سرپھرا
صداقت حسین ساجد
۔۔۔۔۔
’’جناب! کیا میں اندر آسکتا ہوں۔‘‘
کمرے میں موجود شخص نے چونک کر دروازے کی سمت دیکھا، جہاں شلوار قمیص میں ملبوس ایک نوجوان اپنے ہاتھ میں فائل لئے کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر ناگواری کے آثار پیدا ہوگئے… کچھ سوچ کر اس نے ناگوار لہجے میں کہا:
’’یس …!‘‘
جب وہ اندر داخل ہوا تو اس شخص نے ایک کرسی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’سٹ ڈائون…‘‘ (بیٹھ جائو)
’’شکریہ…!‘‘ یہ کہہ کر وہ نوجوان کرسی پر بیٹھ گیا۔ دوسرے شخص کے چہرے پر ناگواری کے اثرات بڑھ گئے تھے۔
’’یور نیم از حفیظ…؟‘‘ انداز سوالیہ تھا۔
’’جی ہاں…!‘‘
’’تمہارے ڈاکومنٹس کدھر ہیں؟‘‘
یہ سُن کر کاشف نے احترام سے اپنے کاغذات والی فائل کھول کر اس کے سامنے رکھ دی۔ اس نے کاغذات اُلٹ پلٹ کر دیکھنے شروع کردیے… ساتھ ساتھ وہ بولتا جارہا تھا:
’’میٹرک ان A+ (میٹرک میں A+ گریڈ) ایف اے ان A گریڈ (ایف اے میں A گریڈ)، بی اے ان A گریڈ (بی اے میں A گریڈ)، ایم اے ان A+ گریڈ (ایم اے میں A+ گریڈ)۔ ویری گڈ…! بٹ ایم اے ان اردو… (لیکن ایم اے اردو) واٹ…!‘‘ وہ چلا اُٹھا۔
حفیظ سر جھکائے اسے سنتا رہا۔
’’اٹ از اے ونڈر فول…!‘‘ (یہ ایک عجیب بے وقوف ہے)۔
’’جناب! یہ کس طرح بے وقوفی بنتی ہے؟‘‘
’’یہ کیا جناب… جناب کی رٹ لگا رکھی ہے… انگلش میں بات نہیں کرسکتے…‘‘
’’کرسکتا ہوں لیکن…!‘‘
’’کیا لیکن…؟‘‘
’’لیکن ہماری قومی زبان اردو ہے… اس لئے ہمیں اردو بولنی چاہئے… میں انگریزی میں اتنا کمزور بھی نہیں ہوں کہ بول نہ سکوں… آپ میری اسناد بغور ملاحظہ فرمائیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ میں نے بی اے تک انگریزی میں A+ گریڈ حاصل کیا ہے۔‘‘
’’تم مارو اردو کو گولی…!‘‘
’’جناب! یہ… یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں!‘‘
’’آئی ایم رائٹ…!‘‘ (میں ٹھیک کہہ رہا ہوں)
’’لیکن جناب…!…‘‘
’’نو یو شٹ اپ اینڈ گٹ آئوٹ۔‘‘ (اب خاموش ہوجائو اور تم جاسکتے ہو)
حفیظ نے اثبات میں سر ہلایا اور اُٹھ کھڑا ہوا۔
٭…٭…٭
یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا… چار پانچ دفعہ پہلے بھی ایسا ہوچکا تھا… حفیظ سارے ٹیسٹ پاس کرلیتا تھا، مگر… مگر انٹرویو دیتے وقت گڑبڑ ہوجاتی تھی… انٹرویو پینل اس سے انگلش میں سوال کرتا، لیکن وہ اردو میں جواب دیتا… اس سے وہ چڑ جاتے اور ملازمت نہ ملتی… اس کے باوجود وہ نہ سدھرا۔
حفیظ گھر میں داخل ہوا تو امی نے اُمید بھری نظروں سے اس کو دیکھا۔ لیکن انہیں اس کے چہرے پر ایک عجیب اطمینان نظر آیا… قدم شکست خوردہ تھے۔ امی نے اس کے سامنے کھانا رکھا… جب وہ کھانا کھا چکا تو امی نے پوچھا:
’’بیٹا! کیا بنا…؟‘‘
’’انٹرویو میں فیل ہوگیا ہوں۔‘‘
’’یہ بھی اردو کی ضد کا نتیجہ نکلا ہے نا!‘‘
حفیظ نے اثبات میں سر ہلایا تو امی روہانسے لہجے میں بولیں:
’’بیٹا! تم اپنی ضد چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔‘‘
’’امی نوکری ملنی ہے تو مل جائے گی لیکن میں اپنی اس ضد پر قائم رہوں گا۔‘‘
امی اسے افسوس سے دیکھتے ہوئے برتن اُٹھا کر چلی گئیں۔
اسے جنون کی حد تک اردو سے محبت تھی… لیکن اس کے جذبات کی کون پروا کرتا۔ شام کو ابو دفتر سے لوٹے… وہ ایک فیکٹری میں کلرک تھے… حفیظ کے علاوہ ان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں اور تھیں… وہ ابھی زیرِ تعلیم تھے… پہلے پہل تو ابو کی تنخواہ سے لشتم پشتم گھر کا گزارہ ہورہا تھا، مگر اب بڑھتی مہنگائی نے ان کا گزارہ مشکل کردیا تھا… ابو نے حفیظ کے بارے میں کیا کیا خواب دیکھے تھے، مگر حفیظ کی اس عجیب سی ضد نے وہ سب چکنا چور کردیے۔ وہ حفیظ کو کئی بار سمجھا چکے تھے:
’’بیٹا! تم اپنی اس ضد سے کیا انقلاب لائوگے… یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے… تمہاری حالت تو نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنے گا والی ہے… یہ ضد چھوڑ دو۔‘‘
’’ابو میں اپنی ضد سے باز نہیں آئوں گا۔ بے شک میری کوشش سمندر کے مقابلے میں قطرے کی مانند ہوگی… مجھے اُمید ہے کہ میری کوششیں رنگ لائیں گی۔ ان شاء اللہ۔‘‘
اب تو انہیں اپنی بیگم کا چہرہ دیکھ کر ہی پتا چل جاتا تھا… صاحبزادے اپنی ضد سے باز نہیں آئے۔ اب انہوں نے حفیظ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ ہر بار کی ناکامی سے حفیظ بددل نہیں ہوتا تھا… بلکہ اس کا حوصلہ مزید بڑھتا تھا۔
دوست احباب اور دوسرے لوگ اس پر افسوس کرتے۔
’’بڑا بے وقوف ہے۔ اس کی ہٹ دھرمی اسے کہیں کا نہ چھوڑے گی۔‘‘
لیکن اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔ اب تو سب اسے حفیظ کی بجائے ’’سرپھرا‘‘ کہنے لگے۔
٭…٭…٭
’’جناب! میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘
’’آئو، آئو بیٹا!‘‘
اندر موجود شخص نے مسکرا کر کہا تو حفیظ حیران رہ گیا… اسے یوں لگا جیسے اب اسے اس کے صبر کا صلہ ملنے والا ہے۔افسر ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔ اس نے حفیظ کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا:
’’بیٹا! مجھے بڑی خوشی ہوئی ہے… تمہیں اردو بولتے دیکھ کر۔‘‘
حفیظ کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ افسر کہہ رہا تھا:
’’بیٹا! مجھے مختلف لوگوں سے پتا چلا کہ تمہیں اردو بولنے کی وجہ سے کئی بار اچھی اور اعلیٰ ملازمتیں نہیں ملیں… حالانکہ تمہیں انگریزی بول کر اعلیٰ ترین ملازمت مل سکتی تھی… تمہیں اردو سے جنون کی حد تک محبت کیوں ہے؟‘‘
’’جناب! میں نے پڑھا تھا … جو قومیں اپنے اسلاف، اپنے رہنمائوں کی پیروی کرتی ہیں… ان کی باتوں پر عمل کرتی ہیں… وہ یقیناترقی کرتی ہیں… میں نے بھی بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے اس فرمان پر عمل کیا جو انہوں نے اردو کے متعلق فرمایا تھا… انہوں نے اردو کے بارے میں فرمایا:
’’آج سے پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی۔ سرکاری دفاتر میں بھی یہی زبان استعمال ہوگی… کیونکہ یہ ہماری پہچان ہے۔ میں نے اس پر عمل کیا… کئی مشکلات آئیں… لیکن مجھے یقین تھا کہ میں ایک نہ ایک دن ضرور کامیاب ہوجائوں گا… اسی میری ضد کی وجہ سے لوگ مجھے ’سر پھرا‘کہتے ہیں۔‘‘
’’تم واقعی ’سر پھرے‘ ہو۔‘‘ افسر نے کہا تو وہ مسکرا اُٹھا۔
جب وہ باہر نکلا تو اس آسامی کے لئے اس کا تقرر ہوچکا تھا۔
جب اس کے دوستوں کو پتا چلا تو وہ حیرت سے گنگ رہ گئے۔ ’سرپھرے‘نے ناممکن کو ممکن کردکھایا تھا۔