تربیت ایسے بھی ہوتی ہے
طالب ہاشمی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ حضرت عمر بن عبدا لعزیزؓ کی پرورش بچپن میں بڑے امیر انہ طریقے سے ہوئی تھی۔اس کے ساتھ ان کی تربیت بھی بڑے اچھے طریقے سے کی گئی تھی۔تربیت کا مطلب ہے،اچھی عادتیں سکھانا اور تعلیم دینا وغیرہ۔ان کے والد عبدا لعزیز مصر کے گورنر تھے۔انہوں نے حضرت عمرؓ کے لڑکپن میں ان کو مدینے بھیج دیا تاکہ وہاں کے ایک بڑے عالم حضرت صالح بن کیسان ؒ کی نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت ہو سکے۔
ایک دن عمر بن عبدالعزیز نماز کے لئے مسجد میں دیر سے آئے۔استاد نے پوچھا:
”نماز میں دیر کیوں کی۔“انہوں نے جواب دیا:
”میں ذرا بال سنوار رہا تھا، اس لئے دیر ہو گئے۔“
استاد نے کہا:
”بالوں کوسنوارنے میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہو کہ نماز کا وقت نکل جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تم بالوں کے سنوارنے کو نماز سے زیادہ ضروری سمجھتے ہو۔“اس کے بعد استاد نے یہ واقعہ عبدالعزیز کو لکھ بھیجا۔
عبدالعزیز نے استاد کا خط ملتے ہی اپنا ایک خاص خادم مدینے روانہ کیا اور حکم دیا کہ” مدینہ پہنچتے ہی عمر کے سر کے بال مونڈ نا اس کے بعد کوئی اور کام کرنا۔“
وہ خادم مدینے آیا اور سب سے پہلے عمر کاسر مونڈا،اس کے بعد کوئی دوسرا کام کیا۔
یہی عمرؓ جب خلیفہ بنے تو اتنی سادگی اختیار کی کہ’ فاروق ثانی‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔