skip to Main Content

درویش وزیراعظم

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

دکن کے بہمنی خاندان کاذ کر پیچھے آ چکا ہے۔ اس خاندان کا تیرہواں بادشاہ محمدشاہ ثانی بہمنی تھا۔ اس نے 1463 عیسوی سے 1482 عیسوی تک حکومت کی۔ اس کی وسیع سلطنت ہزار ہا مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی۔ اس بادشاہ کے سب سے بڑے وزیر (وزیراعظم) کانام خواجہ محمود گاواں تھا۔ (بعض نے گاواں کے بجائے کا واں لکھا ہے۔) اس کا اصل نام خواجہ عمادالدین محمود تھا اور وہ ایران کے مشہور شہر گیلان کے قریب ایک گاؤں گاواں (یا کاواں) میں ایک نہایت معزز خاندان میں پیدا ہوا۔ اسی گاؤں کی نسبت سے اس نے محمود گاواں کے نام سے شہرت پائی۔ اس کے باپ دادا اور کئی دوسرے بزرگ گیلان کے بادشاہوں کے وزیر رہے تھے۔ خواجہ محمود گاواں نے بڑی اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کئی دینی علوم وفنون میں اس کو درجہئ کمال حاصل ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ وہ ایک اونچے درجے کا ریاضی دان، طبیب اور شاعر تھا اور اس کی لکھائی اتنی عمد ہ ہوتی تھی کہ بڑے بڑے خوش نویس (کاتب) اس پر رشک کرتے تھے۔ وہ قرآن وحدیث اور فقہ کا نہ صرف خود بڑا عالم تھا بلکہ علماء کا بے حد قدردان بھی تھا۔ خواجہ نے تعلیم سے فارغ ہو کر تجارت کا پیشہ اختیار کیا اور اپنی لیاقت اورایمانداری کی بدولت بہت بڑے تاجروں میں شمار ہونے لگا۔وہ بہمنی بادشاہ علاؤالدین کے عہد حکومت(1435ء تا1458ء) میں کسی وقت تجارت کے سلسلے میں دکن (ہندوستان) آیا۔ اتفاق سے ایک دن اس کی ملاقات بادشاہ علا ؤالدین بہمنی سے ہوئی۔ ملاقات کے دوران میں بادشاہ نے محسوس کیا کہ محمود گاواں نہایت قابل آ دمی ہے اور بڑی خوبیوں کا مالک ہے۔ اس نے خوا جہ کو شاہی ملازمت پر راضی کر لیا اور اسے اپنے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے پر مقرر کر دیا۔ علاؤالدین بہمنی کے بعد ہمایوں شاہ بہمنی، نظام شاہ بہمنی اور محمد شاہ ثانی بہمنی بادشاہ بنے۔ ان سب نے خواجہ محمود کی قدر دانی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور اسے اپنے اپنے دربار میں اعلیٰ عہدے پر مقرر کیا۔ یہاں تک کہ محمد شاہ ثانی بہمنی (1463تا1482) نے اس کو اپنا سب سے بڑ اوزیر (وزیراعظم) مقرر کر دیا۔ یہاں سے خواجہ محمود گاواں کی زندگی کا وہ زمانہ شروع ہوا جس کی بدولت اس کو تاریخ میں درویش وزیراعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس سے پہلے بھی اس نے بڑے بڑے عہد ے پا کر اپنے دماغ میں کبھی غرور کو جگہ نہ دی تھی اور جہاں سرکاری کاموں کو نہایت ایمانداری اور محنت سے انجام دیا تھا وہاں عام لوگوں کی خدمت میں بھی اپنے آپ کو مصروف رکھا تھا۔ وزیراعظم بننے کے بعد تو اس نے اپنی زندگی کو درویشی میں بدل لیا۔ وہ بالکل سادہ اور معمولی لباس پہنتا اور پلنگ یا گدوں کو چھوڑ کر چٹائی پر سوتا۔ اس نے شہر بھر میں ایک بڑا دینی مدرسہ بھی قائم کیا جس میں سینکڑوں طلبہ تعلیم پاتے تھے۔ ان کو کھانا اور کتا بیں وغیرہ سب چیز یں خواجہ کی طرف سے دی جاتی تھیں۔ خواجہ سلطنت کے کاموں سے فارغ ہو کر مسجد میں درویشوں کے پاس جا بیٹھتا۔ اسے علماء اور درویشوں سے بڑی محبت اور عقیدت تھی۔ ان کے حالات معلوم کر تار ہتا۔کوئی بیار ہو جاتا تو اس کی تیمارداری کرتا۔ کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو اسے دور کرتا۔ کسی کو کوئی حاجت ہوتی تو وہ پوری کرتا۔ وہ راتوں کو بھیس بدل کر اشرفیاں اور روپے لے کر گلی گلی گھومتا اور ضرورت مندوں میں یہ دولت تقسیم کرتا اور ان سے کہتا کہ یہ بادشاہ کی طرف سے تحفہ ہے۔ بادشاہ کی عمر اور ملک کی ترقی کی دعا کرو۔ خواجہ کی خوراک بھی بالکل سادہ ہوتی تھی۔ خودتو روکھی سوکھی روٹی کھا کر اللہ کاشکرادا کرتا تھالیکن درویشوں اور طلبہ کو اچھے سے اچھے کھانے کھلاتا تھا۔ اسے جوتنخواہ ملتی وہ غریب، محنتی اور بے سہارالوگوں میں تقسیم کر دیتا اور اپنے پاس صرف اتنی ہی رقم رکھتا جس سے غریبانہ طور پرگزر اوقات ہو سکے۔
خواجہ محمود گاواں نے اپنی تجارت کے زمانے میں جو مال اسباب اور زروجواہر جمع کیے تھے۔ وہ سب اس نے علما ء، درویشوں اور غریبوں میں تقسیم کر دیے تھے اور صرف کتابیں،ہاتھی اور گھوڑے اپنے پاس رکھے تھے۔ اس کے ایک نہایت پیار ے دوست شمس الدین محمد نے اس سے پوچھا، اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ نے اپنا سارا مال اسباب تو لوگوں میں بانٹ دیا لیکن کتابیں، گھوڑے اور ہاتھی اپنے پاس ہی رکھے؟
خواجہ نے جواب دیا:
”میں ان تینوں چیزوں کو اپنی ملکیت نہیں سمجھتا۔کتابوں کے مالک تو طلبہ ہیں، یہ انہی کو دی جائیں گی۔باقی رہے گھوڑے اور ہاتھی تو ان کا مالک بادشاہ ہے۔ یہ کچھ دنوں کے لیے میرے پا س ہیں پھر انہیں شاہی اصطبل میں پہنچا دیا جائے گا۔“
خواجہ محمود گاواں کی رحم دلی کا یہ حال تھا کہ کبھی کوئی مصیبت کا مارا آدمی اس کے پاس آیا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے اور آنے والے کی مصیبت دور کرنے کے لیے اس سے جو کچھ ہو سکتا تھاکرتا تھا۔ ایساکبھی نہیں ہوا کہ اس کے دروازے سے کوئی خالی ہاتھ گیا ہوا۔
خواجہ محمود گاواں صرف ایک لائق وزیر اور درویش انسان ہی نہیں تھا بلکہ ایک دانا اور بہادر جرنیل بھی تھا۔ کئی موقعوں پر جب بادشاہ کے خلاف بغاوت ہوئی یا اس کی سلطنت کے پڑوسی دشمنوں نے اس کے خلاف سراٹھایا توبادشاہ نے باغیوں اور دشمنوں کی سرکوبی کے لیے خواجہ فوج دے کر بھیجا۔ خواجہ نے ایک سپہ سالا رکی حیثیت سے اپنی فوج کو ایسے عمدہ طریقے سے لڑایا کہ دشمن ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے۔
خواجہ کی درویشانہ زندگی، غریبوں سے ہمدردی، یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی، علم دوستی، رحم دلی، سخاوت اور دوسری نیک عادتوں نے اس کو اس قدر ہر دلعزیزبنا دیا تھا کہ سلطنت کے دوسرے امیر اور سرکاری افسر ان اس سے حسد کرنے لگے تھے۔ ان لوگوں نے خواجہ کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا کہ بادشاہ کو خواجہ کے خلاف کر دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے خواجہ کی طرف سے بادشاہ کے ایک دشمن کے نام ایک جعلی خط تیار کیا جس میں بادشاہ (محمد شاہ بہمنی) کے خلاف بہت کچھ لکھا گیا تھا اور دشمن کو بادشاہ کے خلاف بغاوت کر نے پراکسایا گیا تھا۔ حاسد شاہی امیروں نے یہ جعلی خط بادشاہ کے سامنے اس وقت پیش کیا جب وہ نشے کی حالت میں تھا۔ بادشاہ یہ خط پڑھ کر غصے سے دیوانہ ہو گیا اور تحقیق کے بغیر جلاد جو ہر حبشی کو حکم دیا کہ خواجہ محمود گاواں نے نمک حرامی کی ہے اس کو فوراً قتل کر دو۔ خواجہ اس وقت در بار میں موجود تھا۔ اس نے اپنی بے گناہی کی قسم کھائی اور کہا کہ یہ خط میں نے ہرگز نہیں لکھا کسی نے میری مہر چرا کر اس پر لگائی ہے لیکن بادشاہ نے ایک نہ سنی اور خواجہ کے قتل کا حکم دے کر محل کے اندر چلا گیا۔ اس کے جانے سے پہلے خواجہ نے یہ الفاظ کہے۔
”مجھ بوڑھے کوموت کے گھاٹ اتارنا آسان ہے لیکن یہ یاد رکھو کہ میرا خون تمہاری بدنامی اور سلطنت کی تباہی کا باعث ہوگا۔“
بادشاہ پر خواجہ کی بات کا کچھ اثر نہ ہوا۔ جوہر حبشی اب تلوار سونت کر خواجہ کی طرف بڑھا۔خواجہ قبلہ کی طرف منہ کر کے دوزانو ہوکر بیٹھ گیا۔ اس نے کلمہ شہادت پڑھا اور کہا کہ اللہ کی حمد جس نے مجھے شہادت کی نعمت بخشی۔ اس کے ساتھ ہی جوہر حبشی نے تلوار کے وار سے اس کا سرتن سے جدا کر دیا۔
یہ واقعہ کم اپریل 1481 عیسوی کو پیش آیا۔ خواجہ کی شہادت کی خبر پھیلی تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ ملک بھر میں کوئی آ نکھ ایسی نہ تھی جس نے آنسونہ بہائے ہوں۔ بعد میں بادشاہ کو پتا چل گیا کہ اس سے فریب کیا گیا ہے اور اس سے خواجہ کو ناحق قتل کرایا گیا ہے، حالانکہ وہ اس کا سچا خیر خواہ تھا لیکن اب پچھتانے کے سوا کیا ہوسکتا تھا۔ وہ روزانہ خواجہ کو بار بار یاد کرتا اور پشیمانی کے آنسو بہاتا تھا…… اس غم اور پچھتاوے نے مرتے دم (1482ء) تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا جب کہ خواجہ کو یاد کر کے دکن کے لوگ سالہا سال تک روتے رہے اور اس کی بخشش کے لیے دعائیں کرتے رہے۔ خواجہ محمود گاواں کی شہادت کے جلد ہی بعد بہمنی سلطنت پر زوال آ گیا اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر 1562 عیسوی میں بالکل ختم ہوگئی۔

***

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top