skip to Main Content

وزیر کا چناؤ

فرخندہ لودھی
۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے ،کسی بادشاہ کو اپنا وزیر تلاش کرنے کی ضرورت آپڑی۔ پرانا وزیرا چانک مر گیا۔ اس کے تین نائب وزیر بھی تھے انہیں میں سے ایک کو وزیر اعظم بنانا تھا۔ تینوں عقلمند، وفادار، ہوشیار اور خدمت گزار تھے۔ ان میں سے ہر ایک نے بڑھ چڑھ کر بادشاہ کی خدمت کی تھی۔ اب بادشاہ کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ ان میںسے کس کو وزیر اعظم چنے اور کس کو چھوڑ دے۔
بادشاہ ہر وقت فکر مند رہتا حتیٰ کہ سوچ سوچ کر وہ بیمار پڑ گیا۔ اس کے دماغ پر بھی اس پریشانی کا اثر ہوا۔ اسے باتیں بھولنے لگیں۔ بھوک کم ہو گئی۔ راتوں کی نیند اُڑ گئی۔ لوگ جب کوئی بات کہتے تو لگتا جیسے یا تو اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا یا سنائی نہیں دے رہا۔ غرض وزیر کے چناؤ کے مسئلے نے اسے پاگل سا کر دیا۔
در باری جانتے تھے کہ بادشاہ صرف اس مسئلے کی وجہ سے پریشان ہے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ بادشاہ کو اُداس دیکھ کر سب کے دل دُکھتے تھے۔ آخر ایک دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ کسی نہ کسی طرح بادشاہ کو دریا کے کنارے پکنک منانے پر رضا مند کر لیا جائے۔ ممکن ہے کھلی فضا اور دریا کے نظارے سے بادشاہ کی طبیعت بہل جائے۔ در بار کے کاموں اور ملکی مسائل سے کچھ دیر کے لیے نجات پا کر بادشاہ کو یقینا خوشی ہوگی لہٰذا بادشاہ کو سمجھابجھا کر پکنک منانے پر رضا مند کر لیا گیا اور پروگرام کے لیے دن بھی مقرر ہو گیا۔
مقررہ دن بادشاہ اپنے وزیروں، درباریوں اور ملازموں کے ہمراہ دریا کے کنارے شاہی پکنک منانے چلا گیا۔ درباریوں نے بادشاہ کی تفریح کے لیے کھانے پینے کے علاوہ کھیل اور تماشے کا اہتمام بھی کیا تھا، جس کا جی چاہے نہائے اور دریا میں پیرا کی کرے۔ دن نہایت خوبصورت تھا۔ پکنک پر آیا ہوا ہر شخص تفریح کے موڈ میں تھا۔
تمام انتظامات مکمل تھے۔ اچھے لوگ ساتھ تھے۔ بہترین پکے ہوئے انواع و اقسام کے کھا نے …بادشاہ پر ان چیزوں کا بڑا اچھا اثر ہوا۔ کئی دن بعد بادشاہ اپنی فکر کو بھول کر سیر و تفریح کا لطف اٹھانے لگا۔ موسیقار دھیمے سروں میں ساز بجارہے تھے۔ دریا کی لہروں میں بھی موسیقی تھی۔ بادشاہ نہایت اطمینان سے دریا کے کنارے بیٹھا موسیقی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر قریب بیٹھے ہوئے تینوں نائب وزیروں پر پڑی اور پھر اس فکر نے بادشاہ کوگھیر لیا۔ وزیر اعظم کے چناؤ کا مسئلہ پھر اس کے ذہن میں تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے صاف ستھرے آسمان کو اچانک سیاہ بادلوں نے ڈھانپ لیا ہو۔ بادشاہ کی ساری خوشی اور بے فکری کا فور ہوگئی۔ بادشاہ اب خالی خالی نظروں سے دریا کی کی چمکیلی لہروں کو گھور رہا تھا۔ دیکھتے دیکھتے اس کی نظرایک گول سی چیز پر پڑی جو دریا میں بہتی چلی آرہی تھی۔
بادشاہ نے فورا ًاپنے پاس بیٹھے وزیروں کو مخاطب کیا اور کہا:
’’سامنے دریا میں کوئی چیز بہتی آرہی ہے۔ نہ معلوم کیا ہے؟‘‘
تینوں میں سے ایک نے آنکھوں پر ہاتھ کا سایہ کیا اور غور سے دریا کی طرف دیکھ کر بولا:
’’عالی جاہ! جہاں تک میرا خیال ہے کوئی پھل قسم کی چیز ہے۔‘‘
دوسرا وزیر اسی وقت اٹھ کر دریا کے پانی کے عین قریب چلا گیا۔ کچھ دیر پانی کو دیکھتا رہا پھر واپس آکربادشاہ سے کہنے لگا:
’’جی ہاں۔ عالی جاہ! یہ پھل ہی ہے غالبا آم ہے۔‘‘
اسی وقت تیسرا نائب وزیر بغیر کچھ کہے اٹھا اور پانی کے بہاؤ کے قریب چلا گیا۔ آم اب دریا کے اسی حصے میں لہروں پر بہتا آگے نکل جانے کو تھا کہ اس نے پگڑی اور چغہ اتارا اور دریا میں کود گیا۔ پھر تیرتے ہوئے پھل کے قریب پہنچا اور اسے اُچک لیا۔ پھل لے کر جلدی سے کنارے پر آیا اور نہایت احترام کے ساتھ بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بولا:
’’جی ہاں! عالی جاہ! یہ بالکل تازہ آم ہے۔ اسے خوش ذائقہ بھی ہونا چاہیے کیونکہ اعلیٰ قسم کا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر تیسرے نائب وزیر نے آم بادشاہ کے ہاتھ میں دے دیا۔ بادشاہ وزیر کی جرات دیکھ کر بے حد خوش ہوا اور اسے یوں لگا کہ اس کے ذہن پر چھایا ہوا بادل ایک دم چھٹ گیا ہے۔ یہی وہ شخص ہے جس کو وہ اپنا زیر بناسکتا ہے۔ ایسا آدمی جو اس کی خوشنودی کے لیے ہر وقت تیار رہے اور پھرتی سے کام کرے وہی وزیر اعظم بننے کا حقدار ہے۔ مجھے وزیر کے عہدے کے لیے ایسا ہی آدمی چاہیے۔ ’’میں نے فیصلہ کر لیا۔ ‘‘بادشاہ نے دل ہی دل میں کہا:
اس شام بادشاہ نے دربار لگایا اور تمام درباریوں کو طلب کر کے کہا:
’’میں آج ایک ضروری اعلان کر رہا ہوں۔‘‘
سب درباری حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پکنک کا بادشاہ کی طبیعت پر ایسا اچھا اثر پڑے گا، انہیں یقین نہیں آتا تھا جب سب اہل دربار جمع ہو گئے تو بادشاہ نے اپنی بارعب آواز میں اعلان کیا:
’’میں نے اپنا وز یر اعظم چن لیا ہے۔‘‘
حاضرین میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی۔ سب کے ذہن میں یہی دو سوال تھے۔ کس کو وزیر اعظم چنا ہے…؟ بادشاہ اس فیصلے پر اچانک کیسے پہنچ گیا…؟
بادشاہ کچھ دیر خاموش رہ کر اپنے درباریوں کی بے چینی کا مزہ لیتا رہا پھر بولا:
’’دریا کی لہروں پر بہتے ہوئے ایک آم نے مجھے فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایک آدمی جسے نہ تو میں نے حکم دیا اور نہ کوئی اشارہ کیا، وہ فوراً دریا میں کود پڑا اور آم پکڑ کر میرے پاس لے آیا۔ میں آج سے اس کو اپنا وزیر اعظم مقرر کرتا ہوں۔آپ سب کو اندازہ ہو گیا کہ کون وزیر اعظم ہوگا؟‘‘
بادشاہ نے پھر کہا۔’’ مجھے یقین ہے کہ وہ آدمی جوچھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے اتنی جرات دکھاتا ہے، وہ بڑے کاموں کو بھی خوبی سے کرے گا۔ میں نے اس شخص کو اس کی باتوں سے نہیں اس کے کام سے پہچانا ہے…اور میں اپنے فیصلے پر خوش ہوں۔‘‘

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top