خرگوش کی گیند
کہانی: Brer Rabbit Plays Ball
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ بھائی خرگوش کو بھائی لومڑ کے باغیچے کی چار دیواری سے آلوچے کا درخت نظر آیا۔درخت پر لگے پیلے رنگ کے اتنے عمدہ آلوچے اس نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔
بھائی خرگوش نے دل ہی دل میں سوچا۔’’ اگر میں جا کر بھائی لومڑ کا حال احوال پوچھوں تو شاید وہ مجھے چند آلوچے پیش کرے۔ ویسے بھی بڑی بھوک لگی ہوئی ہے۔‘‘
چنانچہ اس نے دروازہ کھولا اور اپنی چھڑی ہلاتا، سیٹی بجاتا بھائی لومڑ کے گھر کی طرف چل پڑا۔جیسے ہی وہ دروازے پر پہنچا، بھائی لومڑ نے کھڑکی سے سر باہر نکالا اور بولا:
’’مجھے اندازہ تھا کہ آج صبح تم ضرور آئوگے، بھائی خرگوش…اور یہ اندازہ بالکل درست نکلا۔جیسے مجھے یہ یقین ہے کہ میرے نعمت خانے میں مچھلی،، الماری میں شہد اور درخت پر آلوچے موجود ہیں، اسی طرح یہ بھی یقین تھا کہ تم نیل کنٹھ کی طرح شور مچاتے ہوئے نازل ہو جائو گے۔خیر!میں تمہارے آگے دروازہ تو کھولنے والا ہوں نہیں…اور اگر تم فوراً باغیچے سے نہ نکلے تو میں کھڑکی سے چھلانگ لگا دوں گا اور تمہیں چھوڑوں گا نہیں۔‘‘
’’ارے ارے بھائی لومڑ!‘‘ بھائی خرگوش نے دکھی لہجے میں کہا۔’’تمہارے آلوچوں کا خیال کس کو ہے؟میں توتمہیں اپنی نئی اور بہترین گیند دکھانے آیا تھا۔ میں نے سوچا کہ شاید تمہیں کوئی کھیل پسند ہو!‘‘
اس نے اپنی جیب سے ایک بالکل نئی گیند نکالی۔بھائی لومڑ نے دروازہ کھول کر اسے دیکھا۔ یہ سرخ، نیلے، پیلے اور سبز رنگ کی ایک چھوٹی سی گیند تھی۔ بھائی خرگوش نے اسے اتنی زور سے اچھالا کہ وہ بھائی لومڑ کی ٹھوڑی کے نیچے لگی ۔ اس نے جیسے ہی سر نیچے کیا، وہ پکڑ میں آگئی جس سے اس کی تقریباً آدھی زبان کٹ گئی۔
’’باہر آئو اور پکڑنے والا کھیل کھیلو!‘‘ بھائی خرگوش نے کہا۔’’بھائی لومڑ…!مجھے بھائی ریچھ نے بتایا ہے کہ گیند پکڑنے میں تمہیں کوئی نہیں ہرا سکتا!‘‘
چنانچہ بھائی لومڑ، بھائی خرگوش کے ساتھ باغیچے میں آگیالیکن اس سے پہلے کہ کھیل شروع ہوتا، وہ بولا۔’’بھائی خرگوش! اب کوئی مجھ سے یہ نہ کہے کہ میں تمہارے درخت سے آلوچے توڑ سکتا ہوں؟‘‘
اور بھائی خرگوش بولا۔’’ کیا! تمہارے درخت پر آلوچے لگے ہیں!ٹھیک ہے! ٹھیک ہے! ٹھیک ہے! میں انہیں دیکھ ہی نہیں رہا۔نہیں بھائی لومڑ!میں تم سے ایک بھی آلوچہ نہیں مانگوں گا۔اس موسم میں آلوچے ویسے بھی مجھے راس نہیں آتے…پکڑو!‘‘
اس نے اس قدر اچانک گیند پھینکی کہ وہ بھائی لومڑ سے چھوٹ کر دیوار کے پا رچلی گئی۔بھائی لومڑ ہلکا سا غرایااور پھر گیند لینے دیوار کے اُس طرف کود گیا۔جیسے ہی وہ نیچے اترا، بھائی خرگوش نے ٹہنی کو پکڑ کر دو پکے ہوئے آلوچے توڑے اور جیب میں ڈال لیے۔اس سے پہلے کہ بھائی لومڑ گیند پھینکتا، اس نے اپنے پنجے گیند پکڑنے کے لیے تول لیے۔
بھائی لومڑ نے اگلی تین بار کامیابی سے گیند پکڑ لی اور بھائی خرگوش نے اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔یہاں تک کہ بھائی لومڑ خود کو بارہ لومڑیوں کے برابر ہوشیار سمجھنے لگا۔ بھائی خرگوش نے ایک بار پھر اتنی اونچی گیند اچھالی کہ وہ دیوار کے پار چلی گئی۔بھائی لومڑ گیند لینے دیوار کے پار چلا گیا اور دو مزید آلوچے بھائی خرگوش کی جیب میں پہنچ گئے۔یہ سلسلہ چلتا رہا، یہاں تک کہ بھائی خرگوش کی جیبیں اتنی بھر گئیں کہ ان میں گنجائش نہ رہی۔
’’اچھا بھائی لومڑ! میرا خیال ہے، اب مجھے جانا چاہیے۔‘‘ بالآخر بھائی خرگوش نے کہا۔’’گیند کے ساتھ کھیلنے کا شکریہ،آج کا کھیل بہت اچھا رہا۔‘‘
اور جب وہ سڑک پر اتر آیا تو چلا کر بولا۔’’اور آلوچوں کا بھی شکریہ بھائی لومڑ! کیا ہی عمدہ آلوچے ہیں…بالکل پکے ہوئے، کھانے کے قابل۔‘‘
تب بھائی لومڑ نے اپنے آلوچے کے درخت پر ایک نظر ڈالی اور دیوار سے کود کر جتنی تیز بھاگ سکتا تھا، خرگوش کے پیچھے بھاگا۔ مگر خرگوش کھوہ میں پہنچ چکا تھا اور گیند کے اس شریرانہ کھیل پر وہ اس قدر ہنسا کہ لگتا تھا جیسے ہنستے ہنستے اس کی جان نکل جائے گی۔

