔“ سعید اور منیر نے ایک ساتھ کہا۔
”شاباش، جمعہ کے دن پاکیزگی کا اہتمام کرنا، بال، ناخن کٹوانا، بہتر سے بہتر لباس جو میسر ہو، پہننا، خوشبو لگانا اور جامع مسجد میں جلدی پہنچنا، سنت ہے۔ اگر آپ یہ سارے عمل کرتے ہوئے نیت کر لیں گے کہ آپ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور سنت پر عمل کر رہے ہیں تو ان شاء اللہ آپ کو بہت ثواب ملے گا۔ اچھا بیٹے، آپ کو معلوم ہے، جمعہ کے دن کون سے نیک کام کرنے چاہیں؟“
”نماز پڑھنی چاہیے۔“ منیر نے کہا۔
”نماز تو فرض ہے ہی۔“ مولانا مسکرائے۔”اس کی سخت تاکید ہے۔ اس کے علاوہ جمعہ کے دن قرآن پاک کی تلاوت کرنا، ذکر و تسبیح، استغفار، دعا، صدقہ خیرات، مریضوں کی عیادت، قبرستان جانا بھی اہم ہے۔“
”جناب کیا جمعہ کے دن قرآن پاک کی کوئی خاص سورۃ پڑھنی چاہیے؟“سعید نے ادب سے پوچھا۔
”جیتے رہو بیٹے، میں تمہیں یہی بتانے والا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھے گا، اس کے لیے دونوں جمعوں کے درمیان ایک نور چمکتا رہے گا۔ اس کے علاوہ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: جو شخص جمعہ کی شب میں سورہئ دخان کی تلاوت کرے، اس کے لیے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں۔“
”مولانا صاحب، اسکول میں ہمارے استاد نے بتایا تھا کہ جمعہ کے دن دعا قبول ہوتی ہے۔ منیر نے کہا۔
”ہاں، پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن میں ایک مبارک ساعت ایسی ہے کہ بندہ اس میں جو بھی دعا مانگتا ہے، وہ قبول ہوتی ہے۔“
”وہ ساعت کون سی ہے؟“ سعید نے بے تابی سے پوچھا۔
”علماء کرام کے دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ جب خطیب، خطبہ دینے کے لیے منبر پر آتا ہے، اس وقت سے لے کر نماز ختم ہونے کا وقت ہے، دوسرے یہ کہ یہ ساعت، جمعہ کے دن کی آخری ساعت ہے، یعنی جب سورج غروب ہونے لگے۔“
”ارے بیٹے، آپ دونوں نے لسّی تو لی نہیں۔“ دونوں بچوں نے لسّی کے گلاس اٹھا لیے اور بسم اللہ پڑھ کر لسی پینے لگے۔ مولانا صاحب نے کہا:
”رسول کریم نے فرمایا ہے، جو شخص جمعہ کو اہتمام سے نہا کر اول وقت میں مسجد پہنچا تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی، پھر جو دوسری ساعت میں پہنچا تو گویا اس نے گائے یا بھینس قربان کی، پھر تیسری ساعت میں آنے والا ایسا ہے جیسے اس نے سینگ والا مینڈھا قربان کیا، پھر چوتھی ساعت میں آنے والا ایسا ہے جیسے اس نے انڈا قربان کیا، پھر جب خطیب، خطبہ دینے کے لیے آتا ہے تو فرشتے مسجد کا دروازہ چھوڑ کر خطبہ سننے اور نماز ادا کرنے کے لیے مسجد میں آکر بیٹھ جاتے ہیں۔“
”فرشتے بھی نماز پڑھتے ہیں؟“ منیر نے حیرت سے پوچھا۔
”ہاں بیٹے، فرشتے بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ بھی عبادت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ انھیں جو بھی حکم دے، اسے انجام دیتے ہیں۔ اچھا بیٹے، ایک بات اور ہے کہ خطبے کے دوران میں، باتیں ہرگز نہیں کرنی چاہیں۔ پوری توجہ اور ادب سے خطبہ سننا چاہیے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبے کے دوران میں باتیں کرنے سے سختی سے منع کیا ہے۔ اچھا بچو، بہت دیر ہو گئی ہے، آپ کے گھر والے انتظار کر رہے ہوں گے، صرف ایک بات بتا دیتا ہوں جو بہت اہم ہے۔“
”جی فرمائیے۔“ سعید نے ادب سے کہا۔
”وہ بات یہ ہے کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، اس لیے کہ اس روز درود میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ درود میرے حضور پیش کیا جاتا ہے۔“
”درود تو وہی ہے جو ہم نماز میں التحیات کے بعد پڑھتے ہیں؟“ سعیدنے پوچھا۔
”وہ تو سب سے افضل ہے، اسے درودِ ابراہیمی کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی درود ہیں۔ ایک مختصر درود یہ ہے:
وَصَلَّ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ الْأُمِّی
اس وقت مسجد سے عشاء کی اذان کی آواز بلند ہوئی۔ دونوں بچوں نے حیرانی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ اتنا وقت گزر گیا اور پتا ہی نہ چلا۔ اذان کے بعد دونوں بچوں نے مولانا صاحب کا شکریہ ادا کیا اور سلام کر کے ان کے گھر سے نکل آئے۔ ان کا رُخ مسجد کی طرف تھا۔
آج چاندنی رات تھی۔ چاند کی اُجلی روشنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی لیکن دونوں بچے ایسا محسوس کر رہے تھے، جیسے اس اُجلی اُجلی روشنی نے ان کے دلوں میں اُجالا کر دیا ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top