skip to Main Content

مجھ اکیلے کو دعوت قبول نہیں

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

نمارق کی لڑائی، جس کا ذکر پیچھے آ چکا ہے، اس میں ایرانیوں نے شکست کھائی تو ایرانی حکومت نے اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے شہزادہ نرسی کو ایک اور زبردست فوج دے کر مسلمانوں پر حملہ کے لیے بھیجا۔ اس فوج اور اسلامی فوج کے درمیان سقاطیہ کے مقام پر گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ ایرانیوں نے اسلامی فوج پر بار بار زور دار حملے کیے لیکن مسلمانوں کے تیز وتند جوابی حملوں کے سامنے ان کی کچھ پیش نہ چلی اور وہ بری طرح شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس لڑائی میں بے شمار مال غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ اس میں کھانے پینے کی چیز یں بہت بڑی مقدار میں تھیں، ان میں کھجور کی ایک قسم ”نرسیان“ بھی تھی۔ یہ بہت ہی مزیدارتھی اور اس میں دل کو لبھانے والی خوشبوتھی۔ ایرانی فوج کے بڑے افسروں کے سوا یہ اور کسی کونہیں دی جاتی تھی لیکن جب یہ کئی من کی مقدار میں مسلمانوں کے ہاتھ آئی تو اسلامی لشکر کے سپہ سالار حضرت ابوعبید ثقفی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ کھجور یں اپنی فوج کے سارے سپاہیوں میں تقسیم کیں بلکہ عراق کے جن علاقوں پر مسلمانوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں کے غریب کسانوں کو بھی کھلائیں اور ان کا پانچواں حصہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں کے لیے اپنے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھی بھیجا۔
ایرانیوں کو شکست دینے کے بعد اسلامی فوج کچھ دن کے لیے سقاطیہ ہی میں ٹھہر گئی۔ وہاں سے حضرت ابوعبید نے فوج کے چھوٹے چھوٹے دستے بھیج کر اردگرد کے سارے علاقے کو بھی فتح کر لیا۔ اس علاقے میں بے شمار گاؤں تھے۔ان میں سے بعض گاؤں کے مالک بڑے بڑے زمیندار یا رئیس تھے۔ ایک دن دو بڑے رئیسوں نے نہایت عمد ہ عمدہ کھانے پکوائے اور انہیں لے کر حضرت ابوعبید کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت ابو عبید نے ان سے پوچھا:”یہ کھانے کیسے ہیں؟“
رئیسوں نے عرض کیا:”جناب یہ ہماری طرف سے آپ کی دعوت ہے۔“
حضرت ابوعبید نے فرمایا:”کیا آپ نے ہماری ساری فوج کے لیے ایسے کھانے پکوائے ہیں؟“
انہوں نے عرض کیا:”نہیں جناب! یہ صرف آپ کے لیے ہیں، جلدی میں ہم ساری فوج کے لیے کھانے نہیں پکوا سکے۔“
یہ سن کر حضرت ابوعبید نے ان کی دعوت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا:
”ہم سب مسلمان برابر ہیں، کوئی ایک مسلمان اپنے کو دوسرے کسی مسلمان سے بڑا نہیں سمجھتا۔ افسوس ہے ابوعبید پر کہ وہ اکیلے اکیلے مزیدار کھانے کھائے اور دوسرے مسلمانوں کو نہ پوچھے خدا کی قسم جب تک سارے مسلمانوں کے لیے ایسے کھانے مہیا نہ ہوں گے میں ان کو ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔“
ان رئیسوں نے کہا:”ہمیں تھوڑ ا ساوقت چاہیے، ہم ساری فوج کے لیے کھانے پکوائے دیتے ہیں۔“
یہ کہہ کر وہ واپس گئے اور ساری فوج کے لیے کھانے پکوا کر حضرت ابوعبید کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اب انہوں نے ان کی دعوت قبول کر لی اور جب تک ساری فوج ان کھانوں سے شکم سیر نہ ہوگئی انہوں نے ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top