سادھو کی دعاء
بھارت کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
نر ملا اور کوشلیا، دونوں ایک گاؤں میں رہتی تھیں۔ نرملا بہت امیرتھی جبکہ کوشلیا بہت غریب تھی۔ نرملا کوکسی چیز کی کمی نہ تھی۔ ڈھیروں نوکر انکی حویلی میں کام کرتے تھے۔ پھر بھی اسکی تیوری پہ ہردم بل پڑے ر ہتے تھے۔ شاید ہی اس نے کبھی سیدھے منہ کسی سے بات کی ہو۔ کوشلیا ایک جھونپڑی میں رہتی تھی۔ اسکے بہت سارے بچے تھے۔ شوہر محنت مزدوری کر کے اتنا ہی کما تا کہ روکھی سوکھی کھالیں۔ پھر بھی کوشلیا سب سے اخلاق سے پیش آتی اور ہر کسی کی مد دکو تیار رہتی۔
ایک روز کوشلیا کا میاں شام کو خالی ہاتھ لوٹا۔ اسے کوئی کام نہ مل سکا تھا۔ کوشلیا نے رسوئی کا جائزہ لیا تو تھوڑے سے چاولوں اور نمک کے سوا کچھ نہ تھا۔ میاں بیوی نے سوچا کہ یہ چاول بچوں کو کھلا دیں گے اور خودآج بھو کے ہی سور ہیں گے۔ کوشلیا نے چولہے میں آگ جلائی اور سب چولہے کے اردگرد بیٹھ گئے۔ اتنے میں ایک سادھو کا ادھر سے گزر ہوا۔ و ہ نرملا کی حویلی سے ہو کر آیا تھا۔ وہاں اس نے دروازے پہ جا کر آواز لگائی تو نر ملا نے نوکروں کو حکم دیا کہ اس منگتے کو دھکے دے کر بھگا دو۔ کوشلیا کے چولہے پہ ہانڈی چڑھی دیکھ کر اس نے کھانے کو کچھ مانگا۔ کوشلیا پہلے تو پریشان ہوگئی کیونکہ چاول بہت تھوڑے تھے۔ پھر اس نے سوچا کہ بچوں کے ساتھ مل جل کر سادھو مہاراج بھی کھالیں گے تو کچھ نہ کچھ گزارہ ہو ہی جائیگا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر نمستے (سلام) کہا اور سادھو مہاراج کو بھی چولہے کے قریب بٹھالیا۔ چاول پک گئے تو کوشلیا نے بچوں اور مہاراج کو کھانا دے دیا۔
”تم لوگ ہمارے ساتھ کیوں نہیں کھار ہے؟“ سادھو نے پوچھا تو دونوں میاں بیوی نے بھوک نہ ہونے کا بہانہ کیا مگر سادھو بابا نے اصرار کر کے انہیں بھی کھانے میں شریک کر لیا اور حیرت کی بات یہ ہوئی کہ ان تھوڑے سے پاولوں میں سب کا پیٹ بھر گیا۔ کھانے کے بعد کو شلیا نے سادھو سے کہا کہ اتنی رات کو آپ کہاں جائیں گے۔ آج یہی سو جائیے۔ صبح اٹھ کر چلے جائیے گا۔ چنانچہ رات کوسا دھو ان کا مہمان رہا۔
صبح اٹھ کر کوشلیا نے سوچا کہ و ہ نر ملا سے تھوڑے سے چاول ما نگ لاتی ہے تا کہ سادھو بابا کوناشتہ کروادے۔ مگر بابا تو جانے کو تیار کھڑے تھے۔ انہوں نے کوشلیا کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا کہ میری دعا ہے کہ آج تم جوبھی کا م شروع کرو وہ شام تک ختم نہ ہو۔ پھر و ہ لاٹھی کھٹ کھٹ کرتے چلے گئے۔ کوشلیاکو کچھ بھی سمجھ نہ آیا کہ بابا نے کیا کہا ہے۔ اسے تو فکر ہورہی تھی کہ ابھی بچے اٹھ بیٹھیں گے اور کھانے کو مانگیں گے۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ پچھلے تہوار پراسکی ماں نے اسے جوقیمتی کپڑا تحفے میں دیا تھا۔ اسے نرملا کے ہاتھ بیچ کروہ آج بچوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرے گی۔
اتنے میں کوشلیا کی بڑی لڑ کی اٹھ بیٹھی۔ ماں نے اسے کپڑا اور فیتہ لانے کو کہا۔ جب وہ لے آئی تو کو شلیا نے کپڑا نا پنا شروع کیا۔ اب وہ کپڑانا پتی جارہی ہے اور کپڑ ا ہے کہ کم ہی نہیں ہور ہا۔ یہ کیا ہور ہا ہے؟ اتنا کپڑا تو نہ تھا؟؟ اس نے حیران ہو کر سوچا اور پھر اسے سادھو کی دعایا دآ ئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی جھونپڑی کپڑے سے بھر گئی۔ بچے اور میاں بھی اٹھ بیٹھے تھے اوریہ تما شاد یکھ رہے تھے۔ کپڑا جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ اب گاؤں کے لوگ بھی جمع ہونے گئے۔ ناپتے ناپتے کوشلیا کے ہاتھ تھک گئے۔ کندھے دکھنے لگے مگر کپڑ انکلتا چلا آرہاتھا اور کوشلیا کوجیسے اپنے اوپر کچھ اختیار نہ تھا۔ آخر دن ڈھلنے لگا اور جب سورج نے مغرب میں منہ چھپایا تب کوشلیا کا کام ختم ہوا۔ اب وہ غر یب عورت نہ تھی۔ اس قیمتی کپڑے کی بدولت ان کے دن پھر سکتے تھے۔ پورے گاؤں میں سادھو کی کرامت کے چر چے ہو رہے تھے۔ بات نرملا کے کانوں تک بھی پہنچی۔ وہ بہت پچھتائی کیونکہ سادھو نے پہلے اسکے دروازے پر دستک دی تھی۔ اس نے نوکروں کو کہا کہ وہ سادھو کی تلاش میں نکل جائیں اور جہاں سے اور جیسے بھی ممکن ہوا سے پکڑ لائیں۔ شام تک نوکر اسے ڈھونڈ لانے میں کامیاب رہے۔ نر ملا نے حویلی کے دروازے پر اس کا استقبال کیا۔ مگر اپنا راستہ کھوٹا ہونے پہ سادھونا خوش نظر آ تا تھا۔
نرملا نے خوب اچھے اچھے کھانے پکوار کھے تھے پر سادھو نے چند نوالوں سے زیادہ نہ کھایا۔ اسے سونے کے لئے عمدہ بستر پیش کیا گیا۔ وہ خاموشی سے لیٹ گیا۔ اگلی صبح نر ملا کی آنکھ کھلی تو سادھو جانے کو تیار کھڑا تھا۔ نرملا کی بانچھیں کھل گئیں۔ اس نے سادھو کونا شتے کوبھی نہ پوچھا اور اس کی طرف تکنے لگی کہ اب مجھے یہ کیا دعادے گا؟ سادھو نے اسے بھی وہی دعادی جوکو شلیا کو دی تھی اور اپنی راہ لی۔ نر ملا خوشی خوشی اپنی ملازمہ کوآواز یں دینے لگی کہ وہ بکس سے کپڑا اور فیتہ لے آئے مگر وہ نجانے کہاں غائب تھی۔ کافی دیر گلا پھاڑنے پہ بھی جب وہ نہ آئی تو اس نے سوچا کہ چلو ملازمہ کے آنے تک میں نہا ہی لوں۔یہ سوچ کر وہ کنویں کے قریب رکھی پانی سے بھری بالٹی اٹھا کر غسل خانے کی طرف چلی مگر بیچ راستے میں اس کا پیر پھسلا اور وہ دھڑام سے گر پڑی۔ سادھو کی دعا کا اثر شروع ہو چکا تھا۔ وہ انجانے میں ایک کام کو ہاتھ لگا بیٹھی تھی۔ وہ اٹھتی،کنویں سے بالٹی بھرتی،اسے لے کر غسل خانے کی طرف جاتی اور راہ میں دھڑام سے گر جاتی۔ وہ خودکوروکنا چاہتی تھی مگر نجانے کیوں یہ کام کئے جارہی تھی۔ اسکے بازو شل ہو چکے تھے۔ گر گر کر برا حال تھا۔ پہلے گھر کے لوگ جمع ہوئے اور پھر پورا گاؤں یہ تماشا دیکھنے جمع ہو گیا۔ خدا خدا کر کے دن ڈھلا اور نرملا کی سزاختم ہوئی۔ مہینوں وہ بستر پہ پڑی رہی۔ لیکن جب ٹھیک ہوئی تو بہت سی باتیں اسکی سمجھ میں آ چکی تھیں۔