استاد کا تھپڑ
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔
ہندوستان کے مغل بادشاہ شاہ جہان کو اپنے بیٹے اورنگ زیب(عالمگیر) کے لیے اتالیق(استاد، تربیت کرنے والے) کی تلاش ہوئی تو اس کی نظردین کے ایک بہت بڑے عالم ملا عبداللطیف رحمہ اللہ پرپڑی جو ریاست کپورتھلہ (اب بھارت میں ہے) کے ایک قصبے سلطان پورمیں رہتے تھے اور دینی مدرسے میں کو تعلیم دیتے تھے۔ بادشاہ نے ملاصاحب کو شہزادے کا اتالیق مقرر کر کے انہیں لکھاکہ آپ دلی تشریف لائیں۔ملا صاحب نے بادشاہ کولکھ بھیجا کہ پیاسا کنوئیں کے پاس آتا ہے نہ کہ کنواں پیاسے کے پاس۔ ملا صاحب نے بادشاہ کوایسا جواب اس لیے دیا تھا کہ ان کے دلی جانے کے نتیجے میں سلطان پورکا دینی مدرسہ اجڑ جانا تھا اور یوں طالب علموں کی تعلیم ادھوری رہ جانی تھی۔ بادشاہ علما کا بہت قدردان تھا اور ان کی بہت عزت کرتا تھا۔ اس نے شہزادے کو ایک خادم کے ساتھ ملا صاحب کے پاس سلطان پوربھیج دیا۔
ایک دن شہزادے نے سبق یاد نہ کیا تو ملاصاحب نے اس کو ایسا زور دار تھپڑ ماراکہ اس کی ناک سے خون بہنے لگا۔خادم نے اس واقعہ کی اطلاع بادشاہ کو دی تو شاہی بیگمات اور شہزادے کی بہنوں کو سخت غصہ آیا اور انھوں نے بادشاہ سے کہا کہ ملاصاحب کو سخت سزا دی جائے لیکن نیک بادشاہ کے نزدیک استاد کا مرتبہ بہت بلند تھا اور اس کو پوراحق تھا کہ اپنے شاگر دکوسبق یاد نہ کر نے پر سزا دے۔ اس نے فرمان جاری کیا کہ ملا صاحب کو ہزار بیگھہ زمین سلطان پور کے رقبہ سے دی جائے۔ ملا صاحب کو اس فرمان کا علم ہوا تو انھوں نے بادشاہ کولکھ بھیجا کہ اللہ تعالیٰ مجھے مانگے بغیر وافررزق دے رہا ہے۔ مجھے زمین کی ضرورت نہیں۔ بادشاہ نے بہت اصرار کیا کہ وہ یہ زمین کر قبول لیں لیکن ملا صاحب نے انکار کر دیا۔ آخر بادشاہ نے یہ زمین مدرسہ کے نام وقف کر دی۔