skip to Main Content

نرالے شوق

پاکستان کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
بشیر!تم کر کیار ہے ہو؟“ میں نے زور سے پوچھا تو وہ چونک کر ادھر ادھر دیکھنے لگا پھر سامنے مجھے دیکھ کرکھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
”با جی! آپ نے تو مجھے ڈرا ہی دیا۔ ابھی کچھ دیر میں آپ کی طرف آؤں گا پھر بات ہوگی۔“ یہ کہہ کر وہ اندر بھاگ گیا۔
بشیر ہمارے سامنے والے گھر میں رہتا ہے۔ گیارہ بارہ برس کا ہے۔ بلاکاذہین اور شریر ہے۔ آج صبح میں بالکونی میں بیٹھی صبح کی نرم دھوپ کا مزہ لینے کے ساتھ ساتھ کچھ لکھنے کی کوشش بھی کر رہی تھی تو میری نظر بشیر پر پڑی۔ وہ کبھی تو سر کے بل کھڑا ہونے کی کوشش کرتا اور کبھی کسی مجسمے کی طرح ساکت بیٹھ جاتا۔ کبھی آنکھیں بند کر کے کان کھجانے لگتا۔ پہلے تو میں سمجھی کہ و ہ ورزش کر رہا ہے پھر مجھے لگا کہ وہ کسی الجھن میں مبتلا ہے۔ اس لئے میں نے آواز دے کر پوچھ لیا مگر وہ کوئی جواب دینے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کر کے بھاگ گیا۔ میں سر جھٹک کر لکھنے میں مصروف ہوگئی۔
دو پہر کو جب مجھے صبح والا معاملہ بالکل یاد نہ ر ہا تب بشیر ہنستامسکراتا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ تب مجھے اسکی حرکتیں یادآئیں اور میں نے پوچھا۔”ہاں بھئی!اب کہو۔ کیا یوگ کے آ سن شروع کر دیئے ہیں؟“
”نہیں با جی!وہ در اصل میں ایک مسئلے پہ غور کر رہا تھا۔“
”کیا مسئلہ؟“ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔
”در اصل کل میں نے ایک رسالے میں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے کچھ ریکارڈ پڑھے تو خیال آیا کہ یہ ریکارڈ بنانے تو بہت آسان ہیں۔ ایسا کچھ نہ کچھ تو میں بھی کر سکتا ہوں کہ میرانام بھی اس کتاب میں آجائے۔ تو اس وقت میں یہی غور کررہا تھا۔“
”اچھا؟ تو پھر کیا سوچاتم نے؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”یہی کہ میں کاغذ کا ایک جہاز بنا کر کسی او نچی بلڈ نگ سے نیچے پھینکوں اور جہاز سے پہلے نیچے پہنچ کراسے کیچ کرلوں۔ یا پھرمنی کو ایسا زوردار دھمو کہ لگاؤں کہ چوبیس گھنٹے تک اس کا با جابند نہ ہو۔ بس ایسا ہی کوئی کارنامہ کر کے عالمی ریکارڈ بنایا جاسکتا ہے۔“
”بھئی یہ کیا اول فول بک رہے ہو؟ کیار یکارڈ اس طرح قائم ہوتے ہیں؟؟“
”جی بالکل۔ اب دیکھیے ایک صاحب نے بیس منزلہ گول گول گھومنے والی سیڑھیوں سے ایک انڈالڑھکایا اور نیچے پہنچ کر منہ کھول کر کھڑے ہو گئے۔ انڈا ان کے منہ میں لینڈ کر گیا اور ورلڈ ریکارڈ قائم۔“
”اچھا؟“ مجھے بے ساختہ ہنسی آ گئی۔
”جی ہاں! اور سنیے۔ ایک محترمہ نے اپنے ناخن کئی فٹ بڑ ھار کھے ہیں پھر بھی ہر کام کر لیتی ہیں۔ مثلاً استری کرنی ہو تو اپنے ناخنوں کو موڑتو ڑکر ہتھیلی پران کی تہیں جماتی ہیں اور استری کرنے کھڑی ہو جاتی ہیں۔“
”مگر اس طرح کھانا تو نہیں پک سکتا،نہ صفائی، دھلائی کے کام ہو سکتے ہیں۔“ ناز جوقریب ہی بیٹھی چپ چاپ سن رہی تھی۔ ایک دم بول پڑی۔
”بلا سے نہ ہو سکتے ہوں مگر ورلڈ ریکارڈ تو بن گیانا؟“بشیر نے کمال سنجیدگی سے جواب دیا۔
”اورایسے بے شمار ریکارڈ ہیں جن کی تفصیلات سن کر بند ہ بس ہنس ہی سکتا ہے۔“اچا نک سکندر کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولا۔ ”مثلاً ایک دلہن نے اپنی شادی کے لباس کا پچھلا حصہ دو میل لمبا بنوایا تا کہ عالمی ریکارڈ بن جائے۔ کسی نے گزوں مونچھیں بڑھارکھی ہیں تو کسی کے سر کے بال زمین پر جھاڑو دیتے نظر آتے ہیں۔ کسی نے سارے بدن اور چہرے میں موتی پرو رکھے ہیں۔ کوئی کھا کھا کر ریکارڈ بناتا ہے۔ کوئی مرچیں پھانکتایا کانچ نگلتا اور کیل نوش جاں کرتا نظر آ تا ہے۔ کوئی کاغذ کے محل بنا رہا ہے۔ کوئی لہروں کوگرفتار کر رہا ہے۔“
”فکر نہ کرو۔ اب پاکستان بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ ہمارے بشیر صاحب کاغذ کا جہاز اڑا کر کیچ کر یں گے یا منی کو دھمو کہ لگا کر چوبیس گھنٹے اس کا با جابجوا کر عالمی ریکارڈ قائم کرنے کا ارادہ ر کھتے ہیں۔“ میں نے ہنستے ہوئے بتایا۔
ویسے تو عالمی ریکارڈ کے لئے ہمارے پاس اور بھی بہت در نایاب موجود ہیں۔ مثلاً کونے کی دکان کے فتو پہلوان کالسی پینے کا ریکارڈ، ماسی بختاں اور آ پا بر کتے کی وہ جنگ جسے وہ مدتوں سے شام کو ہانڈی کے نیچے بند کرتی ہیں اور صبح سویرے پھر نکال لیا کرتی ہیں۔“ سکندر نے بھی ہنس کر کہا۔
”بس پھر طے ہے کہ بہت جلد میں اور سکندر بھائی گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں پاکستان کا نام لکھوانے کوکوئی نہ کوئی شغل ڈھونڈ ہی لیں گے۔ ٹھیک ہے نا سکندر بھائی؟“بشیر نے پوچھا۔
”ٹھیک“ سکندر بولا۔
اس سے پہلے کہ ان کی بے تکی اور بے سرو پاباتیں آگے بڑھیں۔ ابا جان کمرے میں داخل ہوئے۔ انہیں دیکھتے ہی بشیر اور سکند ر سید ھے ہو کر بیٹھ گئے۔
”بچو! دوسرے کمرے میں، میں تمہاری گفتگو سن رہا تھا۔“
”آئیڈیا!“ نازو چٹکی بجا کر بولی۔ ”بشیر اور سکندر بھائی کی گلا پھاڑ آوازیں بھی ورلڈ ریکارڈ قائم کر سکتی ہیں۔“
”بھئی فی الحال اس ریکارڈوکارڈ کا معاملہ ایک طرف رکھو۔ میں تمہیں تاریخ سے ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔“ابا جان نے کہا تو ہم سب ان کی بات سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گئے۔
”ہارون الرشید کے دربار میں ایک شخص اپنا کمال دکھانے کے لئے حاضر ہوا۔ اس نے زمین میں ایک سوئی گاڑھی اور ایک فٹ کے فاصلے سے ایک دوسری سوئی اس مہارت سے پھینکی کہ وہ زمین میں گڑھی سوئی کے ناکے میں سے صاف گزرگئی۔ حاضرین محفل واہ واہ کر اٹھے اور وہ شخص بہت امید سے خلیفہ کو دیکھنے لگا کہ میرے اس کارنامے پہ مجھے بہت انعام و اکرام ملے گا۔ خلیفہ کچھ دیر خاموش رہا پھر سونے کے سکوں سے بھری ایک تھیلی اس شخص کو مرحمت فرما کر پوچھا،تمہیں یہ کمال حاصل کرنے میں کتنا عرصہ لگا؟ اس شخص نے دوڈھائی سال کی مدت بتادی۔ خلیفہ نے اسے اتنے ہی عرصے قید میں رکھنے کا حکم دیا کہ اس نے اپنی زندگی کے قیمتی دن ایک بیکار ہنر سیکھنے میں گنواد یے۔“
ہم سب حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر نازوکوتو ہنسی آ گئی اور میں نے سوچا کہ کل اپنے کالج سے بشیر اور سکندر کو گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے کچھ شمارے لا کر دکھاؤں گی جن میں کچھ ر یکارڈ ایسے ہیں جن میں انسان کی عزم و ہمت کی داستانیں موجود ہیں اور کچھ ایسے لطیفے بھی ہیں جومحض اپنانام اور تصویرچھپوانے کے شوق میں ایسی ایسی مضحکہ خیز حرکتیں کرتے ہیں کہ جن پہ بس ہنساہی جاسکتا ہے اور اب یہ ان پہ منحصر ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top