skip to Main Content
جن کی شکایتیں

جن کی شکایتیں

محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کردار:
خالہ خیرن : ایک گھریلو خاتون
عجیب شخص: ایک جن
خاور: خالہ خیرن کا چھوٹا بیٹا

پس منظر
۔۔۔۔۔۔۔۔

خالہ خیرن آج کل سخت پریشان ہیں۔پچھلے دو مہینوں سے ان کے گھر سے استعمال کی چیزیں غائب ہونا شروع ہو گئیں ہیں اور اب جب کہ ان چیزوں کی ضرورت نہیں رہی تو ایک ایک کرکے وہ ملتی جا رہی ہیں اور دوسری غائب ہوتی جارہی ہیں۔ اب پچھلے ایک ہفتے سے ان کے فریج سے کھانے کی چیزیں بھی غائب ہو رہی ہیں۔ اس کا الزام وہ بچوں کو اس لئے نہیں دے سکتیں کیوں کہ یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب گھر پر خالہ خیرن کے علاوہ کوئی نہیں ہوتا۔

منظر
۔۔۔۔۔۔۔

برآمدے کامنظر ہے۔ ایک طرف فریج رکھا نظر آرہا ہے۔دوسری طرف دو کرسیاں رکھی ہیں۔درمیان میں بچھے تخت پر خالہ خیرن بیٹھی سبزی کاٹ رہی ہیں ۔ اچانک برآمدے میں ایک عجیب سا شخص نمودار ہوتا ہے جو حلیے سے کسی دوسری مخلوق کا فرد معلوم ہوتا ہے۔خالہ خیرن کی نظر اس شخص پر پڑتی ہے۔
(پردہ اٹھتا ہے)
خالہ خیرن:(دوپٹا درست کرتے ہوئے حیرانی سے)‘‘کون ہو تم؟‘‘
عجیب آدمی:(بھاری آواز میں)’’میں جن ہوں۔‘‘
خالہ خیرن:’’اچھا!…بولو کیا کام ہے؟۔۔۔اور شریفوں کے گھر میں یوں منہ اٹھا کر کیوں گھس آئے ہو؟‘‘
جن:’’وہ ہ ہ…میں آپ سے ایک شکایت کرنے آیا تھا…‘‘
خالہ خیرن:(ناک چڑھاتے ہوئے)’’شکایت؟….یہ جو تم بغیر اجازت عزت داروں کے گھر میں گھس آتے ہو….اس پرشکایت ہمیں کرنی چاہیے یا تمہیں؟…..خیر جلدی بولو!..میرے پاس وقت نہیں ہے…. ابھی سبزی بھی چڑھانی ہے۔‘‘
جن:’’خالہ!..جب آپ کو پتا ہے کہ میں پچھلے ایک ہفتے سے آپ کے فریج سے اپنے بچوں کے لیے میٹھا لے جاتا ہوں تو آخر کیا وجہ تھی کہ آج آپ نے میٹھا نہیں رکھا۔۔۔آج خالی ہاتھ جاؤں گا تو اپنے بچوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘
خالہ خیرن:(تخت سے اتر کر جوتی اٹھاتے ہوئے)’’رکو!..ابھی سنتی ہوں میں تمہاری شکایت…تو پچھلے ایک ہفتے سے میٹھاتم چرا کر لے جاتے ہو اور تم یہ شکایت کرنے آئے ہو کہ آج تمہارے بچوں کو چوری کا مال نہیں مل سکے گا۔‘‘…(خالہ خیرن ٹھاہ ٹھاہ کی آواز کے ساتھ جن کو دوبار جوتی رسید کرتی ہیں)۔۔۔’’جاؤ جاکے اپنے بچوں کو وہی منہ دکھاؤ جو پچھلے ایک ہفتے سے تمہارے میٹھا چرانے کی وجہ سے میں اپنے بچوں کو دکھا رہی ہوں۔۔۔ویسے بھی چوری کا میٹھا لے جانے سے تمہارے منہ پر کون سا نور چڑھ جاتا ہے جو آج تمہیں اپنے منہ کی فکر ہورہی ہے؟‘‘
جن:’’خالہ! میں میٹھا اٹھا کر لے جاتا ہوں ….چرا کر نہیں لے جاتا۔‘‘
خالہ خیرن:’’تمہارا خانہ خراب ہو۔۔۔اٹھا کر لے جاتے ہو۔۔۔بتا کر تو نہیں لے جاتے ناں؟۔۔۔تو چرا کر ہی لے جاتے ہو ناں!۔۔۔حرام خور!‘‘..(خالہ کمر پر ہاتھ رکھتے ہوئے)…..’’ہمیں بتا ر ہے ہو کہ اٹھاکر لے جاتا ہوں ….رکو! ابھی بتاتی ہوں‘‘……(خالہ جوتی اٹھا کرپیچھے پیچھے اور جن آگے آگے….پھردوبارٹھاہ،ٹھاہ) 
جن:(درد سے کراہتے ہوئے)’’ہائے…اُف۔۔۔خالہ!…قسم سے بہت زور سے مارتی ہو….بالکل سپاہیوں کی طرح…خدا کی شان ہے، کمزور ہڈیوں میں یوں تو کتنی جان ہے….‘‘
خالہ خیرن:’’ٹھہرو!…بتاتی ہوں…کم بخت مارے…منحوس جن‘‘…(دوبار پھرجوتی رسید کرتے ہوئے)….’’ایک تو عزت داروں کے گھر میں جب چاہتے ہو تھوبڑا اٹھا کر چلے آتے ہو…اوپر سے فریج الگ خالی کر جاتے ہو…اس پر بھی معذرت کرنے کے بجائے شکایت کر رہے ہو اور پھر ہمیں بتا رہے ہو کہ چوری کیا ہوتی ہو اور کیا نہیں….شرم نام کی کوئی چیز ہے؟‘‘
جن:دیکھو خالہ!۔۔۔
خالہ خیرن:(جن کی بات کاٹتے ہوئے)’’دیکھو!مجھے خالہ مت کہو۔۔۔خدا نہ کرے کہ میرے تمہارے جیسے جن بھانجے ہوں…اور وہ بھی چوووور…‘‘
جن:’’خالہ!…بات تو سن لو….میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم اگر کسی کے گھر میں بغیر اجازت کے گھس جاتے ہیں تو اس میں کون سی بری بات ہے….آخر ہم آپ انسانوں سے زیادہ با صلاحیت مخلوق ہیں۔۔۔اور دنیا بھر میں با صلاحیت لوگوں کے لئے بہت سی رعایتیں ہوتی ہیں۔‘‘
خالہ خیرن:(افسوس کے ساتھ سر ہلاتے ہوئے)’’چچ چچ چچ….یعنی ہزاروں سال گزر گئے مگر تم لوگوں نے ابھی تک تہذیب نہیں سیکھی۔۔۔اور بات سنو! یہ تم انسانوں سے زیادہ باصلاحیت کس بات کے ہو؟۔۔۔سوئی میں سوراخ کرنا تم نے ہمیں سکھایا ہے؟۔۔۔یا تم نے چنگ چی بنا کر دی ہے؟…آج تک تم نے کیا چیز ایجاد کی ہے جو تم زیادہ با صلاحیت ہو؟….میٹھا تو آج بھی ہمارا چرا کر کھاتے ہو…اور جس دن نہ ملے تو شکایت کرنے آجاتے ہو….با صلاحیت ہو تو میٹھا ہی گھر پربنا لیا کرو۔‘‘
جن:’’خالہ !…میرا مطلب ہے کہ خدا نے ہمیں جن بنایا ہے تو اس کا کچھ تو فائدہ ہمیں ہونا چاہئے ناں!…‘‘
خالہ خیرن:’’خدا نے اگر تمہیں جن بنایا ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے؟….ہم نے کہا تھا کہ تم جن بنو؟….تمہارے جن ہونے میں ہمارا کیا دخل ہے،کم بخت!….جو ہمارا جینا اجیرن کیا ہوا ہے؟‘‘
جن:(جھنجھلاتے ہوئے)’’خالہ! میرا مطلب ہے کہ نظر نہ آنے والی صلاحیت جو آپ میں نہیں ہے اور ہم میں ہے….تو یہ ہماری اضافی صلاحیت ہو گئی ناں۔۔۔تو اس کا ہمیں کچھ تو فائدہ ہونا چاہئے نا؟….‘‘
خالہ خیرن:(ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے)’’ہاں ں ں۔۔۔اصل میں یہی تو ہمیں تم سے شکایت ہے کہ تم ہمیں نظر نہیں آتے….ورنہ دنیا کی کون سی نظر آنے والی باصلاحیت مخلوق ہے جس کو ہم نے قابو کرکے آگے نہیں لگایا ہوا۔۔۔تم بھی ذرا نظر آکر دیکھو کہ تمہارے ساتھ ہوتا کیا ہے…‘‘
جن(ہنستے ہوئے)’’ہاہاہا…خالہ!…پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ہم نظر آنے لگیں تو انسان خود ہی ہم سے ڈرنے لگیں ….اور باقی رہی نظر نہ آنے وانے والی شکایت ….تووہ اس خدا سے کرو خالہ …. جس نے ہمیں نظر نہ آنے والا بنایا ہے….ہم سے نہیں۔‘‘
خالہ خیرن:’’ارے رہنے دو!….تم سے ڈرتی ہے ہماری جوتی۔۔۔تم سے زیادہ ڈراؤنی اور بھیانک شکلیں ہم اپنے بچوں کو ڈراؤنی فلموں میں دکھا چکے ہیں…..باقی رہی یہ بات کہ خدا نے تمہیں ایسا بنایا ہے تو اس نے یہ تو نہیں کہا کہ تم اس چیز کا ناجائز فائدہ اٹھاکر خیرن کا فریج خالی کردو….اصل میں تو اپنا آپ دکھانے سے تم لوگ خود ڈرتے ہو….اگر تم نظر آنے لگو تو ہم تم سے بھی کیلوں کے ٹھیلے نہ لگوا لیں تو انسان نام نہیں…اور تمہارے جیسے تو آلو پیاز ہی بیچ رہے ہوں اور وہ بھی کوئی نہ لے۔۔۔اور بھی کوئی شکایت ہے تو بولو؟‘‘
جن:’’خالہ شکایتیں تو بہت ہیں مگر ایک تو آپ سناتی بہت ہیں اوپر سے جوتی اتنی زور سے مارتی ہیں کہ جن کی بھی چیخیں نکل جاتی ہیں۔‘‘
خالہ خیرن:’’نئیں نئیں بولو ،بولو!۔۔۔کرو اور شکایتیں کرو!‘‘
جن:(معصومیت کے ساتھ)’’خالہ! پہلے تو آپ خالو کا سفید کرتا پاجامہ بڑی الماری میں رکھ دیا کرتی تھیں….تو چلو کہیں آنے جانے میں ہمارے بھی کام آجاتا تھا….مگر اب کچھ دنوں سے آپ نے پتا نہیں کہاں چھپا کر رکھ دیا ہے۔۔۔بس اب آپ سے کیا شکایت کریں۔‘‘
خالہ خیرن:’’کم بخت!بڑا ہی ڈھیٹ جن ہے بھئی…. شکایت بھی کررہا ہے اور کہتا ہے کیا شکایت کریں‘‘۔۔۔(اچانک کچھ سمجھتے ہوئے)…..’’اوہو …اچھاااااا…اب میں سمجھی….پچھلے دنوں دھلے دھلائے صاف ستھرے کرتے پر گاجر کا حلوہ تم لگا لائے تھے؟…میں بھی کہوں کہ الماری میں حلوہ کہاں سے آگیا….کسی گھٹیا قبیلے کے نکمے جن….تمہارا ستیاناس نہیں بلکہ اٹھیا ناس ہو….تم پر کسی بنیے کے گھر کی دیوار گرے کم بخت….خدا کرے تمہاری آنکھوں میں موتیا اترے….تمہارے دانتوں میں گوبھی والا کیڑا لگے….تمہارا بھینس کے گوبر پر پیر آئے….کپڑے صاف ستھرے دھوئیں ہم، پہنو تم….حلوہ بھی لگا لاؤ اور شکایت بھی کرو….نکل جاؤ یہاں سے اور دفع ہو جاؤ فوراً…‘‘
جن:(بچوں کی طرح اچھلتے ہوئے)’’خالہ!…مفت کی چیز کا مزا ہی اور ہے…آپ نے وہ شعر نہیں سنا کہ ؂
لُطف وہ مفت میں پائے ہیں کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں کہ جی جانتا ہے
دیکھئے! …کہ اس شعر میں مفت کی چیزوں کے مزے کو کتنی خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔‘‘
خالہ خیرن:(انتہائی رنجیدہ انداز میں سر پیٹتے ہوئے)’’ہائے ہائے!….مرزا داغ دہلوی!…انسانوں سے تو کیا شکایتیں ہوں…تم تو دنیا سے چلے گئے اور اب تمہارے شعروں کو جن بگاڑتے پھر رہے ہیں….کتنی مظلوم ہے تمہاری شاعری کہ جن اس کو برباد کرکرکے دانشور بنے پھر رہے ہیں۔‘‘
جن:’’خالہ!آپ کو ابھی مفت کی چیزوں کے مزے کا پتا نہیں ہے…آپ کہیں تو میں آپ کو دوچارمفت کی چیزیں لادوں؟…..لطف آجائے گا آپ کوبھی….‘‘
خالہ خیرن:’’مردود! ….مجھے حرام خوری کی پیش کش کر رہا ہے….اب مجھے پتا چلا کہ سادے جن اور شیطان میں کیا فرق ہے….تیرے جیسے جن تو مرتے بھی نہیں ہیں ،کم بخت!…یہ بھی شکر ہے کہ تیرے جیسے شیطان کو ہم سے شکایتیں ہی ہیں۔‘‘
جن:(جذباتی ہوتے ہوئے)’’خالہ….خالہ!…آپ تو کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گئیں ہیں…اب آپ ہی بتائیے کہ آپ سے شکایت نہیں کریں گے تو کس سے کریں گے…اب دیکھئے ناں!…آپ کے بچوں نے آپ کے چینی والے برتنوں کے سیٹ کی دو پلیٹیں ایک ساتھ توڑ دیں….اس کی تو میں نے آپ سے شکایت کی ہی نہیں۔‘‘
خالہ خیرن:(حیرانی سے)’’لووو!….پلیٹیں میری…..بچے میرے….تمہیں بولنے کا حق کس نے دیا؟…اور ان پلیٹوں سے تمہارا کیا واسطہ؟‘‘
جن:(پیار بھرے لہجے میں)’’دیکھو ناں خالہ !……اگر کبھی کبھی میری سالیاں میرے گھر مہمان بن کر آجاتی ہیں اور ہم آپ کا چینی کے برتنوں والا سیٹ استعمال کر لیتے ہیں تو اس میں کیا برائی ہے؟…اس کا بھی آپ کو الگ سے اجر ملے گا…..آخر انسان ہی جنوں کے کام آتے ہیں…انسان اگر جنوں کے کام نہیں آئیں گے تو کون آئے گا؟‘‘
خالہ خیرن:’’ارے او کم بخت جن!‘‘…..(خالہ خیرن جوتی اٹھا کر پیچھے پیچھے اور جن آگے آگے)…..’’آوارہ مخلوق!….تمہیں تو ہماری تخلیق سے ہی شکایت تھی….نکل جاؤ عزت داروں کے گھر سے چور کہیں کے….انسانوں کی خدمت ہوچکی؟… جو اب میں جنوں کی خدمت کرکے اجر کمانے لگی؟‘‘
جن:’’(منت کرتے ہوئے)’’اچھاخالہ جا رہا ہوں ، جا رہا ہوں….مارو نہیں… بس ایک بات سن لو….پھر میں جا رہا ہوں۔‘‘
خالہ خیرن:’’ جلدی بولو اور دفع ہو جاؤ، میرا فشارِ خون بڑھ رہا ہے۔‘‘
جن:’’وہ…خالہ….میں یہ کہہ رہا تھا…کہ….اپنے چھوٹے بیٹے خاور سے ….اگر تھوڑی دیر کے لئے… بس تھوڑی دیر کے لئے….. موٹر سائیکل لے کر دے دیتیں تو میں بھاگ کر دہی لے آتا…..‘‘
خالہ خیرن:’’دہی لے نہیں آتا…. چرا لاتا….اڑ کر چلے جاؤ ناں….اب کہاں گئی صلاحیت؟….رکو!ایسے نہیں جاؤگے۔۔۔‘‘
(خالہ دو جوتیاں اسے پھینک کر مارتی ہیں…جن بھاگتا ہوا باہر نکل جاتا ہے….اتنے میں خالہ کا بیٹا خاور اندر آتا ہے)
خاور:’’امی!میری بائیک بھائی لے گئے ہیں کیا؟‘‘
خالہ خیرن:(ایک بار پھر آگ بگولہ ہوکر جن کو کوسنے لگتی ہیں)’’وہ چور کا بچہ لے گیا ہوگا….خدا کرے کسی پٹھان کے ڈمپر سے حادثہ پیش آئے کم بخت کو…اب دیکھو میں ہر چیز کو کیسے آیت الکرسی کی کنڈیاں اورمعوذتین کے تالے لگا کر رکھتی ہوں…..پھر دیکھتی ہوں کیسے چوری کرتے ہیں خیرن کے گھر سے ….بد بخت.‘‘
(خالہ سبزی اٹھا کر باورچی خانے کی طرف چلی جاتی ہیں….پردہ گرتا ہے۔)
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top