skip to Main Content

ہوشیار کتا

کہانی: Good old Jock!
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔

جوک اسکول میں پلا ہوا ایک چھوٹا سا کتا تھا۔ اسکاٹش نسل کے اس سیاہ کتے کی ٹانگیں چھوٹی تھیں، دم ہر وقت ہلتی رہتی تھی، کان تیز اور نوکیلے تھے، آنکھیں بھوری تھیں جن میں ملائمت جھلکتی تھی۔تمام بچے اس سے نہ صرف مانوس تھے بلکہ اسے پسند بھی کرتے تھے۔
وہ بھی بچوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ بچوں کے پیروں اور جوتوں کو چاٹتے اس کی زبان نہ تھکتی تھی۔ وہ روزانہ صبح دروازے پر کھڑا انتظار کرتا کہ مس برائون ابھی گھنٹی بجائیںگی اور بچے بھاگے بھاگے آئیںگے ۔ وہ آنے والے ہر بچے کی طرف بھونکتا اور بچہ اسے تھپکی دے کر کلاس کی طرف بڑھ جاتا۔کچھ بچے اس کے لیے بسکٹ بھی لے کر آتے اور اس طرح وہ ایک چھوٹا سا خوش قسمت کتا تھا۔
اگرچہ اس کی مالکن تو مس برائون تھیں مگر ایسا لگتا تھا جیسے وہ سب ہی بچوں کا مشترکہ ہو۔بچے جب پڑھ رہے ہوتے تو وہ سارا وقت کلاس میں لیٹا رہتا، مگر جیسے ہی موسیقی کا پیریڈ شروع ہوتا، اسے کمرے سے نکلنا پڑتا۔وجہ یہ تھی کہ وہ بھی ان کے ساتھ گانا چاہتا تھا مگر اس کی آواز اس قابل نہ تھی کہ مس برائون اسے برداشت کرتیں۔
ایک مرتبہ ہفتے والے دن بے چاری مس برائون کے ساتھ ایک بھیانک واقعہ پیش آیا۔وہ سیڑھیاں اتر رہی تھیں کہ پھسل کر گر گئیں۔جب اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھ ہی نہ پائیں۔ دراصل ان کی ایک ٹانگ پر بہت بری طرح چوٹ لگ گئی تھی۔
’’اوہ میرے خدا!‘‘ مس برائون کے منہ سے نکلا۔’’اب کیا کروں؟ کسی نہ کسی کی مدد تو چاہیے ہوگی۔ سارا دن میں یہاں پڑی تو نہیں رہ سکتی۔‘‘مگر مدد حاصل کرنے کا کوئی راستہ دکھائی نہ دیتا تھا کیونکہ ہفتے کا دن تھا اور اسکول میں کوئی بچہ موجود نہ تھا۔مس برائون مایوسی سے کراہنے لگیں…اور بھلا وہ کر بھی کیا سکتی تھیں؟پھر جوک اوپر آیا اور مالکن کو وہاں پڑا دیکھ کر حیرت سے بھونکنے لگا۔وہ ان کے پائوں چاٹنے لگااورکپڑے کھینچ کر اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
’’یہ کوئی اچھا نہیں ہواجوک! میں تو ہل بھی نہیں پا رہی!‘‘ مس برائون نے کہا۔’’ کیا تم میری مدد کر سکتے ہو؟ بھاگ کر اسکول کے دروازے سے باہر جائو اور کسی کو ساتھ لے آئو۔‘‘ جوک ان کی بات اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔وہ تیزی سے عمارت سے نکل کر صحن میں آگیا جہاں بچے کھیلا کرتے تھے مگر اسکول کا مرکزی دروازہ بند تھا۔جوک نے اسکول کے دروازے کے اوپر سے چھلانگ لگانے کی کوشش کی مگر اس کی چھوٹی چھوٹی ٹانگیں اس قابل نہ تھیں ۔ اب وہ کیا کرتا؟کاش وہ اپنے دوست بچوں کو بلا کر لا سکتا۔جوک کی سمجھ میں یہ بات کبھی نہ آئی کہ دودن بچوںکو اسکول سے دور کیو ں رکھا جاتا ہے۔وہ ہفتے اور اتوار کے دن ہمیشہ افسردہ رہتا۔جوک بیٹھ کر گہرائی میں سوچنے لگا کہ وہ کس طرح بچوں کوبلا کر لا سکتاہے؟
پھر اس کے کتے والے دماغ میں اسکول کی گھنٹی کی تصویر آئی۔مس برائون جب بچوں کو بلاتی ہیں تو کیا کرتی ہیں؟وہ لکڑی کے دستے کو ہلا ہلا کر بڑی والی گھنٹی کیوں بجاتی ہیں؟جوک اٹھ کھڑا ہوا۔اس کی دم ہلنے لگی۔ کا ش وہ میز پر سے گھنٹی اٹھا سکتا۔
وہ میز پر چڑھنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنی ناک سے گھنٹی کو دھکیلا اور وہ ’’ٹھن ن ن‘‘ کی آواز کے ساتھ زمین پر آگری۔ جوک نے اسے لکڑی کے دستے سے اٹھایا اور باہر کھیل کے میدان کی طرف بھاگا۔وہ اسے منہ میں اٹھائے بھاگتا، نیچے اوپر کودتا، اور پوری قوت سے بجاتا رہا۔
گائوں کے بچوں نے اسکول کی گھنٹی کی آواز سنی تو حیرانی سے دیکھنے لگے۔’’مس برائون ہمیں بلا رہی ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا اور اسکول کی طرف چل پڑے۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جب انہوں نے جوک کو صحن میں چھلانگیں لگاتے، گھنٹی بجاتے دیکھا تو وہ کتنے حیران ہوئے ۔
تھوڑی ہی دیر میں انہیں مس برائون مل گئیں۔بچوں میں سے ایک اپنی امی اور ڈاکٹر کو لے آیا اور تھوڑی ہی دیر بعد مس برائون بستر پر آرام کر رہی تھیں۔جوک کو سراہنے کے لیے کیا ہی زبردست ہنگامہ ہوا…کیونکہ گھنٹی کوبجانا واقعی اس کی ہوشیاری تھی۔ کیا خیال ہے؟

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top