زمین گول ہے
عبدالقادر
یہ قصہ ہے افیمی کا، جو اک گاؤں میں رہتا تھا!! |
نشہ کرنے کی عادت تھی، بہت ہی بھولا بھالا تھا |
لڑکپن گاؤں میں گزرا، جوانی بھی وہیں گزری |
سیاحت کی تمنا تھی تو اس نے کرلی تیاری |
سویرے ایک دن گھر سے روانہ ہو گیا پیدل |
تھا کچا راستہ اور ہر طرف پھیلا ہوا جنگل |
سفر مغرب کی جانب تھا ، وہ چلتا ہی رہا سیدھا |
ہوئی جب دوپہر تو ایک برگد کا شجر دیکھا |
اُسی برگد کے سائے میں افیمی سو گیا تھک کر |
مزے سے نیند لی ٹھنڈی ہوا میں اُس نے گھنٹہ بھر |
ہوا بیدار تو مشرق کی جانب راہ لی اپنی |
خبر اس کو نہیں تھی سمت اس کی ہو گئی الٹی |
وہ چلتا ہی رہا اپنی ترنگ میں اور کوشش تھی |
پہنچ جاؤں کسی بستی میں رات آنے سے پہلے ہی |
غروب ہونے لگا سورج تو اپنے گاؤں میں پہنچا |
مگر سمجھا افیمی نے میں اگلے گاؤں میں پہنچا |
جب اُس نے گاؤں کو دیکھا، بہت یکسانیت پائی |
کہا یہ گاؤں لگتا ہے مرے دیہات کا بھائی |
دکانیں اور گلی کوچے، مجھے ویسے ہی لگتے ہیں |
وہی شکل و شباہت کے یہاں انسان بستے ہیں |
میں جس بستی میں رہتا ہوں، اُسی کا سارا نقشہ ہے |
مجھے پورا یقین ہے یہ مرے گاؤں کا چربہ ہے |
ہے میرا گھر بھی ایسا ہی جو میرے سامنے گھر ہے |
یہ گاؤں تو مرے دیہات کا جڑواں برادر ہے |
قدم گھر میں رکھا تو ایک محترمہ نظر آئی |
افیمی نے وہ صورت اپنی بیگم کی طرح پائی |
کہا آواز بھی اس کی مری بیگم کی جیسی ہے |
جو عورت اس مکاں میں ہے، مری بیگم کی کاپی ہے |
ہوئی جب بات عورت سے تو یہ عقدہ کھلا اس پر |
یہی ہے میرا گاؤں ، میری بیگم اور میرا گھر |
تعجب تھا افیمی کو ، سفر میں پورا دن گزرا |
میں چلتا ہی رہا سیدھا تو کیسے اس جگہ پہنچا ؟ |
افیمی نے جب اپنی عقل کے گھوڑے کو دوڑایا |
سمجھ دانی سے فوراً حل معمے کا نکل آیا |
زمیں کا پورا چکر میں نے اک دن میں لگایا ہے |
عظیم الشان کرتب ما بدولت نے دکھایا ہے |
’’زمیں ہے گول‘‘ اس دعوے کو ثابت کر دیا میں نے |
ثبوت اپنے سفر سے آج حاصل کر لیا میں نے |
Facebook Comments