تین شکاری
کہانی: The Three Hunters
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
ہفتے کا دن تھا۔ لیزلی، ایلن اور مولی کی چھٹی تھی اور وہ اپنے چھوٹے کتے جو کر کے ساتھ گلی میں کھیل رہے تھے۔
’’آئو شکاریوں والا کھیلیں!‘‘ لیزلی نے کہا۔’’میں نے جھاڑی سے ایک ٹہنی کاٹ لی ہے۔ سمجھو یہ میرا نیزہ ہے۔‘‘
’’ اور میں نے خود ہی لکڑی کی تلوار بنا لی ہے۔‘‘ ایلن نے کہا۔
’’اور میرے پاس کمان کے علاوہ چھوٹی چھوٹی تیلیاں بھی ہیں جو تیروں کا کام دیں گی۔‘‘ مولی نے کہا۔’’ مگر ہم کس چیز کا شکار کریں گے؟‘‘
’’آئو کھیتوں میں چرتی گایوں کو شیر سمجھ کر ان کا شکار کریں۔‘‘ لیزلی نے کہا۔
’’لیکن اگر ہم گایوں کا پیچھا کریں گے تو کسان برداشت کرے گا؟‘‘ ایلن نے کہا۔’’ میرا خیال ہے ہم شکار کرنے کی صرف اداکاری ہی کریں تو بہتر ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ، ہم صرف ڈرامہ کریں گے۔‘‘ لیزلی نے کہا۔’’ہم باڑ کے اس سوراخ سے رینگتے ہوئے اندر جائیں گے اور شیروں کے سامنے جا نکلیں گے۔‘‘
’’مجھے یقین ہے کہ وہاں کچھ شیر بھی ہیں۔‘‘ مولی نے اپنی کمان پر تیر چڑھاتے ہوئے کہا۔
’’اور مجھے دھبوں والا تیندوا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ ایلن نے اپنی تلوار کھینچتے ہوئے سرگوشی کی۔’’ تو آج ہم جنگلی جانوروں کا شکار کریں گے اور ذرا بھی خوف زدہ نہیں ہوںگے۔‘‘
وہ باڑ سے اندر جا چکے تھے…جوکر کتا بھی ساتھ ساتھ تھا۔گائیں گھاس چرنے میں اتنی مصروف تھیں کہ انہوں نے ارد گرد رینگتے بچوں کو دیکھنے تک کی زحمت نہیں کی۔لیکن عزیز ساتھیو! جوکر کتے نے گایوں کے ارد گرد جب بھونکنا شروع کیا تو انہیں بہت ناگوار گزرا۔ انہیں کتوں پر بالکل بھروسہ نہیں تھا۔
’’باں ں ں ں ں ں!‘‘ ایک گائے نے اتنی زور سے آواز نکالی کہ بچے اچھل پڑے۔
’’ایک شیر دھاڑ رہا تھا۔‘‘ ایلن سرگوشی کے انداز میں بولا۔’’آگے بڑھو کہ آخر ہم دنیا کے تین بہادر شکاری ہیں۔‘‘
وہ مزید قریب ہوگئے…کتا بھی ساتھ ہی تھا۔خاموش کھڑی گایوں نے ذرا زیادہ محسوس کرلیا۔سب ہی سر اٹھا کر بچوں اور کتے کو دیکھنے لگیں۔
ایک گائے نے’’باں ں ں ں ں…‘‘کرتے ہوئے جو کر کی طرف ایک قدم بڑھایا۔
’’باں ں ں ں ں…‘‘ اچانک ایک اور گائے نے آواز نکالی اور سر نیچے کیا جیسے کتے کے پیچھے بھاگنے کا ارادہ کر رہی ہو۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ ابھی بچوں کی طرف بھاگ پڑے گی کیونکہ کتا بھی بچوں کے قریب ہی تھا۔
لیزلی، ایلن اور مولی نے رک کر گایوں کی طرف دیکھا۔ مولی نے کہا۔’’ یقینا انہیں شیر، چیتا اور تیندوا بننا پسند نہیں …جبھی وہ ناراض لگ رہی ہیں۔‘‘
’’باں ں ں…آں ں …ںں‘‘سامنے کھڑی ایک گائے بولی تو مولی خوف زدہ ہو کر اچھل پڑی۔وہ اپنے تیر کمان چھوڑ کر باڑ کی طرف بھاگی۔ایلن بھی اپنی تلوار پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا۔لیزلی بھی ان کے پیچھے پیچھے تھا۔ البتہ اس نے لاٹھی ابھی تک اٹھا رکھی تھی کہ کہیں گائیں حملہ ہی نہ کردیں۔گایوں نے جو کر کتے کو جب بھاگتے دیکھا تو اطمینان سے سر جھکا کر گھاس کھانے لگیں۔
بچوں نے بھاگتے ہوئے باڑ پار کی اور گلی میں آگرے۔کسان ’مسٹر سٹراس‘یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ وہ انہیں دیکھ کرہنسنے لگا۔
’’تم لوگ گایوں کا شکار کر رہے تھے یا گائے تمہارا شکار کر رہی تھیں؟‘‘ اس نے کہا۔’’میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میری بوڑھی اور شریف گائیں تم لوگوں کو اس طرح دھمکا کر بھگائیںگی۔‘‘
’’لیزلی، ایلن اور مولی کے چہرے سرخ ہوگئے۔ آخر ان کی ساری بہادری جو نکل گئی تھی۔
’’تم جا ئو اور آرا م سے جا کر بیروں کا شکار کرو۔‘‘ مسٹر سٹراس نے نہایت شفقت سے کہا۔’’ میرے پہاڑی والے باغ میں بہت کچھ ہے۔جائو اور کالے بیروں کا محفوظ شکار کرو۔وہ نہ تو آوازیں نکالیں گے اور نہ ہی تمہیں گھر کی طرف بھگائیں گے۔’’
’’بہت شکریہ!‘‘ بچوں نے کہا اور وہ دوسرے شکار کی طرف بھاگے۔