سوچ بدل گئی!
شیخ فرید
۔۔۔۔۔
یہ شان گل کے گھر کا ڈرائنگ روم تھا، جہاں ایک میز کے کنارے شان گل کے دوست بیٹھے اپنے محلے کے اہم موضوع پر غور و خوص کر رہے تھے۔
مسئلہ زیرِ بحث تھا کہ محلے سے منشیات کے اثرات کو جیسے کم کیا جائے؟ شان گل اور اُس کے دوستوں کو زیادہ تشویش محلے کے دو لڑکوں جانان اور شیر خان کی تھی جو منشیات کی لت میں بُری طرح پڑ چکے تھے۔
شان گل کے مطابق محلے کے کچھ اور بھی لڑکے منشیات کے عادی بن گئے ہیں۔
شان گل کا کہنا تھا کہ ہمیں پہلے پورے محلے کے منشیات کے عادی افراد کی فہرست ترتیب دینی چاہئے، پھرہر ایک سے فرداً فرداً ملا جائے اور اُنھیں منشیات کے نقصانات سے آگاہ کیا جائے۔ اور منشیات سے چھٹکارا دلانے میں مدد کی جائے۔
اب سوال یہ تھا کہ اِس کا طریقہ کار کیا ہونا چاہئے؟
شان گل کا دوست بولا،’’ ہم سب سے پہلے جانان اور شیر خان سے ملتے ہیں۔ اور اُن سے پوچھتے ہیں وہ منشیات کا استعمال کیوں کر رہے ہیں۔‘‘
’’منشیات لینے کی وجوہات جاننے کے بعد ہی منشیات سے اُنھیں دور رکھنے کی کوئی پلاننگ کرنی ہو گی…‘‘ شان کے دوست کی بات سے سب نے اتفاق کیا اور طے پایا کہ کل ہم جانان سے ملاقات کرتے ہیں۔
آج وادیٔ کوئٹہ میں سر شام ہی گہرے بادل چھا گئے تھے۔ اور وادی نے ہلکے اندھیرے کی شال اُوڑھ لی تھی، شان گل اپنے دوست کے ساتھ جانان کی تلاش میں جناح روڈ سے ہوتا ہوا سرکلر روڈ پر آ گیا، ریڈیو اسٹیشن سے متصل حبیب نالے میں ان گنت دیے ٹمٹماتے دیکھ کر شان گل کا دوست حیرانی سے بولا۔’’ ارے یہ کیا؟‘‘
شان گل نے دوست کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے اُسے بتایا :’’دوست! یہ کوئی چراغاں نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب ’’جہاز‘‘ ہیں۔‘‘
شان گل کی بات سن کر اُس کے دوست کی آنکھیں حیرت سے اور پھیل گئیں۔’’میں سمجھا نہیں…‘‘ دوست نے شان گل کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا تو شان گل اُسے سمجھانے لگا:
’’پگلے یہ سب نشہ کرنے والے ہیں۔ اور سگریٹ کو سلگانے کے لیے سب نے اپنے پاس کوئی نہ کوئی دّیا جلا رکھا ہے۔ اور دیکھو دو، دو تین تین کی ٹولی بنی ہوئی ہے اور سروں کو(پٹو) کپڑے کی چادر سے ڈھانپ رکھا ہے۔‘‘ شان گل نے منشیات استعمال کرنے والوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنے دوست کو بتایا۔
’’اچھا نشئی افراد کو ’’جہاز‘‘ کہتے ہیں ؟‘‘ شان گل کا دوست بولا۔
’’ہاں!… دیکھو کوئی سگریٹ میں کچھ بھررہا ہے، کوئی سگریٹ کی پنّی پر سفید پائوڈر رکھے اُس سے سگریٹ کے ذریعے کش لے رہا ہے، کوئی انجکشن کی نیڈل۔خود ہی اپنے ہاتھ کی رگوں میں کھبوئے جا رہا ہے۔یہ سب نشہ آور اشیاء کا استعمال کر رہے ہیں۔‘‘ شان گل نے اپنے دوست کو معلومات فراہم کرتے ہوئے تفصیلاً بتایا تو وہ بولا۔
’’شان! اِنھیں کوئی منع نہیں کرتا؟…اِنھیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں؟یہ تو برباد ہو جائیں گے۔ اِن کی زندگیاں تباہ ہو جائیں گی۔‘‘ اُس کا دوست ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ گیا۔دراصل وہ اِن سب کو اِس حالت میں دیکھ کر دکھی ہو گیا تھا۔تب شان گل نے اُسے بتایا:
’’پولیس اہلکار اِنھیں روکتے ہیں۔یہاں پولیس پارٹی چھاپے مارتی ہے، گرفتاریاں ہوتی ہیں مگر پھر چھوٹ جاتے ہیں اور پھر نشہ کرنے لگتے ہیں۔حکومت اِن کی اصلاح کے لیے وقتاً فوقتاً اقدامات بھی کرتی رہتی ہے۔ سرکاری سطح پر اِن کا علاج کیا جاتا ہے محکمہ سماجی بہبود اِن کی تربیت اور اِنھیں ایک اچھا شہری بنانے کے لیے مصروفِ عمل رہتا ہے۔بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں اصلاحِ معاشرہ کے لیے سرگرداں ہیں۔ اِس کے باوجود منشیات کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں…‘‘
شان گل نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا’’… ہمیں اپنے دوست جانان اور شیر خان کو ڈھونڈنا ہے۔اور اُنھیں منشیات سے بچانا ہے۔‘‘
ابھی دونوں باتیں ہی کر رہے تھے کہ شان گل کا دوست تقریباً چیخ اُٹھا’’۔۔۔و۔۔وہ۔۔۔۔۔و۔۔۔۔و۔۔وہ دیکھو!‘‘اس نے ایک لڑکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شان گل سے کہا۔’’ارے یار یہ تو اپنا جانان ہے۔‘‘
پھر یکلخت دونوں اُس کی جانب بھاگے اور اُسے پکڑ کے اپنے ساتھ لانے لگے تووہ اُن کی منت سماجت کرنے لگا’’ ۔۔ مج ۔۔۔ مجھ ۔۔۔ ھے۔۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔۔ میں نہیں جائوں گا۔۔‘‘
جانان شان گل کے آگے ہاتھ جوڑے التجائیں کر رہا تھا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا اور بار بار کہے جا رہا تھا:
’’میں گھر نہیں جاوُں گا۔میرے ابّو امّی روزمارتے ہیں۔ مجھے نہیں جانا ان کے پاس۔۔۔ نہیں جانا۔‘‘
جانان بچوں کی طرح ضد کر رہا تھا۔ اور مچل رہا تھا۔شان گل نے اُسے پیار سے سمجھایا۔’’ میرے دوست! نشہ تمھاری جان لے لے گا۔نکل آوُ اِس دلدل سے… گھر چلتے ہیں۔ہم تمھارا علاج کروائیں گے۔تم ٹھیک ہو جاوُ گے۔۔ہم تمھارے والدین سے بھی بات کریں گے۔۔سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ابھی وہ جانان کو کھینچ کر حبیب نالے سے نکال ہی رہے تھے کہ ایک دم شیر خان بھی اُن کے سامنے آ گیا۔
’’واہ… شیرو تم بھی!‘‘
شان گل شیر خان کو دیکھ کر اُس کو پکڑنے لگا۔ وہ پوری طرح نشے کی حالت میں تھا۔
اب کوئٹہ کے پہاڑوں پر مکمل اندھیرا چھا گیا تھا۔ شان گل اور اُس کا دوست دونوں کو اپنے ساتھ گھر لے آئے۔رات بھر وہ دونوں کو سمجھاتے رہے۔منشیات کے استعمال سے انسان اپنا ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔اور اسلام میں یہ سب حرام ہے، گناہ ہے۔۔۔ باتوں باتوں اُنھیں وقت کا احساس ہی نہ رہا۔۔ دور کہیں موذن فجر کی اذان دے رہا تھا:
’’ حی الصلاح، حی الفلاح۔۔۔
آوُ سلامتی کی طرف۔۔۔
آوُ فلاح کی طرف۔۔۔۔‘‘
صبح جانان اور شیر خان کی آنکھ دیر سے کھلی۔ اُن کا جسم درد سے ٹوٹ رہا تھا ۔شان گل نے انھیں بتایا کہ اُس کے ابو جان نے ایک سماجی بہبود کے ادارے سے بات کر لی۔ اُن کی گاڑی آنے والی ہے ۔وہ تم دونوں کو اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ جہان علاج ہو گا۔ تم ٹھیک ہو جائو گے۔ زندگی بدل جائے۔ تم بدل جائو گے۔ سب بدل جائے گا۔
جانان اور شیرخان کو ہیلتھ سینٹر میں علاج کراتے پورا سال ہونے کو تھا۔ وہ مکمل صحت یاب ہو چکے تھے۔
شان گل نے محلے کے کئی اور لڑکے جو نشہ کرنے لگے تھے سب کا علاج کرا کے اُنھیں ایک فعال شہری بننے میں بھر پور محنت کی تھی۔اُس کے ابو نے بھی مثالی کردار ادا کیا تھا۔
آج جانان اور شیر خان گھر آرہے تھے۔سب خوش تھے اور سب سے زیادہ جانان اور شیرو کے ابا اماں خوش تھے کہ اُن کے بیٹوں کو نئی زندگی مل گئی تھی۔
جب جانان اور شیر خان گھر آرہے تھے تو شان گل نے کہا۔’’اب تو نشہ نہیں کرو گے؟‘‘
’’ توبہ توبہ۔۔۔۔ کبھی نہیں ۔‘‘جانان اور شیرو کانوں کو پکڑے بولے تو سب ہنسے گے۔
اب سوچ بدل گئی تھی۔اُنھیں نئی زندگی مل گئی تھی۔