ٹپ ٹپ کا رقص
کہانی: Pitter-Patter’s Dance
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ایک شریر بونا ہوا کرتا تھا جسے تاک جھانک کا بڑاشوق تھا۔نام اس کا’ٹپ ٹپ‘ تھا اور اس کی وجہ ٹپ ٹپ کرتے اس کے تیز پھر تیلے قدم تھے۔اگر آپ نے کھڑکی کے چھتے سے بارش کے قطروں کے ٹپکنے کی آواز سنی ہے تو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے قدموں کی آواز کیسی تھی۔
ایک دن جنگل سے گزرتے ہوئے ٹپ ٹپ نے دو لڑکے دیکھے جو درخت کی چھائوں میں سوئے ہوئے تھے۔اُس دن دھوپ بہت تیز تھی اور لڑکے کافی دور سے چل کر آئے تھے۔بونے کو جو شرارت سوجھی تو اس نے گھاس کے تنکے سے ان کی ناکوں میں گدگدی کی۔ وہ زوردار چھینکوں کے ساتھ جاگ گئے۔ٹپ ٹپ نے جھاڑی کے پیچھے چھپنے کی کوشش کی مگر بڑے لڑکے نے اپنا ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا۔
’’اچھا تو یہ ایک بونا ہے۔‘‘ لڑکا حیرت سے بولا۔’’مجھے نہیں لگتا تھا کہ ایسی چیزیں بھی ہوتی ہیں…دیکھو بل!ایک جیتا جاگتا بونا…! میں اسے چھوٹی سی رسی سے باندھ دیتا ہوں تاکہ یہ بھاگ نہ سکے۔‘‘
اس نے ٹپ ٹپ کے ہاتھ پائوں اس طرح ایک ساتھ باندھے کہ وہ حرکت کرنے قابل نہ رہا۔دونوں لڑکے بیٹھ کر بونے کو دیکھنے لگے۔اس نے بھی رحم طلب نگاہوںسے انہیں دیکھا ۔اور پھر ان سے چھوڑنے کی التجا کی مگر لڑکوں کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا۔
’’بالکل نہیں!‘‘ بل نے جواب میں کہا۔’’تم ہمارے لیے بہت اچھی دریافت ہو۔ہم تمہیں کل اسکول لے جائیں گے اور اپنے ساتھیوں کو زندگی کی سب سے حیرت انگیز چیز دکھائیں گے۔‘‘
’’اگر تم مجھے اٹھانے کی کوشش کرو گے تو میں تمہیں نوچوں گا بھی اور کاٹوں گابھی۔‘‘ٹپ ٹپ نے غصے میں کہا۔
’’اچھا…؟ جب ہم آرہے تھے تو میں نے جنگل میں ایک ڈبہ پڑا دیکھا تھا جو شاید کسی بدسلیقہ شخص نے پھینکا تھا۔‘‘ بل نے کہا۔’’میں واپس جا کر اسے ڈھونڈتا ہوں ، ٹیڈ…! میرے آنے تک تم اس بونے پر نظر رکھو۔ پھر ہم اسے ڈبے میں ڈال کر گھر لے جائیں گے۔‘‘
بل چلا گیا اور ٹپ ٹپ دوسرے لڑکے کو غور سے دیکھنے لگا۔پھر اس نے سیٹی بجانا شروع کردی۔وہ بہت عمدہ سیٹی بجاتا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے بلبل اور کوئل کی آوازیں اس کی ایک سیٹی میں جمع ہوگئی ہیں۔
’’کاش میں بھی تمہاری طرح سیٹی بجا سکتا۔‘‘ ٹیڈ نے کہا۔’’تم بہت ہوشیار ہو۔‘‘
’’ابھی تو آپ نے مجھے ناچتے نہیں دیکھا۔‘‘بونا بولا۔’’میںجب سیٹی بجاتے ہوئے رقص کرتا ہوں تو میرے قدم بارش کے قطروں کی طرح ٹپ ٹپ کرتے ہیں۔ رقص کرتے ہوئے میری رفتار اتنی تیزہوتی ہے کہ میرے پیر شاید ہی آپ کو دکھائی دیں۔جب میں رقص کرتا ہوں تو واقعی ایک دیکھنے والا منظر ہوتا ہے۔بونے میرا رقص دیکھنے کے لیے مجھے بڑی بڑی رقمیں ادا کرتے ہیں۔‘‘
’’میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ٹیڈ نے کہا۔
’’تو ٹھیک ہے، میرے پیر کھولیے! میں اس وقت تک آپ کو رقص کرکے دکھائوں گا جب تک بل واپس نہیں آجاتا۔‘‘ٹپ ٹپ نے کہا۔’’بھلے میرے ہاتھ باندھ کر رکھیے!‘‘
ٹیڈ نے بونے کے پیر کھول دیے۔ٹپ ٹپ ناچنے لگا۔کیا رقص تھا…!!اس نے پہلے پیر جھاڑے اورپھر زمین پر ایسے تھپتھپائے جیسے ڈھول پر لکڑی بجائی جارہی ہو۔وہ کبھی ادھر انگڑائی لیتا کبھی ادھر مڑتا…اور مسلسل سیٹی بجاتا رہا یہاں تک کہ اس کا سر ٹیڈ کی آنکھوں سے تقریباً اوجھل ہوگیا۔
ٹپ ٹپ رقص کرتا ہوا جھاڑی کے پیچھے گیاا ورواپس آگیا۔شاہ بلوط کے درخت کی اوٹ میں گیا اور واپس آگیا۔پھر وہ تمام جھاڑیوں کے گرد رقص کرنے لگا…اور سارے درختوں کے گرد ناچنے لگا…اور ناچتے ناچتے پگڈنڈی سے اتر گیا… اور جنگل کے اندر ناچنے لگا…اور اس کا رقص دور ہوتا گیا…ہوتا گیا۔
چنانچہ جب بل ڈبہ لے کر واپس آیا تو ٹیڈ بے وقوفوں والا منہ لیے بیٹھا تھا جبکہ بونا غائب تھا۔آہ ! آپ نے دیکھا کہ پری زاد کو پیچھے دیکھ بھال کے لیے ایک تیز عقل والے نگہبان کی ضرورت تھی، جبکہ اس سے تو ایک بونا نہیں سنبھالا گیا۔